روز کے تماشے

وہ اپنے سر کو بچانے کی کوشش میں مصروف تھا۔

 پتہ نہیں وہ عادی تھا اس سلوک کا یا  یہ اس کا  پہلا  جرم یا گناہ تھا جس کی سزا بھگت رہا  تھا۔

کسی کے ہاتھ میں لوہے کی راڈ تو کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا کوئی جوتے اور کسی نے ہاتھوں سے ثواب سمیٹنا چاہا۔بس چند منٹوں میں ایک جم غفیر اس کے گرد جمع تھا لوگ بھاگنے نہیں دے رہے تھے۔ بس بچنے کے لیے سر جھکا کر بازوؤں سے سر کو چھپانا چاہ رہا تھا

کہ کوئ راڈ یاا ڈنڈا،سر پر نہ لگ جائے۔

پریشانی سے سبب   پوچھا کیا ہوا کیوں ماررہے ہیں اسے ؟؟   جن کے لئے تماشہ وہ کھڑے دیکھ رہے تھے  جنھیں  ثواب لینا تھا وہ اسے گھسیٹے مارتے رہے  گناہ یا جرم کا پتہ کسی کو نہ تھا۔

ایک نے کہا کرمنل ہے۔

کرمنل ؟؟؟

تو ایسے مارتے ہیں سریوں اور ڈنڈوں سے کہ بندہ مر ہی جاۓ …

جیب کاٹی یا چوری  کی ہوگی … جرم کیا ہے تو اسے پولیس کے حوالے کریں

اس سے بڑے بڑے  کرپٹ لوگ بڑے جرائم پیشہ لوگوں کو آپ  ایوانوں میں بٹھادیتے ہو  ووٹ دے کر۔

 وہاں کچھ نہیں کہتے ……

چھوٹے چور اچکوں  جن پر بس چل جاتا ہے ان کی جان لینے کے در پہ ہیں

وہاں کھڑے ایک دو لوگ سر ہلا کر چپ ہورہے۔

کچھ دیر بعد جب مار مار کے تھک گئے۔

 یا شاید کام یاد آگیا کہ کس کام چلے تھے گھر سے  تو کسی نے پولیس کو فون کردیا

جو بڑی تیزی سے آتی دکھائی دی شاید اسے بھی اپنا کھانچہ نظر آرہا تھا … ورنہ بے گناہوں کی نہ  چیخیں سنائی دیتی ہیں،سر راہ  پڑی  لاشیں ہوں  دکھائی دیتی ہیں

.یہی صورتحال اس ہمارے اس پورے معاشرے اور قوم کی ہے

   جو جینٹک چینج  انگریز کی غلامی  اور اس سے پہلے بادشاہت  کی غلامی میں آچکا ہے

 اسکی ری کنڈیشنگ کے لئے ستر سال ناکافی ہیں  اسکے اثرات  اب بھی پورے آب وتاب سے اب بھی  ہیں۔

 ہر  صاحب حیثیت ہر طاقت ور  کے غلام  …. مار پیٹ گالم گلوچ  اور اپنے جیسے کمزور غلاموں کو  ذرا ذرا سے  جھگڑوں میں کچل ڈالنا  …  کوئی تہذیب باقی نہیں

صدیوں کی غلامی نے وحشی بنا دیا ہے

 احساس اور ضمیر  سے عاری ہیں

 جس  آقا نے جو کہہ دیا چپ چاپ چل پڑو… کوئی تمھارے بیٹے اٹھالے اور کوئی تمھیں یتیم کرے یا تمھیں بیچ دے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پیروں میں پڑی بیڑیاں و اتاری جاسکتی ہیں لیکن ضمیرپر پڑی زنجیریں بھلا کب دکھائی دیتی ہیں۔

روز کے تماشے دیکھ کر ” مسدس حالی”  یاد آ جاتی ہے

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ

 ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ

  فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

  نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا

  کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

  لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا

  کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں