بلدیاتی نظام کی بحالی ، بنیادی ضرورت

تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا منشور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے مرتب کیا اور عوام کے سامنے پیش کیا ۔ موجودہ انتخابات اگر عام حالات میں ہوتے تو شائد عوام ہر سیاسی جماعت کے منشور پر غور کرتی اور جس منشور کو عوامی امنگوں پراترتا سمجھتی یا محسوس کرتی اسے اپنا ووٹ ضرور دیتی۔جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان بری طرح سے بین الاقوامی اداروں سے لئے گئے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کے مطالبات اور باتیں ماننی پڑتی ہیں۔ جس کی ایک بہت ہی اہم وجہ ملک میں روز بروز بڑھتا ہوا مہنگائی کا وبال ہے۔
معلومات عامہ کا سوال ہے کہ کیا عوام کو کثیر لاگت سے بنائی جانے والی سڑکوں کی ضرورت ہے ، کیا ملک میں نجی سطح پر ہوائی جہاز کمپنیوں کی ضرورت ہے، کیا عوام کو ایسی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ضرور ت ہے جو ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانی سے جدا کرنے کی باتیں کرتی ہوں، کیا عوام کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو ان کی تنخواہوں سے ٹیکس کی مد میں چھینے گئے پیسے پر ناصرف خود عیاشیاں کریں بلکہ اپنی جائیدادیں بھی ملک میں اور بیرون ملک بنائیں ، اپنا علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم بھی بیرون ملک ہی حاصل کریں۔ یہ کچھ ایسے تلخ حقائق ہیں جن کا اعتراف ہر پاکستانی کررہا ہے، شائد ان باتوں کا سمجھ آجانا ہی پاکستان کیلئے سب سے بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے اور ہر پاکستانی کے دل میں پاکستان کی حقیقی محبت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
درحقیقت عوام کے بنیادی مسائل میں نکاسی آب ، علاقوں کی صفائی ستھرائی، پانی کی باقاعدہ ترسیل ، آگ بجھانے والے (فائر برگیڈ)ادارے اور سب سے بڑھ کر علاقوں میں امن و امان اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے پولیس کے مکمل ادارے کی کردار سازی پر خصوصی توجہ درکار ہوگی، تمام بڑے شہر خصوصی طور پر کراچی اور لاہور ٹریفک کے شدید مسائل کا شکار ہیں جس کی اہم ترین وجہ بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلانے والوں کی بھرمارہے، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کا استعمال تو لگتا ہے ٹریفک قوانین سے بالا تر ہے، شہروں کوباغبانی کی ضرورت ہے اور اس جانب خصوصی توجہ مبذول کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ مذکورہ مسائل کسی ایک شہر یا صوبے کے نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے اکثرعلاقے بلدیاتی نظام کی بدترین کارگردگی کی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔اب آپ لاہور جیسے شہر کو ہی لے لیجئے جسے پاکستان کے ماڈل شہر کے طور پر پیش کیا جاتاہے گزشتہ ماہ ہونے والی بارشوں نے سارے شہر کا حال پانی میں بہا دیا، یقیناً نکاسی آب کا بنیادی نظام صحیح طور سے اپنی کارگردگی دیکھانے سے قاصر رہا ہوگا جس کے باعث ایسا ہوا ۔مذکورہ تمام ذمہ داریاں بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں اور عوامی مسائل کا منبع بھی انہیں مسائل میں پوشیدہ ہے۔ کسی کے پاس نوکری نہیں ہے یا کسی کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے یہ مسائل ایک طرف ہیں لیکن زندگی کو آسان بنانے کیلئے بنیادی ضروریات کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ مندرجہ بالا تحریر میں رقم کی جا چکی ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے کام کئے ہیں شہروں کو آپس میں جوڑنے کیلئے بڑی بڑی سڑکیں بنائیں ہیں، دنیا کو ترقی دکھانے کیلئے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں ہیں ، ہوائی اڈے بنا دیئے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے رہنے کیلئے محلات بنا ئے ہیں۔ کسی نے بھی بھرپور طریقے سے بلدیاتی اداروں پر دھیان نہیں دیا۔ خصوصی طور پر کراچی شہر کو لے لیجئے یہ وہ شہر ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے دُہائی دے رہا ہے ۔
جو وسائل موجود ہیں انہیں بہتری کیلئے استعمال کریں اب شکایتیں کرنا بند کردیں کہ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے اب جو ہے اسی کو کارآمد بنائیں اور عوام کے خدمت گزاربن جائیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بند کردیں۔ ہمارے یہاں تمام نظام موجود ہیں صرف انہیں فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ لوگ کام نہیں کرنا چاہتے صرف اختیارات کا باضابطہ استعمال کرنے کی اجازت نا ہونے کے باعث لوگ کام نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کام کرینگے تو کوئی ان کی ٹانگے کھینچنا شروع کردیگا جس کی وجہ اکثریت کا کام نا کرنے اور نا کرنے دینے والوں کی ہے۔
تمام محب وطنوں سے درخواست ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم مسائل کو اچھالنے کی بجائے ان کے حل کرنے کی سفارشات پیش کریں اور جو مسائل اپنی سطح پر حل کرسکتے ہیں تو انہیں حل کریں ۔ ایک ایک پودا لگے گا تو پاکستان کو ہی نہیں کرہ ارض پر کم ہوتی ہوئی آکسیجن کی مقدار میں اضافہ ہوگا زندگی آسان ہوجائے گی۔ بلدیاتی ادارے ناصرف ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ معاشرتی طور پر بھی افہام و تفہیم کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نئی حکومت کی ترجیحات میں بلدیاتی نظام کی بااختیار بحالی اول نمبر پر ہونی چاہئے اس عمل کی بدولت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بڑے معاملات پر دھیان دینے کا بھرپور موقع فراہم ہوسکے گا۔ ہماری قلم سے جہاد کرنے والی برادری سے بھی درخواست ہے کہ بلدیاتی اداروں کو فعال کروانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں