اک کہانی چھڑرہی ہے اک کہانی ہوچکی

ماضی قریب کا ذکر ہے کہ مُسلم لیگ( ن )کا  راوی چین ہی چین لکھتا تھا تاآنکہ   پاناما اسکینڈل کا  بلائے ناگہانی کی صورت  وُرُو دہوا تو اُسے سنجیدہ لینے کی بجائے ٹھٹھہ بازی کی گئی، اپنے اقتدار کے خلاف عالمی سازش قراردیا گیا،ملکی ترقی کو سَبُوتاژ کرنے کی طرف اشارے ہوئے مگر بات کچھ بن نہ آئی ۔نواز شریف  کی کرپشن کا قضیہ سیاسی جماعتوں کے شورو غوغا اور قومی اسمبلی سے ہوتا ہواعدالت عظمیٰ کی چوکھٹ پہ کچھ ماہ ٹھہرا ،وزیراعظم کوتخت سے محروم کرکے،احتساب عدالت سے فیصلہ لیتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا۔

تاریخ کے اوراق  الٹ کر دیکھیں تو خال خال ہی ،ہمارے دیس میں ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں  کہ مقتدر ترین طبقہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑا دیکھا گیا ہو۔ملک میں گھوم پھر کر دیکھئے ،عوام کے ہاں یہ تاثر جڑ پکڑچکا ہے کہ  ایک ہی قانون کی کتاب غرباء اور امراء کے لیے مختلف قانون رکھتی ہے۔مقدمہ شروع ہوا تو  احتساب عدالت میں نواز شریف ،دخترِ نواز،کیپٹن (ر) صفدراور دونوں سپوت بھی پیش ہوئے ۔ اس دوران شریف خاندان نے آسمان سر پہ اٹھائے رکھا،مقدمے پر سیاسی رنگ چڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی،نئی نئی اصطلاحات سننے میں آئیں،طرح طرح کے نعرے گھڑے گئے مگر اس دوران احتساب عدالت میں  کوئی گواہ پیش کیا جاسکا  نہ اثاثوں کا کوئی ریکارڈ ۔ بالآخر 6جولائی بروز جمعہ کو احتساب عدالت نے ملکی تاریخ کے ایک بڑے قضیے کا قصہ نمٹادیا ۔ بقول بہراد لکھنوی ۔۔۔۔

؎لب  پہ ہے فریاد اشکوں کی روانی ہوچکی

اک کہانی چھڑ رہی ہےاک کہانی ہوچکی

انتخابات سر پہ ہیں،انتخابی مہم کہنےکو تو عروج پر ہے مگر محفل میں پہلے سی وہ رونق نہیں ۔ یوں لگتا ہے ابھی انتخابات کوسوں  دورہوں،کسی بھی حلقے میں جائیں ،آپ کو وہاں کے عوام میں  انتخابات ایسا جوش و خروش  ملے گانہ ہی   امیدواروں کی مہم میں مخالف کو پچھاڑ دینے کا جذبہ ۔ سرد مہری  کی ایک چادر ہے جو پورے ملک پر تنی ہوئی  ہے ۔خدا خیر کرے! ایسا لگتا ہے دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو  کودار پر کھینچا گیا تو پیپلزپارٹی  کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ایک عشرہ لگ گیا۔ ضیاء الحق  اس سمے سیاسی  پودوں کی آبیاری  میں مگن رہے تاآنکہ  ایک دن دورانِ پرواز ہی ان کی روح پرواز کرگئی ۔محترمہ بے نظیر بھٹوکی تاج پوشی ہوئی ،آپ دو بار پاکستان کی وزیراعظم رہیں البتہ کرپشن  کی داستانوں میں محترمہ کا نام بھی جلی حروف میں آتا رہا۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری‘‘مسٹر ٹِن پرسنٹ’’ کے نام سے جانے جاتے  تھے۔سرے محل،سویٹزرلینڈ کے بنکوں میں 60ملین ڈالر کی رقوم،انہیں دنوں کی یادگاریں ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کی نذر ہوگئیں تو پیپلزپارٹی کی باگ بغیر کسی تامل کےآصف علی زرداری کے ہاتھ آگئی  اور یہاں سے زوال  اور کرپشن کی دوسری  داستان کا آغاز ہوتا ہے ، وہ کام جو طاقتور آمر نہ کرسکےوہ فرزندِحاکم علی  زرداری نے پانچ برس میں کردکھایا ۔پیپلزپارٹی ، آج اندون سندھ تک محدود ہے،جائیداد کے اعتبار سے البتہ دبئی،پیرس اور سویٹزرلینڈتک پھیلی ہوئی ہے ۔جس کا انجام جلد ہی خلق ِخدا دیکھے گی ۔ بلاول بھٹو ہاتھ پاؤں بھانویں مار لیں مگر اب کی بار دریا پار کرنا سہل نہ ہوگا۔ کشتی طوفان کے نرغے میں ہے !!

نواز شریف ،ہماری تاریخ کا وہ واحد شخص ہے جس کے سرپر اقتدار کا ہماتین بار بیٹھا ۔قدرت اتنی فیاض کم کم ہی ہوا کرتی ہے مگر تینوں مرتبہ وہ کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام دینے میں ناکام رہے کہ تاریخ انہیں یاد رکھے ۔آج پانچ براعظموں میں موصوف کی جائیداد کے تذکرے و چرچے ہیں۔ لوٹ مار کی داستانوں میں ان کا نام البتہ سنہری حروف میں لکھا جا تا رہے گا۔ آمر کی دہلیز سے اٹھنے والا‘‘انقلاب’’بالآخر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس  کی نذر ہوگیا ۔ ۔۔۔

؎آخری آنسو مری چشم الم سے گر چکا

سننے والوختم اب مری کہانی ہوچکی

احتساب عدالت اپنا فیصلہ دے چکی ، ظاہر ہے بہت غوروخوض کے بعد۔ مگر  اب بحث چل نکلی ہےکہ  فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے؟ انتخابات میں مُسلم لیگ (ن ) کا عَلم شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے ۔ شہباز شریف  بساط بھر کوشش کررہے ہیں مگرماضی سا وہ دم خم کہیں دیکھنے میں نہیں آرہا ۔صاف لگتا ہے کہ وہ دو کشتیوں کے مسافر ہیں،بڑے بھائی کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی رام کرنا چاہتے ہیں۔

 گزشتہ ہفتے تڑکے تڑکے باد و باراں نےلاہورکو آن لیا،گزشتہ دس برس کی غازہ پیرائی کو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے بغیر کسی تعرض کے اتار دیا۔ وہ پنجاب ،خصوصاَ لاہورمیں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو بطور تمثیل پیش کرتے ہیں اور اسی بابت قریہ قریہ سے داد چاہتے ہیں۔جبکہ حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں ۔ کونسے ترقیاتی کام ہیں ،جن کی منادی،عوام صبح و شام سنتے ہیں ؟شہر میں چند انڈرپاسز ہیں،کچھ طویل پُل ہیں ۔سوریج،پٹوارخانہ،صاف پانی ،تھانہ کچہری اور فضائی آلودگی ایسے مسائل سے احتراز برتا گیاکیونکہ یہ خلق کو دکھائی نہیں دیتے ۔بجلی کی بندش ہو،مہنگائی کا طوفان ہو،باد و باراں کی زیادتی ہویاپانی کی قلت ہو،ہر مسئلے کا بار نگران حکومت کے کاندھوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔

کپتان سے عوام نے امیدیں باندھے رکھیں،بیس  سال اُن کی سیاسی زندگی کا محور کچھ اور تھاکہ یکایک کچھ او ر ہوگیا،اب تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ دیکھئے عوام  کس کو ترجیح دیتے ہیں۔

مُسلم لیگ (ن ) کا مستقبل نواز شریف کی انتخابات سے قبل واپسی سے جڑا ہے۔13جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری  سے  ممکن ہے پنجاب  سے ہمدردی کی ایک لہر اٹھے اور خاطر خواہ ووٹ مُسلم لیگ (ن ) کے دامن میں آن گریں،  وگرنہ مُسلم لیگ (ن) کا نام تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔

حصہ
mm
فہد محمود صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں ،ایکسپریس ٹی وی میں بطو ر ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کام کررہے ہیں۔اسلامک انٹرنیشل یونیورسٹی سے میڈیا اینڈکمیونیکیشن میں ایم فل کررہے ہیں۔ ادب ،سیاست ،تاریخ اور بین الاقوامی حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں