چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

چند دن اُدھر، انتخابی روزِ میدان سے ایک  لشکرظفر مند ہوا ہے،دوسرارنجیدہ   مگر اپنے پامال  مورچوں کو حسرت سے دیکھنے کے لیے کچھ سمے کے لیے مبہوت کھڑا ہے، قوتِ فیصلہ سےیکسر محروم ۔گھوڑوں کے سموں سے اٹھنے والی دھول کئی چہروں پر پڑی ہے ،جِسے حضرات  دھاندلی کے آنچل سے صاف کرنے میں مشغول ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ دیوار پرنقش عبارت سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔افسوس ،صد افسوس ،مقامِ حیرت ! بقول میر

چشم ہو تو آئینہ  خانہ ہے دہر

منہ نظر آتا ہے دیواروں کے  بیچ

بنی گالہ میں چھوٹی چھوٹی  بادبانی کشتیاں ،جہانگیر ترین کے اعجازسے لنگر انداز ہوئیں ہیں ۔ مسافر نذرانہ پیش کرتے ہیں ،ایک پارچہ گلے میں پہنایا جاتا ہے،خبر آتی  ہے ،عکس دکھائی دیتے ہیں اورخلق انہیں  شاداں لوٹتے دیکھتی ہے۔ یہاں حکومت  سازی کے واسطے صف آرائی  کا کام ہورہا ہے۔

آج  شاہراہ ِ دستور پر ،الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر،اے پی سی کی تھیلی سے برآمد شدہ احتجاجی نسخے کا ظہوہوا ،اور بخت جاگے کہ ‘‘ہم بھی وہیں موجود تھے’’۔پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ،اے این پی ،ایم ایم اے کے کارکن منڈلیوں اور ٹولیوں کی صورت آئے ۔حد درجہ مبالغہ بھی کیا جائے تو چار سو کا آنکڑہ  پورانہیں ہوتا ۔بڑے کھلاڑی میدان میں آنے سے گریزاں ہی رہے ،سوشل میڈیا پر ن  لیگ کے صدر شہبازشریف کا ،مسلم لیگ ن کے کارکن ٹھٹھہ اڑاتے رہے ، ایک متوالے نے لکھا ‘‘لگتا ہے شہباز شریف اپنے جوتے کہیں بھول گئے ہیں،مل گئے تو حاضر ہوجائیں گے ’’۔ مگر شہبازشریف موسم کا سہارا کے کر گھر سے ہی نہ نکلے ۔۔‘‘سانوں نہر والے پُل  تے بلا کے تے خورے ماہی کتھے رہ گیا ’’۔

 ہارے ہوئے لشکر کی گود میں مبینہ دھاندلی کےنعرے کے سوا کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں!انتخابات میں کچھ ایسے چہرے قومی اسمبلی میں قدم رنجہ  فرمانے سے محروم رہ   گئے ہیں ،جن کی زندگی کا گزر بسر بس اسی سے جڑا تھا ۔ وہ نالہ و بکا کر رہے ہیں اور ناچیزکی رائے میں  یہ  ان کا جمہوری حق بھی ہے ۔ میری  نگران حکومت اور آنے والی حکومت  سے درخواست ہوگئی کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے !

احتجاجی تحریکیں رہنماؤں سے زیادہ خلق پر انحصار کرتی ہیں،خلق ساتھ نہ ہوتوماسوائے رسوائی، ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔آج ممکنہ اپوزیشن کا احتجاج دیکھ کر اندازہ لگانا سہل ہوگیا کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف یہ اتحاد محض چار روزہ ہے ، مفادات کے اسیر پنچھی چونچ میں آیا دانہ دُنکاچھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔یہ ہماری سیاست کا ہی فیض ہے کہ دیرینہ حریف،انتخابی مہم کے دوران دست و گریباں نظر آتے تھے ،پھر خلق نے یہ بھی دیکھا کہ مفاد ایک ہوا  تو آج یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ گلے ملنے کو زیادہ بے تاب کون تھا ۔جماعت اسلامی کو انتہاپسندی کی جڑ قرار دینے والے  شانہ بشانہ شریک ِ محفل ہیں ۔  شہباز شریف اور صاحبزداہ للچائی اور حسرت بھری نظروں سے پنجاب کی راج دھانی کو تکتے ہیں اور ساتھ ساتھ دھیمے سُروں پر  دھاندلی دھاندلی کا ریاض بھی کیے جارہے ہیں ۔ ادھر پیپلزپارٹی تذبذب کا شکار ہے ،سندھ ہاتھ آگیا ہے،باقی تو دس برس قبل ہی چھوٹ گیا تھا ۔میلے میں لڈی پڑے تو پاؤں لاشعوری طور پر تھرکنے سے کہاں رہتے ہیں،سو لڈی تمام ہونے تک ذرا سا جھوم لینے میں کیا حرج ہے۔اے این پی کو خیبر پختونخواہ کے عوام مسترد کرچکے ہیں ،یہ احتجاج ان کے لیے آکسیجن سے کم تو نہیں ۔ رہے فضل الرحمٰن  اور ان کے پہلو میں بیٹھے سینیٹر سراج الحق ، ان کی خدمت میں  انور شعور کا ایک شعرپیش کرتا ہوں کہ ان دونوں  کی کیفیت اس میں ڈھلی ہوئی  دکھتی ہے ۔

نہ سہہ سکوں گاغم ذات گو اکیلا میں

کہاں تک اور کسی پر کروں بھروسا میں

بزم میں کچھ ‘‘نابغے’’اس سارے نقشے کو انیس سو ستتر کے انتخابات کے بعد اٹھنے والی احتجاجی تحریک کے مصداق دیکھتے ہیں ۔ مگر حقائق سے اس بات کی تصدیق ممکن نہیں  ۔وہی جو غالب کہہ گئے!

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ۔

شاہراہوں پہ اپوزیشن ، تحریک انصاف  کا راستہ روکنے کا خواب تو دیکھ سکتی ہے مگر زمینی حقائق سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہوگا۔اپوزیشن اپنی ناکامی کے پارچے کو فتح کا رنگ چڑھانے کی سرتوڑ کوشش کرے گی ۔ ایک کی مقبولیت دوسرے کی ناکامی ثابت ہوگئی ۔  البتہ ایوانوں میں اپوزیشن کا ایکا ،تحریک انصاف کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرسکتا ہے ۔ ان پہاڑوں کو عمران خان اور اسکی ٹیم نے کیسے سَر کرنا ہے ، اس فیصلہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے چھ ماہ کریں گے ۔

حصہ
mm
فہد محمود صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں ،ایکسپریس ٹی وی میں بطو ر ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کررہے ہیں۔اسلامک انٹرنیشل یونیورسٹی سے میڈیا اینڈکمیونیکیشن میں ایم فل کررہے ہیں۔ ادب ،سیاست ،تاریخ اور بین الاقوامی حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں