کراچی میں الیکشن نتائج متنازع کیوں ہوئے

اگر یوں کہا جائے کے کراچی میں 1988 کے بعد 2018 کا الیکشن  خوف اور جبر کے بجائے آزاد فضا میں ہوا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک پولنگ کا عمل شفاف طریقے سے جاری رہا، اہلِ کراچی نے بڑی تعداد میں نکل کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، البتہ چند جگہوں پر پولنگ سست روی کا شکار رہی جس کی شکایت میڈیا کے ذریعے امیدواران کرتے دیکھائی دیے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے پولنگ کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور اس پولنگ کے عمل کے دوران کسی بھی پارٹی کی جانب سے پریس کانفرنس نہیں کی گئی۔ یہ بھی شہرِ کراچی کی بد قسمتی رہی ہے کے گزشتہ تیس سالوں کے دوران ہر الیکشن میں دھاندلی کا نیا طریقہ اپنایا جاتا تھا بقولِ رئیس امروہوی کے،

بعض شہروں کو لکھنے والوں نے مرکزِ عز و جاں لکھا ہے،

اے کراچی تیرے مقدر میں صرف یومِ سیاہ لکھا ہے ،

ماضی میں جو کچھ کل کے فرعون اور آج کے “بیچارے” اس شہر کے ساتھ کرتے رہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے، پورے عملے کو یرغمال بنانا، خواتین پولنگ ایجنٹس کو دھمکانا ان “بیچاروں ” کی روایت رہی ہے۔ 2013 کا الیکشن کراچی کی تاریخ کا بدترین الیکشن تھا جس میں ربڑ کے انگوٹھوں سے لے کر جعلی شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹوں کے ذریعے سے بدترین دھاندلی کرکے نئی تاریخ رقم کی گئی ۔

2018 کا الیکشن اس وقت متنازع ہوگیا جب ووٹوں کی گنتی کے وقت کراچی میں زیادہ تر مقامات پر پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا، کچھ جگہوں پر عملے کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ صبح تک رزلت آپ کو دے دیا جائے گا، بعض جگہوں پر فارم 45 نہ ہونے کی بات کی گئی، الیکشن سے پہلے پولنگ عملے کو ٹرینگ کے ذریعے پورا الیکشن کا عمل سمجھایا گیا، ان کو فارم 45 بھرنا سیکھائے گئے، مگر حیران کن بات یہ ہے کے فارم 45  فراہم کیوں نہیں کیے گئے؟؟ اس فارم 45 کو حاصل کرنے کے لئے لوگ صبح تک پولنگ اسٹیشن میں بیٹھے رہے ۔

دوسری چیز جس نے الیکشن کے پورے عمل کو متنازع کردیا وہ رزلٹ کا شام 8 بجے سے ہی میڈیا پر آنا تھا، پولنگ ایجنٹس کو موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں تھی، میڈیا گنتی کے وقت اندر موجود نہیں تھا تو پھر کون تھا جو میڈیا کو رزلٹ فراہم کررہا تھا ۔؟؟

تیسری چیز یہ کے صرف چند پولنگ اسٹیشنز کے نتائج آنے پر میڈیا پر امیداوار کو فاتح قرار دے دیا گیا، میڈیا کے مطابق کراچی کے حلقے این اے 251 ایم ایم اے کے امیدوار لئیق خان کو ایم کیو ایم کے امیدوار پر 9 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی، مگر بعد میں فتح ایم کیو ایم کے حصے میں آئی، اس جیسی کئی اور نشستیں بھی ہیں جن پر مختلف امیدواران کو کامیاب قرار دے کر بعد میں ناکام قرار دے دیا گیا ۔

پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے وقت باہر نکال دینا، گنتی مکمل ہونے کے باوجود  فارم 45 فراہم نہ کرنا، 28 گھنٹے گزر جانے کے باوجود رزلٹ کا نہ ملنا غرض یہ وہ ساری چیزیں ہیں جنہوں نے اس پولنگ کے شفاف عمل کو متنازع بنادیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کے کراچی میں موجود سیاسی جماعتیں اس صورتحال پر کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں، لہزا اب پوری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کے وہ جلد از جلد عملی اقدامات کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے تحفطات کو دور کرے اب تک کی اطلاعات کے مطابق کراچی میں پی ٹی آئی 19 لاکھ، ایم کیو ایم 11 لاکھ 92 ہزار، تحریک لبیک پاکستان 7.5 لاکھ اور متحدہ مجلسِ عمل 3.5 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے ۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں