وضاحتیں مگر کیوں؟

جس دور میں سچ بولنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے اور سچ جان و مال اور عزت و آبرو کی قیمت پر بولنا پڑے تو جان رکھو کہ اس دور میں سچ بولنا ہر فرد و بشر پر فرض ہوجاتا ہے۔ پاکستان ہی کیا پوری دنیا جب سمجھ رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ حکومتی معاملات میں “خلائی مخلوق” کا واضح کردار ہے تو پھر اس کی تردید جتنی بھی کی جائے کم ہے جبکہ خود تردید کرنے والوں کا ایک ایک لفظ تردید کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لہٰذا جتنی وضاحتیں در وضاحتیں کرتے جاتے ہیں اتنا ہی ان کا ہر بیان چغلی کھا رہا ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں ہم ہی ہیں اور پاکستان کا ہر ادارہ اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی جس زبان میں بات کر رہی ہے وہ خلائی مخلوق ہی کا انداز بیان ہے۔ سیاسی بینرز میں لگی تصاویر ہوں یا ان کا لب و لہجہ اس بات کا عکاس ہے کہ وہ سیاسی پارٹی ہونے کے باوجود کس کو اپنا سر پرست اعلیٰ تصور کرتے ہیں۔ وضاحتیں خود اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دال میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا ہے۔

کیا 2013 کے الیکشن کے فوراً بعد اسلام آباد کا گھیراؤ اور دھرنے بنا اشارہ ابرو ممکن تھے؟۔  کیا ان ساری کہانی کا اظہار خود آئی ایس آئی کے سابق سربراہ “پاشا” صاحب خود نہیں کرتے رہے۔ کیا بہت سارے آپریشنز کیلئے بے پناہ اختیارات جمہوری انداز میں حاصل کئے گئے؟، کیا ماڈل ٹاؤن کے شہدا اور مجروح افراد کی ایف آئی آر سابق آرمی چیف کے کہنے پر نہیں کاٹی گئی جبکہ یہ معاملا کہیں سے کہیں تک بھی آرمی سے متعلق تھا ہی نہیں۔ کیا دھرنے والوں کو اسلام آباد خالی کرنے کا حکم دینے کی بجائے ان کو جی ایچ کیو بلاکر مذاکرات نہیں کئے گئے اور ان کی خواہشات میاں نواز شریف کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ کیا حکومت وقت نے آپ کو اسلام آباد کی ساری اہم عمارتوں کی محافظت کے قانونی اختیارات تفویض نہیں کر دیئے تھے۔ قانونی اختیارات کے باوجود اہم ریاستی عمارتوں کا تحفظ کیوں یقینی نہیں بنایا گیا؟۔

جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ فوج کے ترجمان کی جانب سے جتنی بھی وضاحتیں آرہی ہوتی ہیں کہ وہ سیاسی عمل میں شریک نہیں اتنا ان کا شریک ہونا ظاہر ہوتا چلاجاتا ہے۔

آئی ایس پی آرکے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کہتے ہیں کہ “انتخابات وقت پر ہوں گے” تو کیا انتخابات فوج کرارہی ہے یا کس نے یہ بات کہی ہے کہ افواج پاکستان انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ فوج کاکام کسی بھی جمہوری ملک میں نہ تو انتخابات کرانا ہوتا ہے، نہ اس کی تاریخ دنیا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کو التوا کا شکار کرے۔ یہ سارے کام ہر جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن کے ہوا کرتے ہیں۔ یہ بیان تو الیکشن کمیشن کا ہونا چاہیے تھا کہ الیکشن وقت پر ہونگے یا نہیں ہونگے۔ ترجمان مزید کہتے ہیں ” انتخابات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، فوج غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہے گی،25جولائی کو عوام جمہوری عمل آگے بڑھائیں گے، ہماری جانب سے مسٹر اے، بی یا سی آئیں، عوام جسے منتخب کریں گے قبول ہوگا”۔ کیا ان تمام وضاحتوں کی ضرورت تھی؟۔ پھر یہ الفاظ کہ اے بی سی جو بھی وزیراعظم ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا والی بات کچھ عجیب سی نہیں؟۔ کیا رد و قبول کی کوئی گنجائش کسی بھی حکومت کے متعلق کوئی ادارہ رکھتا ہے؟۔ دنیا کے ہر ملک میں سارے ادارے حکومت کے تحت ہی آتے ہیں اور کوئی ایک محکمہ بھی کسی حکومت کو “رد یا قبول” کرنے یا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا یہ الفاظ اس بات کی غمازی نہیں کر رہے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا بھی ہے جو حکومت کو قبول بھی کر سکتا ہے اور رد بھی؟۔

رہی یہ بات کہ ” جو پارٹی اور لیڈر عوام کو پسند ہے، بلاخوف اسے ووٹ ڈالیں” بھی کچھ زیادہ تعجب خیز نہیں؟۔ عام انتخابات میں شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ اپنی پسند کی پارٹی، رہبر اور رہنما ہی کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ کیا کچھ سیاسی پارٹیوں کے ناک نقش ہی بگاڑ کر نہیں رکھ دیئے گئے؟۔ کیا ان کے گرد گھیرا اس حد تک تنگ کرکے نہیں رکھ دیا گیا وہ الیکشن لڑیں یا نہ لڑیں جیسی کشمکش کا شکار ہیں۔ کچھ  کیلئے جمہوری راہیں بہت ہی مسدود کرکے رکھ دی گئی ہیں۔ ایسا کیوں ہے کیا اس سلسلے میں بھی ضروری اقدامات کی ضرورت نہیں تھی؟۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ” ٹاک شوز میں فوج کیخلاف جیسی زبان استعمال ہوتی ہے وہ برداشت کررہے ہیں،سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے”۔ ایک تو یہ بات کہ پاکستان میں جتنے بھی آزاد چینلز ہیں ان میں سے کوئی ایک آدھ چینل ہوگا جس میں آپ کے خلاف بات کرنے کی ہمت ہو رہی ہوگی ورنہ تو تمام چینل آپ ہی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ چینل آپ سے متعلق کوئی ایسی بات کرتا ہے جو آپ کے بقول برداشت سے باہر ہوتی ہے تو واقعی گراں گزرنے والی بات ہے لیکن کیا آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ پاکستان کے سارے چینلز حکومت کے خلاف رات دن زہر اگلتے نہیں رہتے؟۔ آپ تو کسی بھی ریاست کا یا حکومت کا ایک ادارہ ہیں اگر اس کے خلاف کوئی بات ریاست کی کمزوری کا باعث بن سکتی ہے تو کیا حکومت کے خلاف زہرافشانی سے ریاست طاقتور ہوتی ہے۔ جب آپ کو حکومت کے خلاف کوئی بات ریاست کے خلاف نہیں لگتی تو محض ایک ادارے کے خلاف بات ریاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے؟۔

کہا گیا ہے کہ “خلائی مخلوق سیاسی نعرہ ہے” تو جناب “جیپ” کو آپ سے منسوب کرنا بھی تو ایک سیاسی نعرہ ہی ہے پھر جیپ کے سلسلے میں اتنی اہم پریس کانفرنس میں وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست میں ایسی بہت ساری باتیں ہوا ہی کرتی ہیں لیکن ان باتوں کی پس پردہ بھی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔ کیا جیپ کے نشان والے چودھری نثار کا یہ بیان کہ “میں نواز شریف کو ایسے ہی حالات سے بچانا چاہتا تھا جن سے وہ گزر رہے ہیں” کی کیا کوئی اہمیت نہیں؟۔ کیا وہ ووٹ کی عزت کی بات نہ کرتے اور وہی کچھ کرنے کیلئے راضی ہوجاتے جو 2014 کے دھرنوں کے ذریعے منوانا چاہا گیا تھا؟۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ “ہماری کوئی سیاسی جماعت نہیں، صرف پاکستان کے عوام ہی ہمارا مفاد ہے، عوام کے لیے ضروری ہے الیکشن بہت اچھے طریقے سے ہوں، جتنی تعداد میں ووٹ ڈلیں اتنے ہی باہر آئیں تو اتنا ہی شفاف الیکشن ہوگا، عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں، جو پارٹی اور لیڈر انہیں پسند ہے کسی خوف کے بغیر اسے ووٹ ڈالیں۔انہوں نے کہاکہ اگر ووٹر سمجھتے ہیں یہ ان کا نمائندہ ہے تو ووٹ ڈالیں”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افواج کی کوئی سیاسی جماعت نہیں لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ افواج پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی رہی ہیں، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا سبب بنتی رہی ہیں، جماعتی اتحاد تشکیل دیتی رہی ہیں اور عوامی رائے ہی کو نہیں آئین پاکستان کی دھجیاں بھی بکھیرتی رہی ہیں۔ کیا مجیب کو اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا، کیا نواز شریف کوضیا الحق کے دور میں متعارف نہیں کرایا گیا۔ کیا غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں جونیجو کو وزیر اعظم نہیں بنایا گیا اور ایک نام نہاد اسمبلی سے آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم نہیں کرائی گئیں۔ کیا “آئی جے آئی” کی تشکیل میں آرمی کا کوئی کردار نہیں رہا۔ کیا پرویز مشرف کے دور میں “ق” کی حکومت کو بنانے کیلئے “پیٹریاٹ” نہیں بنائی گئی۔ کیا شوکت عزیز کو درآمد کرکے وزیر اعظم بنانے کیلئے ظفر اللہ جمالی کو نہیں ہٹایا گیا۔ کیا یہ سب کچھ بقول آپ کے “اللہ کے بندے” نہیں کرتے رہے۔ پھر بھی اگر یہ کہا جائے کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو کتنی عجیب سی بات ہوگی۔

 تر جمان پاک فوج کہتے ہیں کہ “یہ کیسے ممکن ہے ساڑھے 3 لاکھ فوج کو کان میں کہہ دیں ایسا کرنا ہے، فوج کی ایک عزت ہے، سپاہی ہمارے حکم پر جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے اسے غلط حکم نہیں دے سکتے”۔ یہ بات ان شکوک و شبہات کے پس منظر میں کہی جارہی ہے کہ فوج انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ پنجاب کا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس کا کوئی فرد پاک فوج میں نہیں رہا ہو یا موجود ہو۔ عوام پاک فوج کی اور خاص طور سے پنجاب کے عوام افواج پاکستان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ پنجاب کے عوام پاک فوج کی تائید کو نظر انداز کبھی بھی نہیں کر سکے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت مسلم لیگ کے بیشمار ناموں کے ساتھ وجود میں آنا رہا ہے۔ پھر یہ کہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی بات کو الفاظ ہی میں بیان کیا جائے۔ عوام رویوں، جھکاؤ اور رجحان سے بھی بہت سارے نتائج اخذ کر لیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جماعت کی جانب سے آرمی چیفوں کا “جی آیا نوں” کے پوسٹر لگے دیکھ کر اور اس پر پاک فوج کی جانب سے کوئی اعتراض نہ آنے کے مفاہیم نہیں سمجھتے ہونگے یا ٹی وی ٹاک شوز میں کسی خاص جماعت کا ہر معاملے میں پاک فوج ہی کے حوالوں اور پاک فوج کی خاموشی سے کوئی مطلب اخذ نہیں کرتے ہونگے۔ اس لئے کان میں پھونکنے والی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی، اہمیت رویوں کی ہوا کرتی ہے جو 1958 سے تا حال دنیا کے سامنے ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے کسی ایسے انداز کا ضرور نوٹس لینا فرض بنتا ہے جو اپنی باتوں اور جلسوں میں کی جانے والی باتوں سے اس بات کا اظہار کریں کہ وہ آپ کی مرضی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ایسی باتوں پر قد غن لگائیں جس سے “وردی” پر کوئی حرف آتا ہو۔ اس ضمن میں “ایمپائر کی انگلی” کے بار بار حوالے کو ضرور کوڈ کیا جاسکتا ہے جس کا 126 دن تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ اور ایسی بہت ساری باتیں اور حقائق ایسے ہیں جن کے ہوتے ہوئے لاکھ وضاحتیں بھی خدشات کو دور نہیں کرسکتیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ “کوئی ایک ایسا الیکشن بتایا جائے جس سے پہلے مختلف جماعتوں کے لوگوں نے پارٹی تبدیل نہ کی ہو، بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں دوسری جماعتوں کو نیچا دکھا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کرتی ہیں” ترجمان کی اس بات میں وزن ہے کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ممبروں کے بازار مصر سجائے جاتے رہے ہیں اور اونچی اونچی بولیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔ جہاں یہ بات درست ہے وہاں جونیجو لیگ اور پیٹریاٹ بھی ایک حقیقت ہیں۔ نیز کراچی میں تو حد ہی کی گئی ہے۔ جن جن کو بھی سنگین جرائم کے الزام میں رینجرز پکڑ کر لیجاتی رہی ہے وہ دوسری پارٹیاں جوائن کرکے پاک صاف قرار دیئے جاتے رہے ہیں۔ یا الزامات جھوٹے تھے یا دوسری پارٹیوں میں شمولیت پر ان کو پاک صاف قرار دینا غلط ہے۔ ایسے چند نہیں ہزاروں ہیں جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح معصوم بن کر پھر رہے ہیں۔ کیا یہ سب گرفتاری سے پہلے کسی دوسری پارٹی میں منتقل ہوئے ہیں؟۔ لہٰذا خود کو ہر معاملے سے بری الذمہ سمجھ لینا انصاف کے خلاف ہے۔

تر جمان کا کہنا ہے کہ “پاک فوج گزشتہ 15 سال میں بہت اہم اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑرہی ہے، جب آپ دل یا دماغ کی سرجری کررہے ہوں تو چھوٹی بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی نیز ان سب چیزوں کا مقصد ہے کہ فوج کی توجہ مین ایشوز سے ہٹائی جائے”۔ یہی بات ایک عام فرد سوچتا ہے کہ آخر وہ کیا مجبوری ہے جس کی وجہ سے پاک فوج پولیس، بلدیاتی نمائندوں، مجلس قائمہ یا سینٹ کے “جھوٹے جھوٹے” غیر اہم معاملات میں دخل دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ آپ کی نگاہوں میں اہم اور غیر اہم کیا ہے یہ آپ جانیں لیکن آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا ہندوستان کی را کے سابق سربراہ کے ساتھ راتیں سیاہ کرنا اور دن پاکستان کے ساتھ غداری میں گزانا جیسے معالے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آنے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے۔ کہاں گئی وہ کتاب اور کہاں ہیں صاحب کتاب؟۔ اس راز سے پردہ کون اٹھائے گا۔ ممکن ہے یہ بات “دل و دماغ” کی سرجری جیسی بیماری میں شمار نہ ہوتی ہو کیونکہ معاملہ آپ سے متعلق تھا۔ یہی بات اگر کسی حاضر یا سابق سر براہ حکومت کر بیٹھتا توسرجری کی بجائے پورا سر ہی اتار دیا گیا ہوتا۔

ترجمان نے “میڈیا سے اپیل کی ہے کہ میڈیا بھی اس عمل کو ٹھیک سے لے کر چلے، میڈیا الیکشن میں شفافیت پر ہم سے زیادہ تعاون کرسکتا ہے”۔ میڈیا سے اور کتنا تعاون در کار ہے، اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے تھی اس لئے کہ میڈیا کے سارے چینلز آپ سے اور پی ٹی آئی سے تعاون کی انتہا پر نظر آرہے ہیں جو کبھی اس پر زور طریقے سے معاونت کرتے نظر نہیں آئے۔

پارٹیوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے، مقابلے کی ساری پارٹیوں کو کنارے لگا دیا گیا ہے۔ ن، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے چہرے مسخ کئے جا چکے ہیں اس کے بعد اگر الیکشن میں شفافیت نظر آرہی ہے تو اس پر بھی غور کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ “اے بی سی” میں سے جو بھی آجائے ہمیں قبول ہے تو جان کی امان پاؤں کے بعد اتنی گزارش ہے کہ “اے” والی بات تو آپ کی مانی جا سکتی ہے لیکن کیا آپ کو “بی اور سی” کہیں نظر آرہے ہیں؟۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں