پاکستان مدینہ جیسی ریاست

ملکی سیاست میں سیاستدانوں نے جہاں بڑے بڑے دعوے اور بیانات دیئے انہی بیانات میں سے عمران خان صاحب نے اس بات کا علی الاعلان اظہار کیا ہے کہ وہ ملک پاکستان کو ایسی بہترین ریاست بنائیں گیجوریاست مدینہ منورہ جیسی ہوگی ،یعنی جیسے قوانین مدینہ طیبہ میں نافذ العمل تھے ایسی ہی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے۔
بلاشبہ مدینہ منورہ کی ریاست ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ایک نمونہ اورآئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔مدینہ طیبہ کے قوانین میں سے عدل و انصاف کی ایک مثال پیش خدمت ہے ،حدیث نبوی ﷺ کامفہوم ہے کہ ایک مرتبہ جب قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی تو صحابئ رسول ﷺ سیدنا حضرت اسامہ بن زیدؓ، نبی پاک ﷺ کی خدمت میں اس عورت کی سفارش لے کر حاضر ہوتے ہیں،تو اس موقع پر امام کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر میری لخت جگر فاطمہؓ بھی چوری کرتی تومیں محمد ﷺ قانون کے مطابق اس کے اس جرم کی بنا پر ہاتھ کاٹ دیتا اور ساتھ ہی یہ ارشاد بھی فرما دیا: کہ پہلی قوموں کی تباہی اور بربادی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اگر بڑے قبیلے کا کوئی فرد جرم کرلیتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اگر چھوٹے قبیلے کا فرد کوئی جرم کرلیتا تو اس پر قانون لاگو کر کے اس کے مطابق سزا دی جاتی ۔
اسے کہتے ہیں مدینہ منورہ کی ریاست کہ قانون ہو تو سب کے لئے برابرہو، اس لئے عمران خان صاحب کا یہ بیان بہت ہی قابل تحسین اور قابل قدر ہے اورسب پاکستانیوں کو اس بیان پر خوشی بھی ہونی چاہیے ۔ہر ایک پاکستانی کی خواہش ہے کہ عمران خان صاحب ملک پاکستان کی فلاح وبہبود کے لئے اور اس کی بہتری کے لئے جو انہوں نے عوام سے وعدے کیے ہیں نبھا پائیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں کامیاب و کامران ہوں ۔اب اگرعمران خان صاحب کی قیادت برسر اقتدارآتی ہے ،تو ان کے لئے چیلنجزاور کرنے والے کام بہت زیادہ ہیں یعنی مدینہ طیبہ جیسی ریاست بنانے کے لئے انہیں بہت ہیجدوجہد ،انتھک محنت کرناپڑے گی ،انہیں پورے نظام کو بدلنا پڑے گا، تو پھر کہیں جاکر وہ اپنے بیان کے مطابق کامیاب ہو سکیں گے۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ برسر اقتدار حکومت مشکلات کھڑی کرنے کے بجائے اپنے وطن عزیز پاکستان کی کامیابی وکامرانی میں حکومت وقت کے لیے راہیں ہموار کرے تاکہ وہ اپنے اہداف اور مقاصد کوآسانی سے عملی جامہ پہنا سکیں،عمران خان صاحب کے وہ بیانات جو ملکی مفاد میں اورملک کی بہتری کے لئے ہیں اپوزیشن جماعتیں ان پر زور دیں اور انہی بیانات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کریں اور اس کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان کا دست وبازو بنیں ۔
اگر اپوزیشن ایسی ہوتی ہے کہ ملکی مفادمیں جوکام بہتر ہے، اسلامی قوانین کے خلاف نہیں ہے، اس کے آگے حائل نہیں ہوتے تو پھراصل میںیہی پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے اور یہی کام ہیں جن کے کرنے میں اسلام اور پاکستان کی بقاء ہے اور یہی ہرپاکستانی کے دل کی آواز ہے۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں