گٹر ابلتے رہے

                پانچ سال تک جس طرف دیکھو گٹر ابلتے رہے۔

                گھر میں ابلتے رہے، گلی میں ابلتے رہے، بازاروں میں ابلتے رہے، درباروں میں ابلتے رہے، سڑکوں پر ابلتے رہے، چوراہوں میں ابلتے رہے۔ وہ کون سی جگہ ہے جہاں نہیں ابلتے رہے؟۔

                کسی نے کبھی سوچا کہ گٹر ابلتے کیوں ہیں اور جب ابلتے ہیں تو اگلتے کیا ہیں؟۔

                نہیں نا، اس لئے کہ ان کو ابلتے دیکھ کر اپنے اگلنے کو روکنے کے لئے اگر منھ پر بروقت کپڑا نہیں رکھ لیا جائے تو ہم وہ کچھ بھی اگل دیں جو کچھ ہم ہضم بھی کر چکے ہوں۔ اس لئے بہت سارے لوگ اپنی باہر آنے والی چیز کو روکنے کے چکر میں یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ گٹر کیوں ابل پڑتے ہیں۔

                جواب بہت ہی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ جب گٹر وں کے معمول کے مطابق بہنے میں کوئی رکا وٹ حائل ہو جائے جو اس کا قانونی، اخلاقی اور معاشرتی حق ہے تو وہ کہیں نہ کہیں سے ابل پڑتے ہیں اور اس ابلنے کے نتیجے میں انسانوں کی چھپی ساری گندگی کو سڑکوں، گلیوں، درباروں، بازاروں، اور چوراہوں تک پھیلا دیتے ہیں جس کو چھپا چھپا کرانسان یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بہت نفیس اور پاکباز ہیں۔

                مزے کی بات یہ ہے کہ بے چارے گٹر نہ تو خود معمول کے مطابق بہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی بوری یا “توڑا” پھنسا کر معمول سے بہنے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ بہہ تو ضرور رہے ہیں مگران سب اٹھکیلیوں سے سو فیصد بے بہرہ ہیں۔ وہ معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں تو بھی یہ انسانوں کا احسان ہے اور اگر راہیں مسدود ہوجانے کی وجہ سے ابلنے اور اگلنے پر مجبور ہو گئے ہیں تب بھی یہ انسانوں کی ہی نااہلی ہے۔

                کچھ نادان انسان یہ بھی کر گزرتے ہیں کہ اپنے اپنے قریب کے گٹروں کے ڈھکنے سیمنٹ لگا کر اتنی مضبوطی کے ساتھ بند کر دیتے ہیں کہ وہ کم از کم ان کے قریب سے تو نہ ابل سکیں۔ پھر دیکھا دیکھی گلی کے سارے افراد ایساہی کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے گٹر جوش میں آجاتے ہیں اور جس طرح غموں اور دکھوں کے آگے بے بس ہو کر انسانوں کے سینوں سے ایک آہ سرد بلند ہو تی ہے اسی طرح جب گٹر بھی بے بس کر دیئے جاتے ہیں تو ایک زورداردھماکے کے ساتھ پھٹ جاتے ہیں اور پھر ان کے اوپر دکانیں ہوں یا بازار، گھر ہوں یا بلند و بالا عمارتیں، ساری کی ساری زمین بوس ہو جاتی ہیں۔

                شاید میرا کہنا بہت سارے انسانوں کی دل آزاری کا باعث ہو لیکن کیا کروں ۔

“کہنی پڑتی ہے منھ تک آئی بات”

                سارے انسان بھی اسی کی مثل ہیں۔ اوپر سے سے کتنے نفیس اندر سے کتنے گندے۔ یہ بھی ابل پڑتے ہیں جب ان کی راہیں مسدود کی جاتی ہیں یا یہ اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی راہوں کو مسدود کیا جارہا ہے اور اس ابلنے کے نتیجے میں جو جو کچھ وہ اگل رہے ہوتے ہیں اس کی جانب کوئی شریف انسان آنکھ بھر کر دیکھ بھی لے تو اس کے اندر کا سارا کچھ خود بخود باہر نکل پڑتا ہے۔

                سپریم کورٹ میں کیا ہوتا رہا ہے، سپریم کورٹ کے باہر کیا ہوتا رہا ہے، پارلیمنٹ کے اندر کیا ہوتا رہا ہے، پارلیمنٹ کے باہر کیا ہوتا رہا ہے، گلیوں میں کیا ہوتا رہا ہے، سڑکوں پر کیا ہوتا رہا ہے، میدانوں میں کیا ہوتا رہا ہے، چوراہوں پر کیا ہوتا رہا ہے، گھروں میں کیا ہوتا رہا ہے، گھروں سے باہر کیا ہوتا رہا ہے، اخبارات میں کیا ہوتا رہا ہے، چینلوں پر کیا ہوتا رہا ہے، سرحد کے اِس پار کیا ہوتا رہا ہے اور سرحد کے اُس پار کیا ہوتا رہا ہے؟۔ یہ سب گٹر ہی تو ہیں جو ابلتے بھی رہے ہیں اور جو جو کچھ اندر موجود ہے وہ اگلتے بھی رہے ہیں۔

                حکمران ہوں یا پارٹیوں کے سر براہان، جرنیل کر نیل ہوں یا پولیس کے اعلیٰ عہدیداران، یہ سب گٹر ہی تو ہیں۔ سب ابلے پڑتے رہے ہیں اور جو جو کچھ اگلتے رہے ہیں یہ سب وہ گند ہے جو ان کے اندر بھرا ہوا تھا۔ اب کوئی کہے گا کہ ہر لیڈر، ہر حاکم ہر ادارے کا سر براہ، ہر اعلیٰ عہدیدار، عام انسان یا خاص الخاص، وہ اپنا نہیں دوسروں کا گند گن واتارہا تھا تو جواب ہوگا کہ گٹر بھی تو کسی اور کے گند کو ہی باہر نکال رہے ہوتے ہیں ۔ سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور چوراہوں پر بہنے والا گند کونسا ان کا اپنا ہوتا ہے۔ یہی کام انسان کر رہے ہیں۔ جو جو بھی گند بھرا ہے وہ دوسروں کا سمجھ کر باہر نکالتے رہے ہیں، گزشتہ پانچ برسوں میں ہر ایک ہر دوسرے کو برا کہنے اور برا ثابت کرنے پر لگا ہوا نظر آیا۔ حالانکہ جوش ملیح ٓبادی کا فرمان ہے

آدمی بزم میں دم تقریر

جب کوئی حرف لب پے لاتا ہے

درحقیقت خود اپنے ہی حق میں

کچھ نہ کچھ فیصلہ سناتا ہے

                ایک کہتا رہا میں اچھا ہوں تو برا ہے، دوسرا کہتا رہا تو برا ہے میں اچھا ہوں، ایک نے کہا تو چور ہے، دوسرا کہتا رہا کہ تو بھی تو چور ہے، ایک کہتا رہا تیرے بچے حلالی نہیں ہیں، دوسرا کہتا رہا کہ تیرے بچے خود تیرے کون سے ہیں۔ میں نے اگر اتنا لوٹا ہے تو تیرے بھی تو محلات بنے ہو ئے ہیں ۔ بحث اس بات کے انکار پر نہیں کہ اس ملک کو، اس کی دولت کو، اسکے وسائل کو، اس کی زمینوں کو اور اس کی جاگیروں کو میں نے نہیں لوٹا، نوچا، گھسوٹا بلکہ ساری کی ساری بحث اس بات پر ہوتی رہی کہ بڑا ڈاکو، لٹیرا، چور، قاتل، بھیڑیا اور درندہ کون ہے۔

                یہ سارے گٹر ایوانوں میں بھی تھے اور ایوانوں سے باہر بھی، گھروں میں بھی تھے اور گلیوں میں بھی، درگاہوں میں بھی تھے اور بازاروں میں بھی، سڑکوں پر بھی تھے اور چوراہوں میں بھی۔ سب کے سب اپنے اندر بھری ساری گندگیاں ایک دوسرے پر اچھالنے اور ایک دوسرے کو مزید بدبودار بنانے میں لگے رہے اور اس گندی میں سارے عوام و خواص برابر کے شریک رہے۔

                کون نہیں جانتا کہ کون کتنا گندا ہی نہیں پراگندہ بھی ہے پھر بھی ہر “چناو” کے وقت یہ گندی کے کیڑے (عوام) گندی میں جا گرتے ہیں۔ ان سب کیڑوں کی مثال کاپوریشنوں کے ان ملازمین جیسی ہو کر رہ گئی ہے جو گٹروںکے اندر گھس گھس کر گندیوں کو نکال نکال کر مسکراتے نظر آرہے ہوتے ہیں یا کچروں کے ڈھیروں میں دن بھر اپنا رزق تلاش کرنے کے بعد رات کو گند بھرا ٹوکرا اپنے سر کے نیچے رکھ کر سکون کی نیند سوجاتے ہیں۔

                الیکٹرونک میڈا سے زیادہ گندا و پراگندہ شاید ہی کوئی اور گٹر(ذریعہ) ہو جو معاشرے کو بگاڑ کی جانب لے جانے کا کردار ادا کر رہا ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ میڈیا گندگی کے غلیظ ترین مادے کو حسین ترین ریپر میں اسطرح ملفوف کرتا ہے کہ اس میں لپٹی بدبو اور غلاظت یوں پوشیدہ ہوجاتی ہے جیسے ڈاکٹر کی کڑوی کسیلی گولیاں چینی کی تہوں میں لپیٹ دی جاتی ہیں۔ یہ سجی سجائی بڈھیاں جو میک اپ کی تہہ در تہہ چڑھاکر بچیاں بن بن کر ادھر سے ادھرپھدک رہی ہوتی ہیں، یہ جوان جہان بچیاں جو لباس میں بھی بے لباسی کا پیکر بنی ہوئی ہو تی ہیں، یہ جو مجبوراً لباس زیبِ تن کرکے مختلف اشتہارات میں میں آرہی ہوتی ہیں اور کیمرہ مینوں کا بس نہیں چل رہا ہوتاکہ کہاں کہاں کیمرہ لیجائے، یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا میڈیا دکھا کر کسی بھی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کر ہا ہوتا۔

                دھماکے ہو تے رہے، شور و شر۔۔ ایک بیہودہ اشتہار۔ سو مر گئے تین سو زخمی ہو گئے۔۔ دس بارہ غلیظ ترین اشتہار۔۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔۔ وہی ٹھٹھول والے پروگرام، آگ لگ گئی، ادھر آگ بجھانے والی گاڑیاں پانی سے آگ بجھانے میں مصروف ادھر دلوں میں لگی آگ کو ناچ گانوں سے ٹھنڈا کیا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی موقعہ ہو میڈیا اپنے مشن (غلاظت پھیلانے)سے لمحے بھر کو بھی غافل نظر نہیں آتا اور حیرت ہے کہ چالیس سال میں ایک بھی خود کش بمبار ان پر نہیں پھٹا، پھٹنا تو دور کی بات اس جانب کبھی پھٹکا بھی نہیں۔

                یہ سب بھی تو ”گٹر“ ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ”منے کی سارے گند ی کوپیمپر“ میں لپیٹ کر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ گند نہیں ۔ کسی شاعر نے شایدایسی ہی کسی بات کے لئے کہا ہے

اللہ اللہ حسن کی سپلائیوں

عشق بھی لینے لگا ابکائیاں

                اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حقیقی گٹر ہوں یا مجازی، ابلنے بند ہو جائیں لیکن ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اس لئے کسی بھی کام کو تکمیل تک لیجاناہویا کسی بھی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہو، وہ خود بخود کبھی نہیں ہو سکتا، ہاتھ پر ہاتھ دھرنا اور کل کا انتظار چھوڑنا ہوگا اگر کچھ تبدیل کرنا ہوگا۔

                کل “چناو” کا دن ہے۔ دیکھنا یہ ہے “گو” (گندگی) کے کیڑے (عوام) کس کس کے گو میں جاکر گرتے ہیں۔ نہ جانے اب بھی ”بھولی بھالی“ پارٹی سے تعلق والے نیک شریف لوگ یہ کیوں سمجھے ہوئے ہیں ”کیڑے“ گندگی سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اللہ ان پر اپنا فضل و کرم فرمائے (آمین)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں