بیانات اور الیکشن کے بعد کی شکایات

کیا پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ ہے جس کے سامنے پاکستان کا کوئی شہری اپنا مقدمہ رکھ سکے اور اس کو منصفانہ اور اطمنان بخش جواب بھی مل سکے۔

شکایات کا ازالہ بہر حال ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس سے طبیعت میں ملال پیدا ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے کسی نہ کسی بڑی خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک مطمئن اور غیر مطمئن معاشرے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر معاشرہ بہر لحاظ پر سکون زندگی گزاررہا ہو تو معاشرے ہر اس کے بہت خوش کن اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ایک غیر مطمئن معاشرے میں کوئی بھی صورت حال کسی بھی وقت سامنے آسکتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کیلئے گھر کی مثال لی جاسکتی ہے۔ وہ گھر جس کے سارے افراد ہر صورت سے ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوں، ان کو کوئی تنگی، کوئی ذہنی دباؤ، کوئی گھریلو ناچاقی اور کسی کو بھی امتیازی سلوک جیسا مسئلہ درپیش نہ ہو تو اس گھر کے افراد کے چہروں مہروں سے، ان کی بات چیت کے انداز سے، ان کی چال ڈھال اور آنکھوں کی چمک سے اور ان کے انگ انگ سے اس کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک وہ گھر ہوتا ہے جہاں ماحول اس کے بر عکس ہو اس گھر کے ایک ایک فرد سے پریشانی، مردم بیزاری، گفتگو میں تلخی، لہجوں میں سختی، لباس کی شکنوں میں کئی کہانیاں اور انگ انگ میں حیرانی اور پریشانی کی پرچھائیاں صاف ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں۔ تحقیق کرنے پر اس سارے تضاد کی ایک ہی وجہ نظر آئے گی اور وہ شکایات کے ازالے کیلئے کسی ادارے یا فرد کا ہونا یا پھر شکایات کو دور کرنے والے کا سرے سے موجود ہی نہ ہونا۔

پاکستان میں اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں یہی فرق ہے۔ جب تک اس تفریق کو “منصافہ” انداز میں ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک لاوہ پکتا رہے گا اور پھر ہوگا یہ کہ کسی نہ کسی لمحے وہ لادہ پھٹ پڑے گا جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کوئی بھی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔

پہلے تو یہی ہوتا تھا کہ سیاسی پارٹیاں ہی کوئی ایسی بات کہہ دیا کرتی تھیں جس سے معاشرے میں ایک دم کوئی تلخی جنم لے لیا کرتی تھی لیکن معلوم نہیں کیوں کچھ اہم اور حساس ادارے اور ان کے سر براہ تک کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو بہت سارے ابہام پیدا کردیتی ہے۔ یہ ابہام والی بات شاید اتنی کبیدگی کا سبب نہ ہو لیکن اگر کہیں سے کسی “مبہم” بات پر کوئی تبصرہ یا تنقید ہوجائے تو ایسا کرنے والا بڑی مشکل کا شکار ہوجاتا ہے اور یہاں تک بھی ہوتا ہے کہ اس کو ملک دشمن یا غدار وطن تک کے خطابات ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ حرف تنقید ادا کرنے والا اگر اداروں کی نگاہوں میں نہ بھی آئے تو ان اداروں کا فیور کرنے والی پارٹیاں اس کو اتنا ہائی لائٹ کرتی ہیں کہ بعض اوقات اس کی زندگی کے لالے پڑجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال آخر ہے کیوں؟۔ اس کیوں کا جواب میرے نزدیک اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو فرد بھی کوئی تلخ بات کہہ رہا ہوتا ہے اس کو سمجھنے کی بجائے یا اس کے پس پردہ جو کہانیاں ہوتی ہیں ان کو جاننے کی بجائے ہم اس کے منھ سے نکلی ہوئی بات کو بنا سیاق و سباق بعینہ اسی طرح مان کے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن جاتے ہیں۔

چند دن قبل ترجمان پاک فوج نے ایک جملہ کہا تھا کہ “2018 تبدیلی کا سال ہے”۔ پاکستان ہی کیا دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحٖث جو بات رہی ہے وہ پاکستان میں ہونے والے الیکشن 2018 ہی ہیں۔ اس الیکشن میں یہ نعرہ ایک ہی پارٹی کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اس نعرے نے پاکستان اور پاکستان سے باہر بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ اگر یہ نعرہ پاکستان کی ہر پارٹی کا ہوتا تو شاید اس جملے میں اتنی قباحت نہیں تھی لیکن یہاں یہ جملہ ابہام پیدا کرگیا۔ ابہام تو پیدا ہوگیا لیکن اس کی وضاحت کرکے اس ابہام کو دور کرنے کی کہیں بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ بات اور بھی غیر سنجیدہ سی ہوگئی۔

آج، بروز 25 جولائی 2018 کو ایک اور بھی بات سامنے آئی جس کی اگر کچھ وضاحت سامنے آجائے تو جو الجھن ذہنوں میں پڑ رہی ہے وہ دور ہو سکتی ہے۔ پاکستانی فوج کے سالار اعلیٰ نے کہا ہے کہ “ہم ووٹ کی طاقت سے ملک دشمنوں کو شکست دیں گے”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کی خواہش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ پاکستان میں بے سکونی اور ابتری کی کیفیت قائم رہے اور جمہوریت کی ریل ڈی ریل ہوتی رہے لیکن۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر بات کو ایسا مسئلہ بنادیا جاتا ہے کہ اس کے منفی اثرات کسی بھی وقت بہت بڑے فتنے کو جنم دے سکتے ہیں۔ خاص طور سے سیاست میں تو کوئی ایک پارٹی یا رہبر بھی اس بات کو اپنے مدنظر نہیں رکھتا کہ اس کے منھ سے نکلے ہوئے جملے کہاں کہاں آگ بھڑ کا سکتے ہیں۔ اس کے سامنے ایک ہی منزل ہوتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ اسکور کی ہوتی ہے۔ اگر اسمبلی میں کوئی ترمیم سہواً یا قصداً ہوجائے تو “گستاخی” کا مسئلہ کھڑا کرکے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کا حصول بنا لیا جاتا ہے خواہ لوگوں کے جنون کو ابھار کر کتنی ہی قیمتی جانیں خطرے میں ڈال دی جائیں۔ سیاستدانوں کی غیر سنجید گی کا مرض تو بہت ہی پرانا ہے لیکن ادارے بھی اکثر اوقات نامناسب بات کہہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں الیکشن پاکستان میں پاکستانیوں کے درمیان ہی ہورہے ہیں۔ الیکشن میں حصہ لینے والے سب افراد اور پارٹیاں پاکستانی ہی ہیں۔ بے شک سیاستدانوں کی نظر میں کوئی “مودی” کا یار ہے، کوئی امریکہ کا لاڈلا اور کوئی “را” کا ایجنٹ لیکن یہ ساری باتیں تو سیاسی ہیں جو پاکستان میں کسی کو کہہ دینا اور سنادینا ایک معمول کا حصہ ہے لیکن اگر کسی حساس ادارے کی جانب سے یہ کہا جائے کہ ہم انتخاب یا چناؤ کے ذریعے پاکستان دشمنوں کو شکست دیں گے تو کچھ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ الیکش بھارت پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف جس پس مننظر میں ایسا کچھ کہہ رہے ہیں وہ دہشت گردی اور دہشتگردانہ سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ یہ سرگرمیاں پاکستان میں الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کے در پے تھیں لیکن ان کی کوئی منصوبہ بندی کامیاب نہ ہوسکی اور بالآخرالیکشن ہو ہی گئے لیکن اس ملک کے حالات ناعاقبت اندیش سیاستدان وہاں تک لے گئے ہیں جہاں ہر سیاستدان اور ہر پارٹی دوسرے سیاستدان اور پارٹی کو ملک دشمن ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسے میں ان کے پیچھے پیچھے چلنے والوں کو کسی بھی مخالف پارٹی کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔

ہر فرد و بشر کو معلوم ہے کہ الیکشن کے نتائج کے بعد ان نتائج کو تسلیم کرنے میں ہارجانے والی پارٹیاں اسی طرح لیت و لعل سے کام لیتی ہیں۔ بے شک ان کی بہت ساری باتیں عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے ہوتی ہیں لیکن ان باتوں میں کچھ باتیں ضرور ایسی ہوتی ہیں جو ناصرف جائز ہوتی ہیں بلکہ ان کو سننا، ان پر غور کرنا، ان پر قانونی کارروائی کرنا اور پھر ان کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں اس قسم کی کسی بھی شکایت کا نہ تو بروقت ازالہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں سماعت کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ جب گھر کا کوئی بڑا یا ریاست کا کوئی ادارہ ایسا نہ ہو جو لوگوں اور ان کی شکایات کو سنے اور شکایت کرنے والوں کو مطمئن کر سکے تو پھر گھر ہو یا ریاست، اس کا سکون کسی وقت بھی فتنہ و فساد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

انتخاب کے فوراً بعد جو اچھی باتیں سامنے آئیں وہ لوگوں کا پر سکون ماحول میں سارادن ووٹ ڈالنا تھا۔ کسی نے بھی انتظامیہ کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی بلکہ خواہ وہ جیتنے والے ہوں ہارجانے والے، کسی نے بھی انتظامیہ جو کہ پاک فوج پر مشتمل تھی، اس کے خلاف کوئی بیان دیا ہو۔ ساری شکایات ووٹنگ کے اوقات کے اختتام کے بعد کی ہیں۔ سب اس بات پر ششدر ہیں کہ ووٹنگ کی گنتی کے بعد اچانک ماحول کیوں تبدیل ہوگیا۔ ایک پارٹی کے علاوہ ساری پارٹیوں نے یہ بات ریکارڈ کرائی کہ اچانک پولنگ ایجنڈوں کو کمرے سے باہر نکالدیا گیا۔ ناصرف نکال دیا گیا بلکہ ان کو فارم 45 جس میں ووٹوں کا شمار درج ہوتا ہے کہ کس کو کتنے ووٹ ملے، نہیں دیا گیا۔ یہ بات جمہوری دور میں کہیں سے کہیں تک بھی قابل قبول نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن اس پر غیر سنجیدگی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پولنگ ایجنٹ از خود فارم لیئے بغیر چلے گئے۔ میرا خیال ہے یہ اسٹیٹمنٹ مناسب نہیں۔ کوئی ایک دو جگہ نئے نئے اور غیر تربیت یافتہ تو شاید ایسا کرسکتے ہوں لیکن ایک بہت بڑی تعداد اور وہ بھی بہت ساری پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کی، ایسا نہیں کر سکتی۔

ایک اور خوفناک بات بھی سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر الیکشن میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ بیلٹ پیپر کی پشت پر ووٹ ڈالنے والے کے انگوٹھے کا نشان لازمی شرط ہوا کرتا تھا۔ یہی وہ انگوٹھے کے نشانات تھے جس کو بنیاد بنا کر 2013 کے نتائج کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ اگر کسی امید وار کو کسی دوسرے امید وار سے زیادہ ووٹ پڑے ہوں اور کوئی اس کے زائد ووٹ کو ضائع کرکے اتنی ہی تعداد میں بیلٹ پیپر پر من پسند امیدوار کے ٹھپے لگادے تو کیا اس کا چیلنج کیا جانا ممکن ہے؟۔

کسی ایک کو بھی فارم 45 کا نہ دیاجانا کوئی ایسا اعتراض نہیں جس کا فوری دور کیا جانا ممکن نہیں تھا۔ پولنگ عملہ اور پاک فوج کے جوان شکایت کے وقت پولنگ اسٹیشنوں پر ہی موجود تھے۔ پولنگ ایجنٹ بھی پولنگ اسٹیشن کے باہر ہی تھے۔ فوری ہدایت جاری کی جاسکتی تھی اور فارم دیئے جاسکتے تھے۔ ایک تو یہ کہ یہ کہہ دیا گیا کہ ایجنٹ فارم 45 لئے بغیر ہی روانہ ہوگئے، نہایت غیر ذمہ دارانہ بات ہے نیز یہ کہ جب عملہ رونہ ہی ہوچکا ہے اور بیلٹ پیپر پر کسی کے انگوٹھے کے نشان ہی نہیں ہیں تو ووٹوں کی تبدیلی کا ابہام تو پیدا ہو ہی گیا۔ پھر یہ کہ دوبارہ گنتی پر ایک تو اس بات کا یقین کہ گنا جانے والا ووٹ اصلی ہے یا تبدیل شدہ ہے اور ودئم یہ کہ ہر ووٹ کے عوض 100 روپے کی ادائیگی، یہ دونوں کام وہ ہیں جس کی وجہ سے کسی کا چیلنج کرنا کوئی آسان بات نہیں رہ گئی ہے۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر میں متعلقہ محکمہ جات سے اپیل کرونگا کہ ماحول کو مطنئن کرنے کیلئے اور پارٹیوں کی شکایات کے ازالے کیلئے کوئی ایسی راہ نکالیں جس سے ہر فرد اور پارٹیاں مطمئن ہو سکے۔ مجھے امید ہے کہ ایک ناچیز کی باتوں پر غور کیا جائے گا اور جو جو شکایات ہیں ان کو اطمنان بخش طریقے سے دور کیا جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں