بچوں کی تر بیت میں والدین کا کردار

اولاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ عام آدمی ہی نہیں نبیوں اور بزرگوں نے بھی اولاد کی تمناکی اور دعائیں مانگیں۔یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان اولاد کی تر بیت اور پرورش کے لئے تا حیات اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے۔ رب ذوالجلال فرما تا ہے ” مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہے”(الکہف) ہمارے سامنے سماج کی مختلف اکائیوں کی شکل میں موجود شرفاء و ذلیل ،کامیاب و ناکام،معززو مقہور افراد بچپن کی منازل طئے کر تے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ہمارے اردگرد بسنے والے یہ انسان جن میں قاتل بھی ہیں اور مقتول بھی،امن پسند بھی ہیں اور فسادی بھی یہ صرف اس تربیت کا نتیجہ ہے جو ان کو فرا ہم کی گئی جس کی بنا ء پر کوئی فتنہ پرور بن کر ابھر ا تو کو ئی ہا دی اور صالح بن کر ابھرا۔جس بچے کو اچھی تر بیت میسر آگئی وہ بہتر انسان بن گیا جو رہنمائی اور تر بیت سے محروم رہا وہ بے راہ روی کا شکار ہو گیا۔ رسول اکرم ﷺ کا فر مان ہے کہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بچے پیدائشی طور پر پاکیزہ اور نازک ہو تے ہیں۔اگر ان کو خیر کا عادی بنادیا جائے اور اچھے کا م سکھائے جائیں تو وہ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں بجائے اس کے اگر وہ بر ے افعال کے عادی ہو جا ئیں تو بربادی اور ہلاکت ان کا مقدر بن جا تی ہے۔ما ں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا گیا اورایک مثالی ماں کو ایک ہزار اسا تذہ پر تر جیح دی گئی ۔ ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی اور باپ کو جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ بنا دیا گیا۔ والدین کو ان اعلی و ارفع مقامات پر فائز ہ کرنے کی وجہ نسل نوکی تربیت میں ان کا گرانقدر کردار اور اولاد کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا آرام وسکون نثار کر ناہے۔
حشرات الارض پیدا ہو تے ہی رینگنے ،پرندے پرواز اور چوپائے چلنے پھرنے کے قابل ہو جا تے ہیں جب کہ اولاد آدم کو اپنی پیدائش کے بعد امور زندگی کی انجام دہی کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتاہے۔ اور وہ طویل عرصہ جس کے باعث بنی نوع انسان اپنے آپ کو خود کفیل بنا پاتی ہے اسے تعلیم و تر بیت سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ جہاں جانور اپنی خوراک اور زندگی کا ادراک لئے روئے زمین پر آتاہے وہیں انسانی نو زائیدہ نسل ان تما م رموز پا نے میں ایک عر صہ لگادیتی ہے۔ تربیت بنی نوع انسان کا وہ واحد وصف ہے جس کی بدولت انسان اپنی آنی والی نسلوں کو حسب منشاء تیار کر تاہے ۔ کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل اس ملک و قوم کے بچوں پر ہو تا ہے۔بچوں کو نظر انداز کر کے کو ئی بھی قوم آج تک کامیابی حا صل نہیں کر سکی ۔ کسی بھی ملک کی تعمیر و تخریب اور خیر و بھلائی میں بچوں کا اہم کردار ہو تاہے ۔ آج کے بچے کل ملک و قوم کے در خشاں و تابناک مستقبل کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اگر صالحیت اور اچھائی والدین میں پا ئی جائے تو بچوں کو مہذب و معتبر بنایا جا سکتاہے۔ بچے والدین کے پاس اللہ کی اما نت ہو تے ہیں اور اس کے بارے میں ان سے سخت باز پرس کی جائے گئی۔قرآن حکیم فر ماتاہے کہ ” اے ایمان والو ں اپنے آپ کو اور اپنے اہل وا عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ” رسول اکرم ﷺ نے فرما یا کہ” تم سب اپنی اپنی جگہ پر ذمہ دار ہو ۔خلیفہ ذمہ دار ہے ،اس سے اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے ان کے متعلق اس سے پو چھا جائے گا۔ عورت اپنے گھر کی ذمہ دار ہے ، اس کے بارے میں اس سے پو چھا جا ئے گا۔خا دم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے،اس کے متعلق اس سے پو چھا جا ئے گا۔تم سب ذمہ دار ہو ،اپنی رعیت کے متعلق پوچھے جا ؤ گے۔”۔
انسانی نسل کی تر بیت سے مراد صحت مند معاشرے کی تشکیل ہے والدین کی حیثیت ایک معمار ایک انجینئر کی ہو تی ہے جس طرح ایک انجینئر عمارت کی مضبوطی کے لئے ا یسی تدابیر اختیار کر تا ہے جس کی وجہ سے عمارت مضبو ط اورپائیداربن جائے بالکل اسی طرح ذمہ دار والدین بچوں کی تربیت میں ان تمام عناصر وعوامل کو بروئے کا ر لا تے ہیں جس سے سماج کو مطلوبہ انسان حا صل ہوں۔ تربیت کے ذریعہ بچوں کو سماج کے لئے کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔ علم معلومات کی فراہمی کا ایک نام ہے او ر عمدہ تربیت سے علم نکھر تا ہے۔ تربیت ایک بے آب و گیاہ بنجر انسانی ذہن کو اخلاق و مروت ،حمیت و جرات ،شجاعت و سخاوت اور انصاف پرور ی کا اعلی نمونہ بناتی ہے۔ علم اور دانشوری کو ماہر تعلیم برنارڈ رسل دو مختلف چیزوں سے عبارت کرتاہے اس کے مطابق علم کی گود میں عافیت کے ساتھ بر ائیاں بھی جنم لیتی ہیں اور تربیت کے ذریعہ ہی ان کا سد باب ممکن ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت ایک فن ہے اور ضروری ہے کہ والدین اس فن میں مہارت حا صل کر یں۔فن سے عدم آگہی اور لا پرواہی کے نتیجے میں بچوں کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔رسول اکر م صلی اللہ علیہ و سلم نے فر ما یا کہ “روزانہ ایک صاع صدقہ کر نے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنے لڑکے کو بھلائی کی تعلیم دے۔” اسلام نے بچوں کی تربیت کے ضمن میں والدین پر تین با تیں بالکل واضح کر دی ہیں جس سے اولاد کو معمور کر نا ضروری ہے”اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ،اہل بیت سے محبت اور قرآن کر یم کی تلاوت۔”قرآن فہمی تو کجا ہماری نسل صحت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کر نے کے قابل بھی نہیں ہے۔آج انسانی اقدا ر کی زبوں حالی کا سبب نسل نو کاا خلاقی فقدان ہے اور تر بیت کے اسلامی اصولوں سے دوری کا نتیجہ ہے۔
دانائی اور حکمت تر بیت کے اہم امور میں سے ایک ہے۔والدین کی ادنی سے لاپرواہی سے بچوں اور والدین دونوں کی دنیا اور آخرت تباہ ہو سکتی ہے۔ بچے کی تر بیت میں گھر کا ماحول اہم ہو تا ہے۔اگر گھر کا ما حول خوش گوار نہ ہو تو بچوں میں بہت سا ری خرا بیا ں راہ پا سکتی ہیں۔بچوں کی تر بیت سے والدین کوما یوس نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ بچوں کی بر ی عادتیں فوراًدور نہیں ہو تی ہیں اس کے لئے وقت درکار ہو تا ہے اور جو والدین اس کا م میں تندہی سے جڑے ہو تے ہیں ان کی اولا د اوصاف حمیدہ کی حامل ہو تی ہے۔بچوں سے بہت زیادہ بلند اقدار ا و ر توقعات کا و ابستہ کر لینا بھی خلاف عقل با ت ہے۔والدین بچوں کو اپنے معیار کی کسوٹی پر نہ جانچیں ۔والدین آج اخلاق و اقدار کی جن بلندیوں پر فائز ہیں وہا ں تک پہنچنے میں انھیں کئی سال لگ گئے ہیں پھریہ کیسے ممکن ہے کہ بچے اپنی زندگی کے اولین دور میں اخلاق و اقدار کی ان چوٹیوں کو سر کر لیں۔والدین بچوں کو بار بار نصیحت کر نے سے احتراز کریں اس سے بچے ضدی اور نا فرمان ہو جا تے ہیں۔ والدین بچوں کے لئے وقت نکالیں کیو نکہ والدین کے وقت پر اولاد کا حق ہے۔جو والدین بچوں کے لئے وقت نہیں نکالتے ان کے بچے پھسڈی پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔والدین بچوں کے سامنے اپنا مثالی کردار پیش کریں اگر وہ خود اپنی زندگی میں اخلاق اور اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہو ں تو پھر بچوں سے اچھے اخلاق کی توقع عبث ہے۔اخلاق اور کردار تعلیم کا جو ہر خاص ہے اخلاق و کردار سے محروم قوم سے کسی تعمیر و تر قی کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔
والدین اپنی اولاد کے مزاج اور صلاحیتوں کا بخوبی جائزہ لیں اور دانشمندی سے ایک ایک خوبی کو پروان چڑھائیں اور ایک ایک خرابی کو دور کر نے کی کوشش کر یں۔بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے ،ایمانداری اور بھلائی کے کام کر نے کے علاوہ دوسروں کی مدد کی ترغیب دیں تاکہ ان کا نور نظر معاشی حیوان کے بجائے ایک سچا انسان بنے۔والدین تر بیت میں بچوں کی عمر اور استعداد کا لحاظ رکھنے سے نہ صرف بچوں کی طاقت کو صحیح رخ دے سکتے ہیں بلکہ ان کی بہت سی برائیوں کو دور بھی کر سکتے ہیں۔ بچوں پر ان کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ایک حماقت ہے جس سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے ۔ بچوں کی تربیت پر والدین کے علاوہ اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل میں افراد خاندان،اساتذہ،اسکول،تعلیمی نظام اور معاشرہ قابل ذکر ہیں۔ ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لئے والدین بچوں کو اپنے حقوق کے علاوہ پڑوسیوں کے حقوق،رشتے داروں کے حقوق، چھوٹے بڑوں کے حقوق اور اساتذہ کے حقوق کی تعلیم و تر بیت کا اہتمام کریں۔بچوں میں تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے انھیں ملاقات کے آداب ،نشست و بر خاست کے آداب،مجلس کے آداب وغیر ہ کی تر بیت فراہم کر نابھی ضروری ہے تاکہ بچے مہذب زندگی بسر کر سکیں۔بچوں کو جذبات کے اظہار کی آزادی دی جائے اور اگر وہ کسی غلطی کا ارتکاب بھی کر بیٹھیں تو احسن طریقے سے ان کی سرزنش کریں۔
والدین صرف نیک اولاد کی تمنا نہ کر یں بلکہ اولاد کو نیک بنانے کی کو شش بھی کریں۔ والدین بچوں کی صحیح تعلیم و تر بیت کے لئے انبیاء کی ان نصیحتوں سے فیض اٹھائیں جن کا قر آن میں ذکر کیا گیاہے۔تریت کے اس الوہی نظام کے ذریعہ نسل انسانی کو تباہی و بے راہ روی سے بچایا جا سکتاہے۔والدین اپنے انتقال سے پہلے اولاد کو کوئی ایسی چیز دینا چا ہتے ہیں جو ان کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی ہے ایک عام آدمی اپنی وفات سے پہلے اولاد کے لئے زیادہ سے زیادہ دولت چھوڑنا چاہتا ہے جب کہ ایک سر مایہ دار و تا جر کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے مستحکم تجارت وراثت میں چھوڑے اور ملازم پیشہ شخص اپنی اولا د کو اونچے عہدوں پردیکھنے کی آرز و کر تا ہے۔یہ تمنائیں اور خواہشات انسانی نسل کی دنیا کو خوش حال تو بنا سکتی ہے لیکن اس میں اخروی خسارے کی سوا کچھ اور نہیں ہے۔ والدین کو یہ فکر نہیں ہو نی چاہیے کہ ان کی زندگی کے بعد ان کی اولاد کا کیا ہو گا بلکہ والدین کو یہ فکر لاحق ہونی چاہئے کہ ان کی اولا د کا ان کی زندگی کے بعد کیا ہوگا کیو نکہ دنیا کی کا میابی تو ایک فر یب ہے جب کی اخروی کامیابی ایک حقیقت ہے۔ والدین کو اسلامی تربیت کے بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جس کے سہارے وہ اپنی اولا د کی اخلاقی ،معاشرتی ،ذہنی،حسی،جذباتی اور جنسی تر بیت کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔وہ والدین جو ما حول کی خرابی کا راگ الاپتے ہیں انھیں چاہئے کہ وہ ما حول کی اصلاح کا کام اپنے گھر سے شروع کر یں۔ماحول کی اصلاح کی تحریک اس وقت طاقت ور ہو جا تی ہے جب مصلح کے گھر کے افراد تعلیم و تر بیت کا اعلی نمو نہ بن جا تے ہیں۔ مو ثر تر بیت کے لئے ایک صالح دینی ما حول کا ہونا اشد ضروری ہے۔بھلائی اور برائی تعلیم و تر بیت اور افہام و تفہیم کے ذریعہ پھیلتی اور فروغ پا تی ہے۔والدین جس طرح اولاد کے دنیوی آرام کا خیال رکھتے ہیں اسی طر ح اپنی اولاد کی فکری ،عملی اور اخلاقی تربیت کے ساما ن بھی فراہم کریں۔والدین ذراسی دھوپ کی تمازت سے اپنی اولاد کو بچانے کے لئے اپنی تمام توانیاں صرف کر دیتے ہیں بھلا وہ کس طرح گوارا کر یں گے کہ ان کی اولا ددائمی آگ کی نذر ہو جائے۔والدین کی اولاد سے اصل محبت اور سچی خیر خواہی یہی ہے کہ بچوں کو دنیوی راحت و آسائش کے سامان فرا ہم کر نے کے ساتھ ان کو آخرت کی لازوال دولت سے بھی واقف کراوئیں تب ہی وہ اپنی تر بیتی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو سکتے ہیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں