خوابوں کی سرزمین

14اگست 1947ء بروز جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک کو دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد اسلامی جمہوری مملکت پاکستان بن کر ابھری،ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع اور شب قدر محض اتفاق نہیں بلکہ تحفہ خداوندی ہے، جس کے قیام کے لیے مسلمانان ہند نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک طویل جنگ لڑی۔
جب ہم تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس تاریخی جدوجہد میں یہ بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے کہ مسلمان اپنے جداگانہ اسلامی تشخص پر مصر تھے کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں یا قومیت میں ضم ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔یہی نظریہ پاکستان اور علیحدہ وطن کے قیام کی دلیل تھی۔ ہر قسم کے جابرانہ و غلامانہ نظام سے بغاوت کرکے خالص اسلامی خطوط پر مبنی نظام حیات کی تشکیل ان کا مدعا اور مقصود تھا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایاتھا کہ: ’’پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا‘‘۔
یہ سیاسی اور جمہوری حقوق کی بازیابی کی جنگ تھی، جس کے لیے قید وبند کی صعوبتیں تو ایک طرف ہزاروں بہنوں کی عصمت وعفت کو تار تار کیا گیا،ناجانے کتنی عورتوں کے سہاگ اور ماؤں کے جگر گوشوں کو ہندوانتہاپسندوں نے تلواروں،کرپانوں ،سلاخوں اور برچھیوں پر اچھالا ۔مسلمانوں کے گھروں،املاک و باغات کو آگ لگادی ۔ بستیاں اور بازار راکھ بنادئیے گئے جس میں لاتعداد لوگ زندہ جل مرے۔ان کی جائیدادوں پر قبضہ جمالیاگیا ،جو قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے ان کو جگہ جگہ لوٹاگیا ۔ ہماری آزادی کا ایک ایک باب خون سے رنگین ہے،جس کی نظیر اقوام عالم کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔پاکستان میں 1951ء کو کئے گئے پہلے سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی۔80لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور 60لاکھ ہندو پاکستان سے بھارت گئے۔اس دوران مختلف واقعات میں 10لاکھ لوگ مارے گئے۔50ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔
برصغیر کے کونے کونے میں لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ کے نعروں نے مسلمانوں کے دلوں پر قبضہ کیا اورچودہ اگست کے دن آگ و خون کی ایک وادی سے گزر کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے لیئے ایک الگ وطن حاصل کیا۔
ہمیں آزادی ورثے میں ملی ہے۔ ہمارے لئے آزادی کی جد و جہد کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس لیے ہم14اگست کے دن کو بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ گھروں ، چھتوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کو جھنڈیوں سے سجانا شروع کر دیتے ہیں، سکولوں کالجوں وغیرہ میں بھی خاص پروگرام ہوتے ہیں ،ہر جگہ ترانے اور نغمے بجائے جاتے ہیں، آزادی کیک کاٹے جاتے ہیں، نوجوان طبقہ موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ اور خطرناک کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں رہی سہی کسرٹی وی چینلز بیہودہ ڈانس کے پروگرام دکھا کرپوری کرتے ہیں۔
قائداعظم کے بعد ہم مجموعی طور پر قول و فعل کے تضاد کا شکار ہوگئے ہیں۔ آزادی کی روح کو فراموش کربیٹھے ہیں، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے مگر ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی تاریخ بھول جاتی ہو اور قصے کہانیاں یاد رکھتی ہو ۔
ہمیں 14اگست جشن کی بجائے یوم فکرمنانا چاہیے ۔اس دن کو منانے کا انداز صرف سیروتفریح نہ ہو بلکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کریں کہ پاکستان کو بنے اتنا عرصہ گزر گیا ، ہم نے اُن سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا۔
قارئین کرام!چودہ اگست کا تو تقاضا ہی یہی ہے۔ ورنہ جھنڈیاں اور بیجز لگانے سے یوم آزادی نہیں منایا جا سکتا یوم آزادی ان شہیدوں کے لہو کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کی آبیاری کی اور اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا تھا اورپاکستان صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہم سب پاکستانیوں کا گھر ہے۔ اس وقت پاکستان پر ہر طرف سے دشمن کی یلغار ہے۔ استعماری طاقتیں پاک وطن کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے ملک میں قومیت، عصبیت، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کو فروغ دلوایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشار، انارکی، بدامنی، خوف، بے یقینی اور افراتفری کی فضاہے۔
ہم سب ایک دن رنگ ،مذہب ، ذات ،پات اور لسانی گروہوں کو بالاطاق رکھتے ہوئے برصغیر میں اکٹھے ہوئے تھے۔ وہاں کوئی پنجابی سندھی یا پٹھان نہیں تھا۔ وہاں صرف ہمارے سامنے پاکستان تھا مگر افسوس آج ہمارے پاس وطن تو ہے لیکن ہم ایک قوم نہیں۔آج ہم پاکستانی کہلانے کی بجائے بلوچی، سندھی، پنجابی اور مہاجر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ خدارا! اب بھی وقت ہے اس ملک کی طرف دیکھو جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اے مسلمانو! ایک قوم ہوجاؤ اوراسلام کا دامن پکڑ لو جس کی بنیاد پر میں معرض وجود میں آیا ہوں۔
اگر ہم اس ملک کے لیے کچھ کرنے کے قابل نہیں تو آئیے اللہ تعالیٰ کے حضور اس ملک خداد کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں کہ یا اللہ ہم غلامی کی تاریکیوں میں ڈوب گئے تھے، کھوگئے تھے، تو نے ہمیں امیدکی کرن دکھائی اور رہنمائی کی، ہمیں علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے ایماندار، مخلص، محب وطن رہنما عطا کئے اور ان کی رہنمائی میں تو نے ہمیں دشمنوں کو شکست دے کر پاکستان حاصل کرنے کی سعادت عطا کی۔ ہم تجھ سے پھر مدد کے خواستگار ہیں۔
یااللہ بیشک تیرے سوا کوئی رہنمائی نہیں کر سکتا، جس کی تو رہنمائی کرے اس کو کوئی نہیں بھٹکاسکتا اور جس کی تو رہنمائی نہ کرے اس کی کوئی بھی رہنمائی نہیں کر سکتا۔ اے اللہ پاک! ہمیں ظالموں، غداروں، شیطان اور اس کے کارندوں نے چہار جانب سے گھیر لیا ہے، ہمیں ان کے شر سے نجات دے۔اس وطن عزیز میں غربت، بھوک وافلاس اور ظلم نے قبضہ کرلیا ہے اس سے بھی نجات دلا دے۔آمین ثم آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں