محتصر تاریخ پاکستان‎

پاکستان کے ’’یومِ ولادت‘‘ سے لے کر ’’1999ء‘‘ تک مختلف ’’ادوار‘‘ کو اگر ’’کوزۂ اختصار‘‘ میں بند کیا جائے تو منظرنامہ کچھ اس طرح سامنے آئے گا۔
1947ء سے 1958ء تک کا دور
ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کتنا مشکل کام ہوتا ہے، لیکن ایمان داری کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ’’نیّا پار لگانے سے‘‘ زیادہ اس کو ’’سینچنا‘‘ اور لہلہلاتے کھیت اور باغات میں تبدیل کرنا اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل اور محنت طلب کام تھا۔ یہ گیارہ سالہ دور گو کہ بہت مثالی تو نہیں گزرا، اور یہ بھی کہ اس دور میں پاکستان بنانے والی پارٹی ہی اس کی تباہی و بربادی میں برابر کی حصہ دار رہی، لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کا سفر آگے کی جانب ہی گامزن رہا۔ اسی دور میں کشمیر پر بھارت کی پیش قدمی کا منہ توڑ جواب بھی دیا گیا اور ایک وسیع علاقے کو بھارت کی دسترس سے بچا بھی لیا گیا، اور ’’اقوامِ متحدہ‘‘ میں کشمیر کی ’’ایف آئی آر‘‘ بھی درج کرادی گئی جس کی وجہ سے آج بھی بھارتی حکومت پریشان رہتی ہے۔ اسی دوران ایک ’’نومولود‘‘ ملک کا آئین بھی بنا لیا گیا جس کو 1956ء کا آئین کہا جاتاہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس آئین کی بنیاد پر ہر بننے اور بنائے جانے والے قانون کو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے تحت ’’اسلام‘‘ کا پابند کردیا گیا تھا جو آج تک ہے۔ گویا اونٹ کے منہ میں نکیل ڈال دی گئی تھی۔
اس دور کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی کہ پاکستان ’’صرف پاکستان‘‘ تھا۔ سندھی بھی پاکستانی تھا، بلوچی بھی پاکستانی تھا، پنجابی بھی پاکستانی تھا، پشتون بھی پاکستانی تھا اور بنگالی نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ بنگالی ہے۔ کوئی ریلی نہیں نکلتی تھی، کوئی جلوس نہیں نکالا جاتا تھا، کوئی جلسہ نہیں ہوتا تھا، کوئی مل، کارخانہ، ہوائی سروس، ریل گاڑیاں اور بسیں بند نہیں ہوتی تھیں۔ مسالک کے جھگڑے، فرقہ واریت، مسجدوں اور مدارس کی ایک دوسرے کے خلاف ’’تبرے بازیاں‘‘، لسانی اور علاقائی نفرتیں، کسی بھی ’’دکھ‘‘ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ سارے ہی لوگ دکھی اور سارے ہی ایک دوسرے کے ہمدرد تھے، اس لیے کہ سب کا ’’درد‘‘ ایک تھا، اور وہ تھا ’’پاکستان‘‘۔
1958ء سے 1971ء کا دور
یہ سارے کا سارا دور ’’مارشل لائی‘‘ دور تھا۔ اس دوران سقوطِ مشرقی پاکستان یا 1971ء تک ایک لمحے کے لیے بھی سویلین قیادت کا سایہ تک نہیں پڑا۔ اس عرصے میں ایسا تو ضرور لگا کہ ملک ’’پھول‘‘ رہا ہے، لیکن اصل میں جس پھولنے کو ہم صحت کی علامت سمجھ رہے تھے وہ محض ’’غبارے‘‘ کی ہوا تھی۔ اس دوران آئین پیروں تلے روند دیا گیا، ’’جو میں کہتا ہوں وہ قانون ہے‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ پاکستانی بنگالی بن گیا، پنجابی بن گیا، سندھی بن گیا، پشتون بن گیا، اور ایک پہچان کا اور اضافہ ہوا، وہ پہچان تھی ’’مہاجر‘‘۔ 1965ء کی جنگ البتہ اس دور کی ایک ’’تاریخی‘‘ حقیقت ہے، وہ بھی ’’قوم کے بے پایاں‘‘ اتحاد اور نصرتِ خداوندی سے ’’مارشل لائی‘‘ حصے میں آگئی۔
ریاستی جبر و استبداد کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوئیں، بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی لیڈر اور کارکنان ’’پسِ دیوارِ زنداں‘‘ ڈالے گئے، ان پر غداری کے مقدمات بنائے گئے، پشتونوں اور اردو بولنے والوں میں نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی گئیں، قائدِاعظم کے بنائے ہوئے ’’دارالحکومت‘‘ کو اتنی عجلت میں تبدیل کیا گیا کہ ایک عرصے تک دوسرے دارالحکومت کے لیے جگہیں تلاش کی جاتی رہیں، جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے… ملیں، کارخانے، ہوائی راستے، سڑکیں اور ریلوے بند کیے جاتے رہے۔ سڑکوں، گلیوں ، بازاروں اور مساجد میں ’’لا انفورسمنٹ‘‘ ایجنسیوں نے تشدد کی انتہا کردی، ہر مسئلے کا حل ’’کرفیو‘‘ میں ڈھونڈا جانے لگا۔ اور ان سب باتوں کا، اور بظاہر بہت مضبوط ’’حکومت‘‘ کا اختتام ملک کے ’’دولخت‘‘ ہوجانے پر ہوا۔ پوری اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کے تاریک ترین باب میں شکست کا ایک سیاہ باب بھی اسی دور کا حصہ بنا جب 90 ہزار سے زیادہ مسلح افواج نے ہندو سورمائوں کے پیروں میں سر رکھ کر ’’جان کی امان‘‘ پائی۔ اس طرح ’’قائداعظم‘‘ اور لاکھوں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کی روحوں کو ایصالِ ثواب پہنچایاگیا۔
1971ء سے 1979ء تک کا دور
پاکستان اپنے اُس دور سے جب وہ پیدا ہوا تھا، ’’سو گنا‘‘ نیچے جاچکا تھا۔ سر پر شرمندگی کے اتنے ٹوکرے لاد دیئے گئے تھے کہ وہ ’’مائونٹ ایورسٹ‘‘ سے بھی بلند اور وزنی ہوچکے تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب دنیا کا ہر ملک ہمارا تمسخر اڑا رہا تھا اور ہم ’’من حیث القوم‘‘ یہ سوچ رہے تھے کہ یا تو آسمان ہم پر ٹوٹ کر گر پڑے، یا پھر یہ زمین پھٹ جائے اور ہم سب اس میں سما جائیں۔ عالم یہ تھا کہ ملک کا سب سے مضبوط ادارہ ’’افواج پاکستان‘‘ بھی اتنا کمزور اور مایوس ہوچکا تھا کہ ایک ’’سویلین‘‘ کو اپنا ’’کمانڈر انچیف‘‘ بنا بیٹھا، اور دنیا کا پہلا سول حکمران ’’چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ بنا دیا گیا۔ یہ عہدہ ایک ’’چیلنج‘‘ سہی لیکن اس کو ایک ’’سویلین‘‘ نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس دور میں اپنی صلاحیتوں کے وہ ’’جوہر‘‘ دکھائے کہ پاکستان کی تاریخ میں نہایت سنہرے الفاظ میں لکھے جائیں گے۔ آتے ہی پاکستان کی ہر ہر چیز کو ’’قومیا‘‘ لیا گیا، اس طرح وہ بڑے بڑے سرمایہ دار جو ملک سے بھاگنے اور اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کا ابھی سوچ ہی رہے تھے، اس پر بہت برق رفتاری کے ساتھ بند باندھ دیا گیا۔ پاکستان کو پاکستان کے نام سے اس طرح زندہ جاوید رکھا گیا کہ آج کوئی بھی اسے اور نام سے یاد نہیں کرتا، حتیٰ کہ اس کے ساتھ کسی ’’مشرقی بازو‘‘ کی عدم شرکت کو محسوس تک نہیں کرتا۔ ’’نوّے ہزار‘‘ سے زائد فوجیوں کو کسی ’’تاوان‘‘ کے بغیر آزاد کرایا گیا اور وہ بھی اتنے کم وقت میں جس کو دنیا اپنے تصور میں بھی نہیں لا سکتی۔ آج ہم اپنے ماہی گیروں کو بھی برس ہا برس آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ملک کا آئین ورق ورق کرکے ’’پیروں‘‘ تلے روند دیا گیا تھا، ازسرنو ’’ایک نیا آئین‘‘ بنایا گیا اور وہ بھی ’’محدود‘‘ وقت میں، اور اس میں کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک رکن اسمبلی ایسا نہیں ہے جس نے برضا و رغبت اس پر دستخط نہ کیے ہوں۔ اس آئین کو 1973ء کا آئین کہا جاتا ہے اور اس کو اِس حد تک مضبوطی حاصل رہی کہ ’’مارشل لائی‘‘ طاقتیں بھی اپنے ’’پیروں تلے‘‘ روندنے میں کامیاب نہ ہوسکیں، البتہ اسی میں اپنی ’’جائے پناہ‘‘ ضرور بنائی جاتی رہی۔ خارجہ تعلقات، خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ، بہت مثالی بنیادوں پر استوار ہوئے اور پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ تمام مسلم امہ ہمیشہ کے لیے ایک ’’پیج‘‘ پر آگئی ہے۔
منفی کاموں میں غیر جمہوری ہتھکنڈے، وڈیرانہ طرزعمل، سیاسی انتقام، جیلوں کی ’’رونقوں‘‘ میں اضافہ، سیاسی قتل، عصبیت کی پرورش، سندھی اور مہاجر ٹکرائو، ایوبی دور کی طرح ’’کراچی‘‘ دشمنی، جس کا منہ بولتا ثبوت ’’قتل و غارت‘‘ سے بڑھ کر ’’کوٹا سسٹم‘‘ کا قانونی نفاذ ہے، جو تاحال جاری ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ’’یار کا پائوں خود اس کی زلفِ دراز میں ایسا الجھا‘‘ کہ ’’پیر زمین سے کئی فٹ‘‘ بلند ہوگئے اور ’’گردن کی لمبائی چھ انچ‘‘ بڑھ گئی۔
1979ء سے 1988ء تک کا دور
ایک مرتبہ پھر سے ہر آئین اور قانون ’’وردی‘‘ نے ’’ٹشوپیپر‘‘ بناکے اپنا پسینہ پونچھا اور ’’ردی کی ٹوکری‘‘ میں پھینک دیا۔
اس مرتبہ طریقہ واردات ذرا مختلف تھا، اُس وقت کے حکمرانوں کے خلاف پہلے عوام کی بے چینی کے اسباب تلاش کیے گئے، پھر مخالفین کو جمع کیا گیا، قوم اور حکمرانوں کو بھی تسلیاں دی گئیں۔ قوم سے کہا گیا کہ ہم آپ کے جان و مال کی حفاظت کے لیے آئے ہیں، اور حکمرانوں سے کہا کہ ہم آپ کو ’’جاہل عوام‘‘ کے ’’غیظ و غضب‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے بہت ’’محفوظ‘‘ مقام پر منتقل کررہے ہیں۔ پھر دونوں کی جانب منہ کرکے زور زور سے کہا کہ حالات ٹھیک ہوجانے پر ہم اپنی اپنی ’’کچھاروں‘‘ میں واپس چلے جائیں گے، 90 دن میں الیکشن بھی ہوجائیں گے اور اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ آیا الیکشن میں ’’گھپلا میٹ‘‘ ہوا تھا یا ’’ملیامیٹ‘‘۔ دونوں فریقوں نے ’’دانت نکال کر‘‘ دلی اطمینان کا اظہار کیا۔ ہر 90 دن میں جب ایک دن باقی ہوتا ایک نئی کہانی سامنے آتی جس کو ’’سننے اور سنانے‘‘ میں مزید 90 دن مانگ لیے جاتے، اور اس طرح ’’نوے نوے‘‘ کرتے کرتے کم و بیش 4000 ہزار دن سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اس عرصے میں دنیا بدل گئی، پی پی پی کو ’’لولی پاپ‘‘ دیتے دیتے، اس کے سربراہ کو تختۂ دار کی سیر کرادی گئی، ’’9 ستاروں‘‘ کو مزید مطمئن کرنے کے لیے پی پی پی کے خلاف سخت کارروائیاں ہوئیں، سنگین الزامات کے تحت ان کی اعلیٰ قیادت اور کارکنان سے جیلیں بھری جانے لگیں، شہر شہر ’’ٹکٹکیاں‘‘ باندھی گئیں، ’’کوڑا کاڑی‘‘ کی گئی، دلائی کیمپ دریافت کیے گئے اور بہت کچھ اقدامات اٹھائے گئے۔ اسی دوران ’’الذوالفقار‘‘ بنی، ہوائی جہاز ہائی جیک ہوا اور بے شمار ’’گرفتار شدگان‘‘ کی رہائی کے عوض ہائی جیک کیے جانے والے رہائی پاسکے۔
روس افغانستان پر حملہ آور ہوگیا، یہ بات امریکی مفادات کے خلاف تھی، اس لیے ’’پاکستان‘‘کیسے گوارہ کرتا! قوم کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا، بیسیوں جہادی تنظیمیں بنائی گئیں، ہتھیار فراہم کیے گئے، تربیت دی گئی۔ یہ سب تربیت یافتہ مشرقی پنجاب، کشمیر، اور ان سب سے بڑھ کر افغانستان میں جھونکے گئے۔ روس کو اپنے مقاصد میں زبردست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن روس کے جانے کے بعد یہ ساری جہادی ’’تنظیمیں‘‘ اپنے آپ کو اتنا مضبوط اور مربوط کرچکی تھیں کہ باوجود ہزار کوشش، ہتھیار پھینکنے کے لیے آج بھی تیار و آمادہ دکھائی نہیں دیتیں۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے عرب ممالک سے تعلقات کی ایک بہت مضبوط بنیاد استوار ہوتی نظر آنے لگی، امریکا بھی قریب آیا، مذہبی حلقے بھی خاصے مطمئن اور خوش رہے، عوام بھی بہت ناخوش دکھائی نہیں دیئے۔ مہنگائی ضرور بڑھی لیکن ملازمین کی اجرت میں بھی مناسب اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اہم واقعات میں افغان جنگ، اور روس کو افغان سرزمین چھوڑنے پر مجبور کردینا، اوجڑی کیمپ راولپنڈی کی تباہی، نوازشریف کی دریافت، ایم کیو ایم کے پاس کراچی کی لیڈرشپ کا آجانا، بلدیاتی نظام کو دوبارہ سے متعارف کرانا، غیر جماعتی الیکشن کا تجربہ، منتخب اسمبلی سے اپنی منشا کے مطابق آئین میں ترمیمات کرانا، صدر کے اختیارات میں غیرمعمولی اضافہ کرانا، اور پھر اپنی ہی بنائی ہوئی اسمبلی کو ’’کرپٹ‘‘ قرار دے کر تحلیل کردینا جیسے اقدامات اس دورِ حکومت کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب ’’باب‘‘ ہے۔ اسی دوران ایک فضائی حادثہ ہوا اور اس میں ’’جنرل ضیا الحق‘‘ کے ساتھ اور بہت ساری اہم شخصیات کام آگئیں، لیکن مارشل لا کا تسلسل ’’انتخابات‘‘ تک برقرار رہا۔

۔1988ء سے 1999ء تک کا دور
یہ گیارہ سال کا عرصہ خوب ہنسنے ہنسانے، کھلکھلانے اور زور زور سے قہقہے لگانے کا دور تھا۔ پاکستانی قوم کے لیے نہیں، اقوامِ عالم کے لیے۔ آپ سب نے ٹیلی وژن پر کچھ مزاحیہ پروگرام ضرور دیکھے ہوں گے، ان میں کچھ لوگ اپنی ادائوں سے، انداز سے، عجیب عجیب حرکتیں کرکے اور مکالمات کا سہارا لے کر ناظرین کے لیے تفریحی لمحات مہیا کرتے ہیں، خود ذرا بھی نہیں ہنس رہے ہوتے لیکن ناظرین بہت ہی زیادہ محظوظ ہورہے ہوتے ہیں، ہنس رہے ہوتے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن پر اس تاثر کو صوتی اثرات کے بطور ’’قہقہوں‘‘ کے شور میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہی حال اس پورے عرصے کا رہا۔ پاکستانی قوم بے شک روتی رہی لیکن پوری دنیا ہم پر ہنستی اور قہقہے لگاتی رہی۔
ایک حکومت تشکیل پاتی، لات مار کر توڑ دی جاتی۔ دوسری بنتی، اُس کا بھی وہی حشر ہوتا۔ اس طرح اوپر تلے کسی کے حساب سے چار، مگر میرے حساب سے پانچ حکومتوں کا دھڑن تختہ ہوا۔ پانچ یوں کہ نوازشریف کی پہلی ’’باری‘‘ کو صدر نے توڑا، عدالت نے بحال کیا، اور پھر اس کو دوبارہ توڑ دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ الیکشن کے فوراً بعد جو حکومت بنی وہ اُسی پارٹی کی تھی جس کا نام و نشان تک مٹا دینے کی ’’فوجی‘‘ حکومت نے کوشش کر ڈالی تھی۔ ’’بچے‘‘ اگر کسی ایسے بچے سے کوئی چیز چھین لیں جو ’’تربیت یافتہ‘‘ بھی ہو، توانا بھی ہو اور ’’سالاروں‘‘ کے خاندان کا بھی ہو تو وہ اتنی آسانی سے اپنی ہار نہیں مانے گا… پھر طرہ یہ کہ وہ ’’عام بچوں‘‘ سے ذہین بھی ہو تو بات ’’سونے پر سہاگہ‘‘ والی ہوجاتی ہے۔ ہوا یوں کہ اس سے پہلے والے ’’پیٹی بھائی‘‘ نے صدر کے اختیارات اس حد تک بڑھا دیئے تھے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ، اور ان کے ہزار سے زائد ارکان، سب کے سب ’’بالشت بالشت‘‘ بھر کے ہوکر رہ گئے تھے۔ اس لیے اب اس ’’ذہین اور شریربچے‘‘ نے صدر کے ’’جن‘‘ کو ’’شیشی‘‘ میں بند کرلیا۔ چنانچہ ہر بیس بائیس ماہ بعد حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں۔ ناظرین پیٹ پکڑ پکڑکر لوٹ پوٹ ہوتے رہے، بلکہ ہنس ہنس کے پاگل ہوگئے، اور ایک خوش پوش، شریر بچہ اپنے ’’ہم رنگ و ہم پیالہ‘‘ بچوں کے ساتھ ’’راولپنڈی‘‘ میں بڑی سی اسکرین لگائے مزے سے اس سارے تماشے کو دیکھتا رہا۔ یہ دور بہت ہی عجیب اور بہت ابتلا و آزمائش کا تھا۔ پانچ بار (بظاہر چاربار) حکومتیں تبدیل ہوئیں، پکا قلعہ آپریشن ہوا، بہت خون خرابہ ہوا، سندھ میں خاک و خون کی ’’چلم‘‘ ایک بار پھر تازہ ہوئی، گھر اجڑے، بازار جلے، پھر ہجرتیں ہوئیں، ارکان اسمبلی کا ’’بازارِ مصر‘‘ لگا، انسانوں کی خرید و فروخت ہوئی، میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل، کارگل کا محاذ جیسے بہت سارے واقعات سے اس دور کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پاکستان اپنی پیدائش سے لے کر آج تک حالات کے کسی نہ کسی بھنور میں پھنستا ہی رہا ہے، لیکن خوبی کی بات یہ ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قدم پیچھے کی جانب لوٹے ہوں۔ اسی سویلین دور میں صوبہ سندھ میں ’’گورنر راج‘‘ بھی لگا اور فوجی آپریشن بھی ہوئے۔
کراچی کا آپریشن ’’آپریشن کلین اَپ‘‘ کے نام سے شروع ہوا۔ یہ آپریشن 1992ء میں شروع ہوا اور حکومتیں بدلتے رہنے کے باوجود یہ ہر آنے والی نئی حکومت میں جاری اور ساری رکھا گیا، اور اس طرح یہ سلسلہ کم و بیش آٹھ دس سال تک چلتا رہا، لیکن کراچی ’’کلین‘‘ نہ ہوسکا۔ اس آپریشن کے مرکزی کردار ’’نصیر اللہ بابر‘‘ رہے، جن کے اہم کارنامے میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے بھی ’’جنرل اروڑا‘‘ کی لاتیں کھائی ہوئی تھیں۔ تمام تر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود اسی دور میں پاکستان نے ’’ایٹمی ملک‘‘ بن جانے کا اعزاز بھی حاصل کیا، اور اپنے ایٹمی دھماکے اتنے جدید طریقے سے کیے جو آج تک کسی اور ایٹمی ملک نے نہیں کیے تھے۔
عام طور پر دنیا ایسے تجربے صحرائوں میں یا سمندر میں کرتی ہے، لیکن پاکستان نے یہ دھماکے پہاڑوں میں سرنگ کھود کر کیے، اور اتنے اعتماد کے ساتھ کہ اُس وقت کی ساری سول اور عسکری قیادت اور تمام بڑے بڑے سائنس دان، چند سو میٹر کی دوری پر موجود تھے اور اس دھماکے کے مناظر اپنی آنکھو سے دیکھ رہے تھے۔
1999ء سے 2008ء (پرویز مشرف دور)
انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بن چکے تھے، لیکن منتقم المزاج کے سینے میں ایک جذبہ تھا جو خون کو دہکا رہا تھا، جس کے نتیجے میں ہوا یوں کہ اُس وقت کے کمانڈر انچیف کو ہوا میں ہی تحلیل کرنے کا بھیانک قدم اٹھا لیا گیا، اور سری لنکا سے ہنگامی طور پر آنے والے اس طیارے کو جس میں اُس دور کے کمانڈر انچیف پرویزمشرف سوار تھے، پاکستان میں اتارنے کے بجائے پڑوسی ملک میں لینڈ کرنے کو کہا گیا۔ اسی دوران چند گھنٹوں کے اندر اندر نیا آرمی چیف بھی بنالیا گیا۔ اس اقدام کو پاک افواج نے گوارا نہیں کیا، کراچی ایئرپورٹ کو کلیئر کیا گیا اور طیارہ بحفاظت لینڈ کر گیا، اور پھر پرویزمشرف ہی کو چیف ایگزیکٹو بنانے پر اتفاق ہوا۔ نوازشریف گرفتار ہوئے اور بعد میں سعودی عرب کی سفارش پر دس برس کے لیے ملک بدر بھی ہوئے۔ یہ دور کئی لحاظ سے ایک اچھا دور کہا جا سکتا ہے، لیکن کچھ ایسی خرابیوں کا سبب بھی بنا جن کو دور کرنا خاصا مشکل ہے۔ اس دور میں کیا کیا ہوا، اس کو کسی حدتک مختلف انداز میں بیان کیا جارہا ہے۔
بجلی، پانی،گیس اور ٹیلی فون کے بل ہاتھوں میں تھامے عورتیں، بچے، بچیاں، مرد، جوان اور بوڑھے بوڑھیاں لمبی لمبی قطاریں بنائے اپنی اپنی باری کے انتظار میں ’’باری کے بخار‘‘ میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے۔ روپے پیسے کی منتقلی اور حصول کا طریقۂ کار اس قدر محدود تھا کہ اپنے ہی ہاتھ سے دستخط شدہ چیک بینکر کے حوالے کرنے کے بعد، بینک کا عطا کردہ ’’ٹوکن‘‘ جس کوعرفِ عام میں ’’بلا‘‘ کہا جاتا تھا، ہاتھ میں سنبھالے سنبھالے، بیٹھے بیٹھے اور اگر بینک کی زمین آپ پر ’’تنگ‘‘ ہو تو کھڑے کھڑے تھک کر اس طرح چُور چُور ہوجاتے تھے کہ جب رقم آپ کو تھمائی جاتی تو اس کو سنبھالنا بھی مشکل لگنے لگتا۔ دور دراز رہنے والوں سے رابطے کا ذریعہ ’’لینڈ لائن‘‘ فون ہوا کرتا تھا جو ’’دادا‘‘ کی دی ہوئی درخواست پر ’’پوتے‘‘ کو وراثت میں نصیب ہوا کرتا تھا، اس پر بھی طرہ یہ تھا کہ دوسرے شہر بات کرنے کے لیے کال مانگنی پڑتی تھی جس کو ’’ٹرنک کال‘‘ کہا جاتا تھا، اور وہ بھی ’’چالیس‘‘ روپے سے لے کر ’’ستّر‘‘ روپے فی منٹ کے حساب سے۔ جبکہ اُس وقت ڈالر ’’اکیس‘‘ روپے کا ہوتا تھا۔ اگر کبھی دوسرے ملک والوں سے رابطہ کرنا پڑجاتا تھا تو ’’دانتوں تلے پسینہ‘‘ آجایا کرتا تھا۔ تفریح کے لیے ایک ’’ نحوست زدہ چینل‘‘ ہوتا تھا جس کا زیادہ تر وقت ’’وقفِ حاکم وقت‘‘ ہوتا، جس کی ہر روز ایک تقریر سننا پڑتی تھی۔ کوئی بری یا اچھی اطلاع کسی کو فوری بھجوانا ضروری ہوجایا کرتا تو ایک گھر ہوتا تھا جس کو ’’تار گھر‘‘ کہا جاتا تھا، جسے شہر بھر میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے اکثر ’’جوتیاں‘‘ گھس جایا کرتی تھیں۔
دل کا حال ’’دل کھول‘‘ کر بیان کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہوا کرتا تھا ’’خط‘‘… دروازے پر ذرا بھی آہٹ ہوتی تو دل دھڑک کر پہلو سے نکلنے لگتا تھا کہ شاید ’’پیامبر‘‘ ہی ہو۔ یہی احوال روپے پیسوں کی ترسیل کا (Money Order) تھا جو اُس وقت کا محفوظ اور تیز ترین ذریعہ تھا۔ کیا اب کہیں بھی بجلی، پانی، گیس اور ٹیلی فون کے بلوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں؟ کیا اپنے ہی پیسوں کو بینک سے نکالنے کے لیے بھکاریوں کی طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے؟ اب اپنے پیاروں سے رابطے کے لیے موبائل فون آپ کی جیب میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اپنا شہر ہو یا ملک کا کوئی خطہ یا بیرونِ ملک، دنیا سمٹ کر آپ کی جیب میں موجود… باتیں بھی کریں اور اپنے چاہنے والوں کو اسکرین پر ’’بلا واسطہ اور بلاروک ٹوک‘‘ دیکھیں اور وہ بھی کہیں بنا ’’ٹکٹ‘‘ اور پیسہ دھیلہ خرچ کیے۔ اگر ادائیگی کرنا ہی پڑے تو جیسے کرنی ہی نہیں پڑرہی، اتنی ارزاں۔ تفریح کے لیے سیکڑوں چینل، چینلوں کے حصول کے سیکڑوں ذرائع، ’’نٹ چٹ‘‘، ’’اسکائپ‘‘، ’’وائیبر‘‘،’’واٹس ایپ‘‘ اور نجانے کیا کیا۔ گلی گلی ’’نوٹ‘‘ نکالنے کی مشینیں (ATM)، ہنگامی صورتِ حال میں بے شمار اقسام کے ’’کارڈ‘‘، بینکوں سے رقم نکالے اور ڈالے بغیر اپنی رقم کو دنیا کے کسی بھی کونے میں بھیجنے اور وصول کرنے کی سہولیات۔ اب ’’دل کھول‘‘ کر رکھنے کے لیے کسی ’’پیامی ویامی‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں… باتیں کریں، ملاقاتیں کریں، کرتے ہی چلے جائیں، جب تھک جائیں، سو جائیں۔ دوبارہ اٹھیں اور پھر سے سلسلۂ گفتگو جوڑلیں۔ آسمان کی بلندی سے اپنے گھر کی چھت پر اتر جائیں، ساری دنیا کی سیر اپنے بستر پر پڑے پڑے کرلیں۔
’’مبارک ہو، تمہارے گھر ٹیلی فون آگیا، بھئی دعائیں دو اپنے دادا کو جنھوں نے اپنی جوانی میں اس ’’موئے فون‘‘ کے لیے درخواست جمع کرائی تھی، پھر تمہارے باپ بھی محکمے والوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ’’ادھ موئے‘‘ ہوگئے، چلو انھوں نے اپنے بڑھاپے میں ہی سہی، اس ’’موئے فون‘‘ کی خوشی تو دیکھ لی، آج تمہارے دادا کی روح کو تو سکون نصیب ہوا۔‘‘
یہ ہوتے تھے الفاظ اور ’’خوشی کے جملے‘‘ جو بارہ چودہ برس قبل اُس وقت سننے کو ملا کرتے تھے جب کسی کے گھر پر ’’لینڈ لائن فون‘‘ لگانے والا محکمہ ’’مہربان‘‘ ہوجایا کرتا تھا۔ شہر سے شہر، ایک شہر سے دوسرے شہر اور ملک سے باہر، اپنے عزیزوں اور چاہنے والوں سے ملاقات اور بات چیت کا یہی ایک واحد ’’صوتی‘‘ راستہ ہوا کرتا تھا، اور وہ بھی ’’سونے چاندی ‘‘ سے بھی گراں قیمت اور نہایت محدود۔ محدود اس لیے کہ اس کا حصول بہت ہی دشوار اور مہنگا تھا، اس لیے اس کے ’’صارف‘‘ بہت کم ہوا کرتے تھے۔ مکان اور دکان فروخت کرنے والے افراد اپنے اشتہارات میں ’’ٹیلی فون لائن بھی موجود ہے‘‘ کو نمایاں لکھ کر اخبارات میں شائع کرایا کرتے تھے۔ کیا کسی کے تصور میں یہ بات تھی کہ رشتہ دار، رشتے داروں کے بچے، دھوبی، نائی، حتیٰ کہ ماسیوں تک سے رابطہ اس کے ’’ہاتھ اور جیب‘‘ کے فاصلے تک آجائے گا! اور نہ صرف ان سے رابطہ رات اور دن کی قید و بند سے آزاد ہوگا بلکہ اس قدر ارزاں کہ گھنٹوں بات کرنا بھی ’’مفت برابر‘‘ ہوکر رہ جائے گا! یہی نہیں، بلکہ یہ ایک ذریعہ لاکھوں… جی ہاں… لاکھوں… افراد کے روزگار کا سبب بھی بن جائے گا!آپ کے خیال میں کتنی “Cellular Mobile Companies” ملک کے طول و عرض میں موجود ہوں گی؟ ان کے ہزاروں ملازمین ہوں گے، ہر کمپنی کے ملک کے طول وعرض میں ہزاروں ’’ٹاور‘‘ ہوں گے، ان ٹاورز اور ان پر Installed لاکھوں روپے مالیت کے Equipment کی نگرانی کے لیے ہر ٹاور پر کم از کم ’’تین ملازم‘‘ بطور ’’سیکورٹی گارڈ‘‘ ہر کمپنی لازماً رکھتی ہے، جہاں جہاں یہ ٹاور لگائے جاتے ہیں اُن زمینوں اور مکانوں کے مالکان کو کئی کئی لاکھ روپے محض ’’ٹاور‘‘ لگانے کے، اور جب تک وہ ’’ٹاور‘‘ لگا رہے گا، ہزاروں روپے بطور ’’کرایہ‘‘ کمپنی دیتی ہے اور دیتی رہے گی۔
اب اس کی بنیاد پر ملک کے طول و عرض میں ’’موبائل فون‘‘ سے وابستہ بڑے بڑے بازار دیکھتے چلے جائیں، گلیوں اور بازاروں پر نگاہ دوڑاتے جائیں، کھیتوں اور کھلیانوں تک میں ’’موبائل شاپس‘‘ آپ کو لازماً نظر آجائیں گی، اسی سے تعلق رکھنے والے دیگر کاروبار پر بھی نگاہ دوڑاتے جائیں۔ اس کی بیٹریاں، اس کے چارجر، اس کی مختلف ڈیٹا لیڈز، اس کی رپیئر شاپ، اس کے سافٹ ویئرز بنانے والے، ٹونز بنانے والے… سوچتے جائیں سوچتے جائیں، شاید سوچ ساتھ چھوڑ جائے لیکن اس سے وابستہ روزگار کے سارے سلسلوں کا سلسلہ پھر بھی نہیں ٹوٹ سکے گا۔ کیا یہاں ’’جنات‘‘ یا ’’فرشتے‘‘ کام کرتے ہیں؟ اب آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ ’’واقعی‘‘ فقط ایک سیلولر فون کے آنے سے ’’روزگار اور خوش حالی‘‘ کے لاکھوں دروازے کھلے۔ رشتے دار اور رشتے داروں کا ایک ایک بچہ آپ کے سینے سے لگ گیا۔
یہ تو فقط ایک پہلو تھا جس کے آجانے کی وجہ سے پاکستان میں روزگار کے اتنے مواقع سامنے آئے کہ شمار ممکن نہیں۔ سی این جی اسٹیشنوں کا ملک بھر میں پھیلاؤ، کال سینٹروں کا قیام، بینکنگ سسٹم میں انقلاب کی وجہ سے لوگوں کو قرضوں کی سہولیات کے سبب کاریں، موٹر سائیکلیں، چھوٹے بڑے سامان اٹھانے کے ٹرک، پک اپ، بسیں، بڑے بڑے ٹرالر، کنسٹرکشن کے آلات و مشینری اور پھر ان سے وابستہ ہزاروں ورکشاپس، اسپیئر پارٹس شاپس اور کاریگروں کو شمار کیا جائے تو شمار ناممکن ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مارشل لا (پرویز مشرف) کا یہ دور بے شمار خرابیاں لیے ہوئے تھا لیکن تمام تر خرابیوں کے باوجود ملک معاشی و اقتصادی اعتبار سے آگے کی جانب گیا۔
منفی پہلو یہ کہ بڑی بڑی سنگین وارداتیں ہوئیں۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ فوجی بغاوت ہوئی۔ اس سے پہلے بے شک یہ ضرور ہوتا رہا کہ حکومتوں کو ہٹایا جاتا رہا، لیکن اس میں ہمیشہ سول حکومت کی بہت زیادہ کمزوریوں کا دخل رہا۔ بغاوتیں تو یہ بھی تھیں، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ سول حکومت نے کسی کو چیف بنایا ہو تو فوج نے اس قسم کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ہو۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اپنے ہی چیف کے خلاف فوج باغی ہوئی، اور نہ صرف چیف کا بلکہ حکومت کا بھی قصہ پاک کردیا۔ آئین کو پامال کیا گیا۔ بے تحاشہ ترامیم کرائی گئیں۔ عدالتوں کے ججوں کو ہٹایا گیا۔ عدلیہ کو کچلا گیا۔ امریکا کے آگے بالکل ہی غلامانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ ماؤں، بہنوں، بھائیوں ہی کو گروی نہیں رکھا گیا بلکہ سارا ملک امریکا کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ ایئربیس حوالے کیے گئے۔ لاجسٹک سپورٹ دی گئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے، اور اپنے پڑوسی اسلامی ملک پر حملے کی اجازت دی گئی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری جیسی کارروائی کرکے سیکڑوں خواتین اور مردوں کو ہلاک کیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو استحکام ملا، لیکن یہاں جو غور طلب بات ہے وہ صرف مضبوط معیشت نہیں ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایوب خان کا دور معیشت کی مضبوطی کے لحاظ سے بہت آگے چلا گیا تھا۔ جس وقت ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اُس وقت ملک کے طول وعرض میں فقط 14 کارخانے تھے لیکن ایوبی دور کے خاتمے تک صرف کراچی ہی میں سیکڑوں ملیں اور کارخانے کام کررہے تھے۔ یہ تو صرف ایک پہلو ہے، نجانے کس کس شعبے میں کیا کیا ترقی ہوچکی تھی، اس کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود وہ ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ پرویزمشرف کا دور بھی بلاشبہ اقتصادی اور معاشی اعتبار سے کافی مستحکم تھا، لیکن اس کے باوجود اُس دور کو ایک تاریک دور کہا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع ہونا، معیشت کا مستحکم ہونا اور اقتصادی لحاظ سے ملک کا مضبوط ہونا ایک الگ بات ہے، اور ملک کے عوام کا مطمئن، خوش اور ملک کی بنیادوں کا مستحکم ہونا دوسری بات۔ ضروری ہے کہ اس نکتے کو سمجھا جائے اور آئین و قانون، عدل و انصاف کو اس حد تک مضبوط بنادیا جائے کہ لوگ اپنے گلی کوچوں تک میں آئین و قانون کی حکمرانی کو محسوس کرسکیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہمارا آئین اور قانون اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ ہیں۔ یہ ہیں، تو سرحدیں محفوظ ہیں اور لوگ خوش حال، ورنہ وحشت و درندگی اب بھی ہے اور اگر ہم نے ’’رجوع‘‘ نہ کیا تو ہر سو لاقانونیت کا یہی عالم رہنا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں