ووٹ کی پرچی بظاہر ایک معمولی سا کاغذ کا ٹکڑا ہے ،مگر اس کی اہمیت کا آپ کو اندازہ نہیں تو جان لیں کہ اگلے پانچ سال یا تو کرپٹ حکمرانوں کے منتخب ہوجانے کی صورت میں آپ پانی، بجلی، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، مہنگائی، بے روزگاری ، بدعنوانی، نا انصافی، عریانی و فحاشی، نت نئی بیماریوں ،تعلیم اور دین سے دوری کا سامناکریں گے یا پھر ایک حقیقی اسلامی ، خوشحال ،فلاحی پاکستان چاہیں گے۔کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا چند منٹ کاعمل ہے جس میں پانچ سال بعد ایک دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے ۔اس دن اپنے گھر سے نکل کر عموماًکسی قریبی اسکول کی عمارت میں صبح 8سے شام6کے درمیان جا کر ،شاید کچھ لائن میں لگ کر ،کچھ انتظار کی تکلیف اٹھا کر،اپنا شناختی کارڈ ووٹر لسٹ سے میچ کروا کر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر نو خانوں والی ایک مہر احتیاط سے لگا کر ڈبہ میں ڈال دیتے ہیں ۔بات ختم ،لیکن اگر آپ نے ایسا نہیں کیا یا پھر غلط انتخاب کرڈالا تو بہت پچھتائیں گے۔
آپ یقین مانیں قیامت کے دن اس عمل کا پورا حساب ہوگا۔قرآن مجید ( سورۃ النساء) میں اللہ تعالیٰ ہم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ ’’ امانتیں اہل افراد کے سپر دکرو‘‘۔اس لیے ملک و قوم کے خزانے جو آپ کی دولت سے ،آپ ہی کی خدمت کے لیے بھرے جاتے ہیں اُن کی سپردگی بھی ایک حقیقی امانت ہی ہے ۔اس لیے جا ن لیں آپ اپنا ووٹ جس امیدوار کے حق میں استعمال کریں گے اس کے صحیح اور غلط عمل میں حصہ دار ہونگے ۔ارے ڈریے مت ۔اس چکر میں کہیں گھرنہ بیٹھ جائیے گا، کیونکہ ووٹ نہ دینے کی بھی جواب دہی ہوگی۔اپنے درمیان اہل افراد کو پہچانیں ، ایسے اُمیدوار کو ووٹ دیں جو آپ کے نیکی کے پلڑے کو بھاری کرے ۔
حالات کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوگا۔اس نظام میں اب بھی خرابیاں سہی لیکن فی الحال دستیاب تو یہی ہے، راستہ بھی یہی ہے ۔ دن میں کتنے دوست احباب آپ سے رابطہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہونگے کہ فلاں چیز لینی ہے ،کوئی اچھی جگہ بتاؤ۔فلاں بیماری ہے کوئی اچھا ڈاکٹربتاؤ، کپڑے ،چپل لینے ہیں کوئی اچھی دکان بتاؤ ، ہر چیز کی کریڈیبلیٹی ،معیار آپ اپنی عام زندگی میں چیک کرتے ہیں ۔توپھر میرے بھائی اپنے حالات بدلنے کے لیے حکمرانوں کی اچھی طرح چھان بین کیوں نہیں کرلیتے۔کیوں موسیقی کی دھن،مخلوط جلسوں ، ایک پلیٹ بریانی، شور شرابا، رنگ برنگی چکا چوند ، تعصب پر مبنی دلفریب نعروں جیسی بے وقعت چیزوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی ، ہماری نسلوں کے لیے اہم ترین فیصلہ ہے۔
چلیں اتنے گنجلک ماحول میں کچھ اعداد و شمار کی روشنی میں آپ کی رہنمائی کرتا ہوں تاکہ آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ مجھے پتہ نہیں تھا۔ایک ایسے ماحول میں جب ابھی تازہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے سرکاری خزانے سے پونے دو لاکھ کی چائے صرف دو صحافی ٹیموں کو پلائی ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جب وہ پشاور میٹرو بس میں اربوں روپے کی کرپشن کے جواب میں یہ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں تجربہ نہیں تھا؟جب ایک پارٹی کا سربراہ جیل میں ہو ، ایک جماعت کے سربراہ کے ’اعلیٰ کردار ‘ پر کتابیں لکھی جا رہی ہوں۔ایک اور جماعت کے سربراہ کوایف آئی اے نوٹس دے چکی ہو۔یہ تو سربراہ کا حال ہے اُن کے نیچے عہدیداروں کا تو اندازہ کرلیں۔
اب ذرا دوسری جانب ، ملک میں قائم دینی جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد متحدہ مجلس عمل پر نظر ڈالتے ہیں۔
*متحدہ مجلس عمل کے موجودہ صدر مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت پر اعتراضات کرنے والے وہ تمام افراد بتائیں کہ کُل ملا کر وہ کتنے الزام لگا سکتے ہیں اُن پر؟
ریکارڈ گواہ ہے کہ آج تک کسی نیب، کسی تحقیقاتی ادارے نے اُن پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگایا ، نہ کوئی نوٹس ایشو ہوا۔اُن کے والد بھی ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں مگر اُن پر بھی آج تک کوئی حرف نہیں اٹھا سکا۔واضح رہے کہ مسلم لیگ کے بدگو رہنما خواجہ آصف نے 1996میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کوایک غلط اورسیاسی مخالفت کی بناء پر تضحیک آمیزنام سے پکاراتھا اور اسی نام کو بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا جاتا رہا ،جبکہ اس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی طرح *نائب صدر متحدہ مجلس عمل اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ۰ سابق سینئر وزیر کے پی، وزیر خزانہ کے پی) پر کسی بھی قسم کی مالی، اخلاقی، سیاسی ، معاشرتی کرپشن کے الزامات کی کوئی فہرست تو بنائیں؟شاید کوئی ایک بھی نہ مل سکے۔
*مولانا شاہ احمد نورانی ( متحدہ مجلس عمل کے پہلے صدر ) قاضی حسین احمد (ؒ متحدہ مجلس عمل کے دوسرے صدر )ذراِ ان دو شخصیات کے بارے میں کچھ الزامات تو جمع کر کے دکھائیں ۔اپنے بڑوں سے پوچھ لیں، گوگل کرلیں۔اخبارات دیکھ لیں۔
*چلیں 2002میں متحدہ مجلس عمل کی صوبہ سرحد حکومت کی کارکردگی میں کوئی سیاہ نقطہ ہی ڈھونڈ لائیں ۔آپ کیسے عالمی بینک کی جانب سے سراج الحق کی بطور صوبائی وزیر خزانہ اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کو جھٹلائیں گے ؟اُن بجٹ ریکارڈ کو کیسے رد کریں گے جن کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ کس طرح دیانت و امانت کے ساتھ قوم کا پیسہ خرچ کیا گیا عوامی منصوبوں پر۔
آج پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو بدترین خطرات لاحق ہیں ۔ ان خطرات کا مقابلہ کبھی بھی چور ، بدعنوان، نا اہل اور کرپٹ لیڈر شپ نہیں کر سکتی ۔نہ ہی وہ لوٹے کر سکتے ہیں جو اقتدار کے لالچ میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگا رہے ہیں ۔اسلامی قوانین خصوصاً ناموس رسالت ﷺ کے قانون کے درپے قوتوں کا سامنا اور مقابلہ کبھی بھی سیکولر و لبرل نہیں کر سکتے ۔معاشی طور پر پاکستان کو جس غلامی میں دھکیلا گیا ہے اُس کے لیے ایسی قیادت ہی درکار ہے جو سابقہ حکمرانوں کی طرح عیاش نہ ہو۔عوام کا درد رکھنے والے ، عوام کے درمیان بسنے والے ہی عوام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ۔
متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ بطور خلیفتہ اللہ فی الارض ، خالق کائنات کی جانب سے اس کی کتاب کے نظام کو قائم کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اس کتاب میں ہمارے لیے کامیاب سیاست، معیشت، معاشرت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی سمیت تمام اصول بیان کیے گئے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب اس زمین پر اللہ کی کتاب کا نظام نافذ ہوا تو آسمان و زمین سے رزق ،امن اور خوشحالی کے دروازے کھلے ۔یہ منظر بھی تاریخ میں رقم ہے کہ اس کتاب کے نظام کی برکت سے لوگ ٹوکروں میں زکوۃ لیے پھرتے اور خوشحالی کا عالم یہ ہوتا کہ کوئی ضرورت مند لینے والا نہ ہوتا۔
اس لیے متحدہ مجلس عمل نے اپنے انتخابی نشان یعنی ’کتاب‘ کو اپنے نظریات ، فکرسے ہم آہنگ اور اپنے منشور ،پالیسی کو سمجھانے کے لیے عوام الناس میں ابلاغ کیا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن مجید کے نظام کونافذ کرنے میں ہے۔یہ بات آئین پاکستان میں موجود قرارداد مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے ۔
متحدہ مجلس عمل نے جو عوامی فلاحی منشور پیش کیا ہے وہ پاکستان کی خوشحالی اورترقی کا حقیقی ترجمان ہے ۔جس میں قانون کی مکمل حکمرانی ہوگی اور عدل و انصاف سب کو بلا تفریق اور آسانی سے دستیاب ہوگا۔ہر شہری کے لیے لباس، خوراک ،مکان، تعلیم کے ساتھ روزگار بھی ہوگا۔قومی دولت لوٹنے والوں کا بے لاگ احتساب ہو گا کیونکہ جب احتساب کرنے والے کا دامن پاک ہوگا تب ہی ایسا ممکن ہوگا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک چور نے دوسرے کو راستہ ہی دیا ہے ۔توانائی اور پانی کی کمی کا مسئلہ جامع منصوبوں کے ساتھ دور کیا جائے گا،اختیارات کی منتقلی نچلی سطح تک ہوگی۔سودی نظام کا خاتمہ ہوگا اور اُس کی برکات سے پورا ملک معاشی ترقی کے پھل سے فیضیاب ہوگا۔پانچ بڑی بیماریوں کا مفت علاج کیا جائے گا۔دیانت دار افراد کے آنے سے کرپشن ، بے ایمانی، لوٹ مار ، کمیشن کلچر، رشوت ،ملاوٹ ختم ہوگی تو مہنگائی کی شرح بھی نیچے آئے گی ۔ایٹمی صلاحیت کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کاموثر بلاک بنایا جائے گا۔اقلیتوں کے تمام حقوق کا تحفظ ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں ۔
یہ سب خواب نہیں حقیقت بن سکتا ہے کیونکہ اس پر عمل کرنے کے لیے آپ کے سامنے متحدہ مجلس عمل کاکوئی بھی اُمیدوار کرپٹ، لوٹا ، بے ایمان، نہیں ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ، باصلاحیت ، خوف خدا رکھنے والا انسان ہے ۔یقین مانیں۔کتاب کودیے جانے والا ووٹ نہ دُنیا میں آپ کو شرمندہ کرے گا نہ ہی آخرت میں رُسوا ہونے د یگا۔
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...