شفاف انتخابات

پاکستان میں ہونے والے وہ کون سے الیکشن ہیں جو “شفاف” نہیں ہوتے۔ اتنے شفاف ہوتے ہیں کہ ان کے “آرپار” دیکھا جاسکتا ہے۔ اب اگر کسی کو “آر” کے اِس جانب جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے اورآر کے اُس “پار” کچھ اور تو ایسے کروڑوں عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی آنکھوں کا معائینہ کرائیں اور خاص طور سے الیکشن 2018 کے “شفاف الیکشن کے بعد “آر” کے اس “پار” کوئی تضاد ہے تو بہتر یہی ہے کہ بنا معائنہ ڈائرکٹ آپریشن ہی کرالیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ہر پاکستانی کو پتا ہونا چاہیے کہ یہ الیکشن پاکستان کے سب سے مقدس ادارے نے کرائے ہیں۔ اس الیکشن کے نتائج پر ہرحرفِ تنقید ادارے کو کمزور کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑجانے کا شدید احتمال ہے لہٰذا جن کی آنکھوں کو کچھ غلط بھی نظر آرہا ہو تب بھی زبان بند رکھے ورنہ آرٹیکل 6 کا تو معلوم ہی ہے کہ وہ غداروں کیلئے ہی بنایا گیا ہے۔

الیکشن 2018 کے متعلق جو جملہ شفاف الیکشن سے بھی زیادہ صاف اور شفاف سنائی دے رہا ہے وہ “الیکشن فوج نے اپنی نگرانی میں کرائے ہیں” ہے۔ اگر اس جملے کو “شفاف” مان لیاجائے تو کوئی بھی آئین اور قانون کا طالب علم یا آئین اور قانون کا فارغ التحصیل بتائے کہ پھر “الیکشن کمیشن” کو کس جگہ فٹ کیا جائے؟۔ اگر جملے کی گونج تو کچھ اس طرح ہوتی کہ الیکشن 2018 کیلئے الیکشن کمیشن نے فوج کو نگرانی کیلئے مقرر کیا تھا” تو کیا یہ بات آئین و قانون کے خلاف شمار کی جاتی؟۔

حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ الیکشن عبوری حکومت نے کرائے۔ الیکشن کمیشن نے عبوری حکومت سے درخواست کی کہ اتنے بڑے الیکشن کیلئے افواج پاکستان کو نگرانی کیلئے کہا جائے تاکہ امن و امان کی کسی بھی صورت حال سے نمٹا جا سکے  جس پر عبوری حکومت نے فوج کو حکم دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کی مدد کرے۔

اگر قانونی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو کوئی بات بھی ایسی نہیں جس کو آئین پاکستان اور قانون اس کو غلط قرار دے لیکن جس طرح ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا اس تمام پروسس کو بیان کر رہا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر عبوری حکومت نے “حکم” کی بجائے افواج پاکستان سے فوج کی تعیناتی کی “درخواست” کی ہو کہ “برائے مہربانی آپ سے ہوسکے تو الیکشن کمیشن سے تعاون کریں”۔

میڈیا کا جو انداز ہو سو ہو لیکن پوری دنیا میں ادارے کی جانب سے بھی ایسا ہی تاثر دیا گیا جیسے الیکشن فوج کے ادارے ہی نے کرایا ہے جبکہ قانونی طور پر الیکشن کرانے یا نہ کرانے کاکام صرف اور صرف الیکشن کمیشن ہی کا ہوتا ہے جس کی ذمہ داری بہر صورت الیکشن کمیشن ہی نے ادا کی اور کرنی بھی اسے ہی چاہیے تھی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ جن کو صرف نگرانی اور امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کا حکم دیا گیا تھا وہ اپنے آپ کو “الیکشن کمیشن” سے بھی زیادہ آگے نکل جانے کی دوڑ میں شریک نظرآرہے ہیں۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کے فوراً بعد جو جو سامان و اسباب الیکشن کمیشن سے متعلق تھا یعنی، بیلٹ بکس، مہریں، ووٹوں کی بچے کچے پیڈ، اسٹامپ پیڈ، وہ انک جو انگوٹھوں پر لگائی جاتی تھی، ہر قسم کے فارم بشمول فارم 45 وغحیرہ وغیرہ وہ سب اپنی نگرانی میں الیکشن کمیشن کے حوالے کرتے اور واپس اپنے اپنے دفتروں میں حاضرہوجاتے لیکن بعد از الیکشن یوں محسوس ہورہا ہے کہ وہ “نگرانی” کو بھی “محکمہ” سمجھ بیٹھے اور اب الیکشن کمیشن بنے ان سارے ساز و سامان پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جہاں جہاں حلقے کھلوائے جا رہے ہیں وہاں ان کی گنتی بھی اپنے ہی “شفاف” ہاتھوں سے کررہے ہیں کہ کہیں ووٹ آلودہ نہ ہوجائیں۔

کیا دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں امن و امان کی ذمے داریاں اداکرنے کیلئے بلائے جانے والی کسی بھی ایجنسی کو الیکشن کمیشن بنتے ہوئے دیکھا گیا ہے یا پاکستان میں ہی ایسا ہی ہورہا ہے؟ 2018 سے قبل بھی کوئی الیکشن ایسا نہیں جس کی نگرانی اور امن و امان کی ذمہ داری لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کے حوالے نہیں کی گئی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں اس بڑے پیمانے پر امن و امان کی صورت پیدا نہ ہوتی ہو لیکن دوران الیکشن ہر ملک میں امن و امان کی صورت حال کو ایجنسیاں ہی دیکھا کرتی ہیں لیکن کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایجنسیاں خود الیکشن کمیشن بن جائیں اور ووٹوں کے بکسوں سمیت تمام سامان اپنی محافظت میں لے لیں۔

الیکشن کتنے شفاف ہوئے اس کا اندازہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہوتا جارہا ہے۔ کسی دنیا نے آج تک یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ جیتنے والی کی گنی “الٹی” چلنا شروع ہوجائے۔ لیڈنگ پارٹی 131 سے 115 پر آجائے۔ جس حلقے میں بھی “ری کاؤنٹنگ کی جارہی ہے وہاں جیتنے والے کی ہار کی خبر بد آرہی ہے۔ ایجنٹوں کو کان پکڑ کر باہر دکھیل کر جب کامیابی کی “پٹیاں” چلائی جارہی ہونگی اور پولنگ ایجنٹوں کو کسی بھی قسم کی تحریر کامیابی یا ناکامی کی، دستخط کے ساتھ ان کے حوالے نہیں کی جائے گی تو پھر نتائج بھی ایسے ہی سامنے آئیں گے۔

سب سے زیادہ شفافیت تو 6 بجے کے بعد، ایجنٹوں کو باہر نکال کر کمرہ بند کرنے کے بعد سامنے آنا شروع ہوئی اور خاص طور سے کراچی شہر میں تو اس شفافیت نے وہ کام دکھائے کہ “اصل” شفافیت پوری دنیا میں منھ چھپائے چھپائے پھر رہی ہے۔ کراچی کے بیشمار پولنگ اسٹیشن، بشمول وہ چینل جن کو کراچی اور کراچی والوں سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے، ویرانی کے علاوہ کسی اور بات کا تذکرہ کرتے نہیں دکھائی دیئے، جہاں سے رات گئے تک چند ہزار ووٹوں کے پڑنے کی خبر نشر کرتے رہے وہاں سے بھی صبح تک کسی جگہ ہزاروں اور کچھ مقامات سے لاکھ سے اوپر نتیجہ سنایا گیا۔ اب وہ کونسے عذاب کے فرشتے تھے جنھوں نے راتوں رات انسانوں کو “ہوا” بناکر پولنگ اسٹیشنوں کے اندر پہنچایا اور اس صفائی کے ساتھ کہ کیمرے کی آنکھ تک انھیں نہ دیکھ سکی۔

الیکشن کی شفافیت یورپی یونین اور “فافن” کی نظر میں کچھ اس طرح ہے

ووٹ ڈالنے کا عمل بہتر جبکہ گنتی میں دشواریاں رہیں۔ یورپی یونین کے رابطہ کاروں نے تسلیم کیا کہ سابقہ حکمران جماعت کو منظم انداز میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، تاخیر سے تعیناتی نے ہمارے مبصر مشن کے کام کو متاثر کیا، مائکل گالر نے کہا کہ ہمارے مجموعی اندازے کے مطابق 2018 کا انتخابی عمل 2013 سے بہتر نہیں تھا، یہ اندازہ پاکستانی قانون سازی اور پاکستان کی بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ہے جس پر پاکستان کے دستخط ہیں۔ آزادی اظہار پر پابندیوں اور انتخابی مہم میں عدم مساوات نے انتخابی لیگل فریم ورک کو متاثر کیا۔ یورپی یونین کے مبصرین کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ کچھ غیر جمہوری قوتوں نے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ یورپی یونین کے مبصرین نے پوسٹل بیلٹنگ پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عمل کسی طور پر محفوظ نہیں ہے کیونکہ اس عمل سے ووٹ کا تقدس پامال ہونے کے ساتھ دھاندلی کا بھی خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 925 ایسے افراد کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے کالعدم تنظیوں سے رہا ہے۔ ان نمائندوں نے امیدوادروں کی انتخابی سکروٹنی کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ قومی ٹیلی ویژن اور دیگر نجی ٹی وی چینلز نے بھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے۔ پاکستان کے متوقع وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر کو 7 گھٹے براہ راست دکھایا گیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف کو چار گھنٹے اور بلاول بھٹو زرداری کو تین گھنٹے لائیو کوریج دی گئی۔ غیر جمہوری طاقتوں نے مختلف ٹی وی چینلز پر فون کرکے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کی کوریج نہ کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا۔ یورپی یونین کے مبصرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران میڈیا پر غیر ضروری پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور میڈیا کے ارکان کے پاس الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اجازت نامے کے باوجود پولنگ سٹیشن کے اندر ہونے والی کارروائی دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

دوسری طرف انتخابی معاملات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل میں تاخیر اور ووٹوں کی گنتی سست روی کا شکاررہی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے صدر سرور باری کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 25 فیصد پولنگ سٹیشنز پر رزلٹ دیوار پر آویزاں نہیں ہوئے جبکہ دس فیصد پولنگ سٹیشنز پر کچھ پولنگ ایجنٹس کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات پیش ائے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی اہلکار خلاف ضابطہ کارروائیوں میں متحرک رہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’پندرہ سو اکہتر پولنگ سٹیشنز کے اندر ووٹرز کو مخصوص امیدوار کیلئے راغب کیا گیا اور غیر مجاز افراد دندناتے رہے۔ اس کے علاوہ 163 پولنگ سٹیشنز پر یہ افراد پولنگ عملہ پر اثرانداز ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ہزار تین سو ستر پولنگ سٹیشنز میں بیلٹ خفیہ رہنے کی خلاف ورزی ہوئی اور ایسے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جن کی تعداد 1774 ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو چوالیس پولیس پولنگ سٹیشنز پر اہل ووٹرز کو سکیورٹی اہلکاروں کی کی طرف سے روکا جاتا رہا۔ اور سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 35 حلقوں کے مسترد ووٹوں کی تعداد جیتنے والے کی لیڈ سے زیادہ ہیں اور ایسے حلقوں کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب ہے جو 24بتائی جاتی ہے۔

اس تمام صورتِ حال کو سامنے رکھنے کے بعد الیکشن کی شفافیت پر تو سوالات اٹھیں گے ہی ساتھ ہی ساتھ ایک حساس ادارے کی ساکھ کو بھی شدید دھچکا لگے گا کیونکہ اس انتخاب میں ادارے نے اپنی شمولیت انتظامیہ سے بڑھ کر الیکشن کمیشن کی حد تک بڑھالی ہے اور الیکشن کمیشن کی طرح ہر قسم کی ذمہ داریوں کو اپنی ڈیوٹی میں شامل کر لیا ہے۔ 2013 میں “آر اوز” پر سارا ملبہ گرا تھا اس مرتبہ زد پر “ادارہ” ہے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ادارہ جتنی جلد ممکن ہو سکے اپنے اوپر از خود لادی ہوئی ذمہ داری ذمے داروں کے حوالے کرے اور الیکشن کے ہر عمل سے اپنے آپ کو باہر نکالے۔

اب تک کی رپورٹ کے مطابق جن جن حلقوں کے ووٹوں کی گنتی کا عمل دوبارہ کیا جارہا ہے وہاں یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیتنے والے ہار رہے ہیں یا ہارنے والے جیت کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ اس بے قائدگی یا کوتاہی کا الزام آخر کس پر آئے گا؟۔

جس کے نگراں اپنی نگرانی میں ووٹوں کا شمار ہی ایکوریٹ نہ کرا سکتے ہوں ان کی “شفافیت” پر سوالات تو لازماً اٹھائے جائیں گے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں