وقت ہوا چاہتا ہے

چلیے احباب! پاکستانی ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سیاسی تالاب سے نکلیے، کپڑے نچوڑیے، پاؤں دھوئیے۔ اپنے اپنے لیڈران کی تعریف میں بہت قلابے ملا لیے۔ تعویذ بنا کر گلے میں بھی لٹکائے، گھول کر بھی پیے۔ کاٹ کھانے والی خارشی زبان سے فریق مخالف کے چہرے پر بھی لعاب مَلا۔ جوہڑ میں خوب غوطہ زنی کی۔ جیتنے والوں کو اینجل، ہارنے والوں کو ڈیول، ہارنے والوں کو پوتر، پارسا، ست ظاہر کر کے، جیتنے والوں کے گلے میں باک، تامل اور روباہ بازی کا ہار لٹکایا۔

اپنے اپنے لیڈر کو ملائک کی صف میں کھڑا کر کے فریق مخالف کو قنوطی، ابالیسی، بَلس ٹھہرا کر بہت ناچ لیا۔  آئیے اب خود پر پاکستانیت کا خول چڑھائیں۔ اگست کا مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ پاک وطن سے محبت کا ثبوت دیجیے۔ سوشل میڈیا پر موجود محبین وطن ڈی پی پر جھنڈا لگائیے یا  پھر اپنی تصویر پر جھنڈے کا سایہ لائیے۔ اس لیےکہ پاک وطن کی محبت تو ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ دیکھا نہیں آپ نے؟ہم ایک دوجے سے دست وگریباں ہیں۔

پاکستانیت تو ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اسی لیے تو جماعت، پارٹی، مسلک، قوم اور شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔ چلیے! چھوڑیے نا یہ سب۔۔۔ آئیے! نئے نئے ملی نغمے بھی مارکیٹ میں آچکے، اپنی اپنی دیوار جھنڈیوں سے مزین کیجیے۔ بجائیے؛ سُر تال سے نغمے کہ خون گرم ہو جائے اور آوازہ کسیں: “ہم پاکستانی ہیں”. “ہم آزاد ہیں۔”
سوچ کیوں رہے ہیں!؟

یقین کیجیے، آج 31 جولائی ہے صرف آج کا دن بچا ہے ماہ اگست کے شروع ہونے میں۔ جب تک ہم سیاست، شخصیت، پارٹی کے جوہڑ سے نکل کر خود کو سکھائیں گے۔ شلواریں اوپر چڑھائیں گے۔ ماسک چہرے پر لگائیں گے۔ جھنڈے خرید کر نغمے ڈاؤن لوڈ کریں گے تب تک اگست شروع ہو جائے گا۔ پھر “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں” بھی تو گانا ہے۔

اور ہاں! یاد آیا۔ پاک فوج کے کارناموں کو بھی تو سراہنا ہے۔ بہت کیچڑ اچھال لیا۔ آئیے اب محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ارے! پندرہ بیس دن کی تو بات ہے۔ چودہ اگست کے گزرتے ہی واپس کود جائیے گا اپنے اپنے کنوؤں میں۔ نوچیے گا ایک دوجے کے بال، دیجیے گا گالی، طعنہ زنی بھی کیجیے گا۔ دست و گریباں ہو کر قمیصیں چاک کیجیے گا۔ تب تک نعرے مارنے کا، چیخنے چلانے کا تجربہ بھی وسیع ہو جائے گا۔

ویسے بھی بہت جھوٹی سچی اڑا لی۔ “بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے” کا عملی ثبوت دے دیا۔ کل ہی تو اصل مہینہ شروع ہوگا۔ پاکستانیت کا خول چڑھانے اور پاک وطن کی مٹی پر نچھاور ہونے کا ڈھونک بھی تو رچانا ہے۔ وطن عزیز کے لیے قربان ہونے والوں کو سلام بھی تو بھیجنا ہے۔  انہوں نے یہ پیارا وطن اسی لیے تو حاصل کیا تھا کہ ہم یہاں کرچی کرچی ہو کر رہیں۔ دست و گریباں ہوں۔ ملت و مذہب، قوم و دیار کا مذاق اڑائیں۔ تاکہ پاکستانی ہونا مذاق بن جائے۔

آپس میں ایک دوسرے کی آنکھوں میں سرخ مرچیں چھڑک کر خواب دیکھیں، دعا کریں کہ خدایا: ہمارا وطن اتنا مضبوط رہے کہ اس کے مقابلے جو بھی دشمن آئے منہ کی کھائے آگے، قدم نہ بڑھا پائے۔ ہمارے بہادر سپاہی ان کے سامنے سینہ تان کے موجود ہوں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن کو ڈرائیں اور ان کے عزائم ناکام بنائیں۔ ہاتھ منہ پر پھیرتے ہوئے تسلی و اطمینان کا سانس لیتے ہوئے دل ہی دل میں خوشی کا گھونٹ بھریں کہ “ہمارے موجود ہوتے ہوئے بھلا دشمن کی ضرورت بھی کیا ہے؟

اناپرستی، فتوریت، نفرت، عداوت، منافقت ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اخوت، محبت، استقامت نام کی ہوا تک ہمارے پاس سے نہیں گزری۔ چلیں! چھوڑیں سارے قصے کہانیاں، پاکستانیت کا خول چڑھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ چہرے ریت سے رگڑ کر دھونے اور گالوں پر سبز ہلالی جھنڈی بنوانے، موٹر سائیکل کا سائلنسر لگوانے، پھٹپھٹی بنوانے، پٹاخے بجانے، ڈھول کی تھاپ پر رقصاں ہونے سبز و سفید کپڑے پہن کر “میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے” گانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔  ہلا گلا کر کے پاکستان سے محبت کا ثبوت دینے کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔

  تیاری کیجیے پاکستانیت کا خول چڑھا کر محبت وطن ہونے کا ثبوت دیجیے۔ کیوں کہ “وطن کی محبت جزو ایمان ہے۔”

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں