نتائج یا کریڈٹ؟

ایک فلسفی کا دریا کے قریب گذر ہوا۔ دیکھا تو ایک نوجوان ہٹا کٹا مچھیرا گھوڑے بیچ کر سو رہا ہے۔

فلسفی کو اس کی کاہلی پر بڑا تاسف ہوا اور اس کو جگا کر ایک زوردار لیکچر پلایا کہ سستی چھوڑو اور جاکر کام کرو۔

نوجوان نے پوچھا کہ کام کرنےکا فائدہ کیا ہوگا۔ اس نے کہا پیسے کماؤ گے۔

نوجوان نے کہا پیسے کمانے سے کیا ملے گا۔ اس نے کہا پیسے کماؤ گے تو رشتہ ملے گا۔ شادی ہوگی۔

نوجوان نے کہا شادی ہوگی تو کیا ہوگا۔ اس نے کہا کہ شادی ہوگی تو گھر آباد ہوگا۔ بچے پیدا ہونگے۔

نوجوان نے کہا بچے ہونگے تو کیا ہوگا؟۔ اس نے کہا بچے بڑے ہوکر تیرا سہارا بنیں گے۔

نوجوان نے کہا کہ بچے بڑے ہوکر سہارا بنیں گے تو کیا ہوگا؟۔ اس نے کہا پھر تو مزے سے آرام کرے گا۔

نوجوان نے عجیب نگاہوں سے فلسفی کو دیکھا اور کہا تو پھر اب کیا کر رہاہوں

ذرا سوچیے، ہماری سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کا رویہ کہیں اس فلسفی جیسا تو نہیں؟

اگر کوئی کام آسان طریقے سے ہوسکتا ہے تو کیا یہ ضروری ہےکہ اس کو مشکل طریقے سے ہی کیا جائے؟ اگر کان کو یوں بھی پکڑا جاسکتا ہے تو ضروری ہے کہ سر کے پیچھے سے ہاتھ گھما کر پکڑا جائے؟

ہم میں سے بہت سے لوگ عمران خان اور اس کی پارٹی کے فین نہیں ہونگے، اور بہت سے اس عام تاثر پر بھی یقین رکھتے ہونگے کہ خلائی شٹل اسے وزیر اعظم ہائوس میں لینڈ کرا ہی رہی ہے۔ لیکن اگر وہ حکومت میں آجاتا ہے اور ایک عوام دوست ایجنڈا پر عمل کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ نواز شریف کی طرح اس کی بھی ٹانگیں کھینچی جائیں؟

کیا نواز شریف نے کراچی کے امن جیسے کاموں پر جو عملی اسٹینڈ لیا تھا وہ ہمارے مجموعی قومی سیاسی ایجنڈا کا حصہ نہیں تھا۔ عمران کے ایجنڈا کو پڑھیں اور دیکھیں کیا وہ  جو کہتا ہے وہ ہمارے  مجموعی قومی سیاسی ایجنڈا کا حصہ نہیں ہے؟ فرض کریں اگر وہ اپنی ایجنڈا کا ۵۰ فیصد بھی مکمل کر پاتاہے تو کیا اس سے ہمارا ۲۵ فیصد مقصد پورا نہیں ہورہا؟

اگر ہم نے گھر تعمیر کرانا ہے تو کیا ضروری ہے کہ اینٹیں اور گارا بھی ہم اپنے ہاتھ سے ہی بنائیں۔ اگر ایک بیس منزلہ عمارت میں لفٹ موجود ہے تو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے میں کون سی عقلمندی ہے۔

ہم نے ایک مرتبہ اپنے نواسے کو آئیس کریم کون دلایا اور بچے کی سہولت کے لئے ریپر کھول کر اسے دیا تو وہ بگڑ گیا کہ یہ آپ نے کیوں کھولا۔ اب میں یہ نہیں کھاؤں گا۔ مجھے اور دلادیں اور میں پہلے “خود” کھولوں گا اور پھر کھاؤں گا۔

ہمارا مجموعی قومی سیاسی رویہ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمیں نتائج سے زیادہ کریڈٹ لینے میں دلچسپی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کام ہونا چاہیے اورہمارےہاتھ سے ہونا ہی چاہیے ورنہ بیکارہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گرائونڈ کے ایک سرے سے گیند ہم ہی لے جائیں اور ہم ہی اس کو مخالف کے گول میں اپنے پاؤں سے اندر کریں۔ کسی کےپاس کی بیچ میں کوئی ضرورت نہیں۔

فرض کریں کہ نواز شریف یا عمران یا کوئی اور سیاستدان ہمارا آدھا قومی ایجنڈا دس سال میں مکمل کرسکتاہےتو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بیس سال ان کو ہٹانے میں صرف کریں تاکہ ہم اپنی ذاتی پسند کی پارٹی یا لیڈر سے اگلے بیس سال میں اپنا ایک چوتھائی ایجنڈا مکمل کرائیں۔

آخر ہمارا رویہ اس شخص جیسا کیوں ہوتا ہے جو حجامت کے پیسے بچانے کے لئے اپنے سر کے بال خود کاٹنے کی کوشش کرتا ہے؟؟؟؟

دوستو، سوچ سکو تو سوچو

حصہ

جواب چھوڑ دیں