شریف حیران ہیں دل پیٹیں یا جگر

کسی دانشور کاقول ہے کہ انسان جس فعل کی بھی سزا پاتا ہے اگر ایمانداری سے اس کا تجزیہ کرے تو اس میں اس کی اپنی ہی خطا ہوتی ہے خواہ رائی بربر ہی کیوں نہ ہو۔

طاقت کا نشہ بھی بہت برا ہوتا ہے، ہیروئین، بھنگ اور کوکین سے بھی برا۔ جب بھی اللہ کسی بندے کو اختیار و قدرت سے نوازتا ہے تو ایسا سب اس کی آزمائش ہوتی ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ جس کو میں نے حکومت و اختیار سے بہرور کیا ہے وہ اس پر شکر گزاری اور عاجزی کا مظاہرہ کرکے بندگان خدا کیلئے نرمی و شفقت کا رویہ اختیار کرتا ہے یا تکبر اور بڑائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

نواز شریف کو پہلی بار بھاری مینڈیٹ نہیں ملاتھا ایسا دوسری بار ہوا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے انھیں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی اور دو صوبوں میں حکومت بنانے کا موقعہ ملا تھا۔ پاکستان میں کسی حکمران کو اتنی بھاری اکثریت کا حاصل ہوجانا صرف نواز شریف کا ہی نصیب رہا۔ ممکن ہے کہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو کا بھی حوالہ دے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ 70 کے الیکشن میں دوتہائی سیٹیں عوامی لیگ کے مجیب الرحمن کی تھیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے بھٹو کو اس بات کا موقعہ ملاتھا کہ وہ اس موجودہ پاکستان کا حکمران بن سکے اور اس مغربی پٹی کی اکثریتی پارٹی ہونے کا فائدہ اٹھائے۔ جہاں تک اقتدار حاصل ہونے کی بات ہے تو نواز شریف کے نصیب میں اقتدار تیسری بار آیا تھا لیکن بدنصیبی سے تیسری بار بھی وہ اس کو سنبھال کر نہ رکھ سکے۔

تیسری مرتبہ اللہ نے ان کی جھولی میں اقتدار اس شان سے ڈالا کہ وہ ایک طرح ہر سیاہ و سفید کے مالک بنادیئے گئے۔ ان کے پاس قانون ساز اسمبلی میں اتنی واضح اکثریت تھی کہ وہ راستے کی ہر رکاوٹ کو ہٹا سکتے تھے لیکن وہ اتنی بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود بھی دنیا کے بے بس ترین انسان بنے رہے۔ اسٹبلشمنٹ سے انھیں بیشمار شکایات ہیں لیکن اگر ان کے پورے دور کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہرہر معاملے میں اسٹبلشمنٹ کی ہر بات ماننے چلے گئے۔ کوئی ایک عمل یا ردعمل ایسا سامنے نہیں آیا جہاں یہ محسوس ہوا ہو کہ وہ ایک مضبوط، بہادر اور جری حکمران ہیں اور ملک اگر چلے گا تو صرف اور صرف اس بنیاد پرکہ یہاں ان کی یا آئین و قانون کی مرضی چلے گی اور کسی کی مرضی نہیں چلے گی۔ اگر ان کے دور کے سارے رویوں اور فیصلوں کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کا سمجھنا ذرہ برابر بھی مشکل نہیں ہوگا کا ان کا انداز ہمیشہ محض اپنے اقتدار کو بچانے تک ہی محدود رہا۔ دھرنوں کے زمانے میں روزکی بنیاد پر اسمبلی میں آنا، طعنے برداست کرنا اور سر جھکائے بیٹھے رہنا جیسا رویہ گدھے کو باپ بنانے کے مترادف نہیں تو اور کیا تھا؟۔ ملک میں ایمرجنسی کی سی کیفیت رہی، اسٹبلشمنٹ کا دباؤ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا، صاحب مانتے گئے، نئے نئے قوانین وضع ہوتے رہے اور نواز شریف ان پر دستخط کرتے گئے اور اپنے تئیں یہی سمجھا کئے کہ ان پر یا ان کی پارٹی پرکوئی آنچ نہیں آئے گی۔ دودھ کے جلے تھے اسی لئے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے رہے اور یہی سمجھتے رہے کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کر جائیں گے۔

حکمران وہ ہوتا ہے جس کے پاس قوت نافذہ ہو جو کہ عوامی تائید کی صورت میں ان کے پاس بہت بھاری تعداد میں موجود تھی لیکن وہ اسٹبلشمنٹ کی ہربات تھوڑی ردوکد کے بعد مانتے چلے گئے اور پھرآج وہ دن بھی آگیا کہ ان کو بیٹی اور داماد کے ساتھ قیدوبند اور بھاری جرمانوں کی سزا سنادی گئی۔

انتخاب سے قبل جہادی تنظیموں سے متعلق ان کا مؤقف تھا کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی سخت رویہ نہیں اپنایا جائے گا۔ ان کے اس “لولی پاپ” کو جہادی تنظیموں نے سچ مانتے ہوئے ان کا بہت ساتھ دیا اور اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے نواز شریف کی بھاری کامیابی میں جہادیوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ پاکستان کی دیگر مذہبی پارٹیاں بھی جہادیوں کیلئے نرم رویہ رکھتی تھیں۔ اسٹبلشمنٹ ایسی ساری تنظیموں سے نہایت سختی کے ساتھ نمٹنا چاہتی تھی۔ اسٹبلشمنٹ کی بات نہ ماننے میں بہت زیادہ کیا ہوتا؟، یہی کہ مارشل لا کا خطرہ تھا۔ اگر ملک کا حاکم سمجھتا ہو کہ مذاکرات طاقت کے استعمال سے بہتر حل تھے تو پھر یہی بہتر حل تھا لیکن دباؤ قبول کیا گیا۔ البتہ اگر وزیر اعظم ہاؤس میں جاکر صلاح و مشوری کے بعد کابینا کی منظوری سے ایسا ہوتا تو بات کچھ اور ہوتی۔ شہروں میں شرپسندوں کے خلاف ایکشن لینے والی بات پر بھی دباؤ قبول کیا گیا، کراچی میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف بھی دباؤ کو قبول کیا گیا، بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں یا نہیں وہاں بھی جی ایچ کیو کی جانب دیکھا گیا۔ سی پیک میں بھی شراکت داری اختیار کی گئی۔ اسی طرح کے بیشمار معاملات تھے جن پر ایک بھاری مینڈیٹ والی جماعت کا سربراہ دباؤ قبول کرتا گیا اور اس فریب میں مبتلا رہا کہ اس کی اپنی کرسی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

ان ساری باتوں کو سامنے رکھا جائے تو کیا ایسے حکمران کا جو خود پورے چارسال سے بھی زائد اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر چلتا رہا ہو وہ یہ کہے کہ اسٹبلشمنٹ اسے کام نہیں کرنے دے رہی تھی اور اب جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، کتنی مناسب بات لگتی ہے؟۔

پاکستان میں جس جس نام سے، جو جو اور جس جس کے خلاف بھی آپریشنز ہوئے بظاہر ان سب میں تمام سیاسی پارٹیوں کے دستخط ہیں لیکن کیا وہ دستخظ برضا و رغبت ہوئے؟، ان کو پارلیمنٹ سے پارلیمانی انداز میں منظور کرایا گیا یا محض ان کو دستخطوں کیلئے ہی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا؟۔ کیا سارے اہم فیصلے پالیمنٹ سے باہر نہیں کئے گئے؟۔ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جس کا جواب اگر نواز شریف صاحب سے پوچھا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ ان سوالات کے جوابات تسلی بخش دے سکیں۔

دم پر پاؤں آجائے تو سبھی “شریف” بن جاتے ہیں لیکن یہی سارے رویے اور سلوک کسی اور کے ساتھ یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو رہا ہو تو خاموشی اختیار کر لینا “ن” کا وطیرہ رہا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ “سانپ کے منھ میں چھپکلئ” والی بات ہو گئی ہے اگر اگلے تو اندھا کرجائیگی اور نگل لے تو چھپکلی کا زہر سانپ کو کوڑھی کردیگا۔ سزا ہو چکی ہے اور ایسے وقت میں ہوئی ہے جب انتخاب میں چند دن ہی باقی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نواز شریف (ن لیگ) کی مقبولیت میں ابھی بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے لیکن اب انکی کامیابی مشروط ہو گئی ہے ان کے ملک میں آنے اور گرفتاری دینے سے۔ اگر وہ ملک میں آگئے، اپنے آپ کو یا تو گرفتاری کے لئے پیش کردیا یا کوئی قانونی راستہ اپنا لیا تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہے۔ اب دیکھیں کہ وہ میدان کے شہسوار ہیں یا بھگوڑے۔ بڑا امتحان آن پڑا ہے۔

بی بی سی کے جاوید سومرو کی رپورٹ کے مطابق کچھ یوں ہے کہ “پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لگی لپٹی اب بلکل ترک کردی ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، انھوں نے احتساب عدالت سے اپنے خلاف ایون فیلڈ ہاؤس اپارٹمنٹس کا فیصلہ آتے ہی چند ججوں اور چند جرنیلوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے”۔ نواز شریف کا فرمانا ہے “مجھے جو سزا دی جا رہی ہے وہ کرپشن کی وجہ سے نہیں دی جارہی بلکہ میں نے 70 برس سے جاری ملک کی تاریخ کا جو رخ موڑنے کی جد و جہد شروع کی ہے یہ اس کی سزا ہے”۔ جمہ کو احتساب عدالت میں مجرم قرار دیئے جانے اور قید کی سزا پانے کے بعد نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے باقائدہ رد عمل کا اظہار کیا۔

جاوید سومرو کہتے ہیں “میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ 70 برس سے چند جج اور چند جرنیل ملک کو جب چاہے یرغمال بنا لیتے ہیں تو اس مرتبہ ان کے خلاف کون سازش کر رہا ہے؟

جواب میں میاں صاحب نے الٹا سوال پوچھ لیا کہ آپ بتائیں کہ وہ کون ہیں جو ہمارے لوگوں کی وفاداریاں بدل رہے ہیں، ہماری حکومت گرانے کی سازشیں کر رہے ہیں، ہمارے خلاف ججوں کو استعمال کر رہے ہیں، ہمارے حق میں بولنے والوں کو اغوا کر رہے ہیں، میڈیا کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں”۔

بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نواز شریف نے پاکستان کی آئی ایس آئی کو بھی ان ساری کارروائیوں میں شریک کرتے ہوئے صاف اور واشگاف الفاظ میں کہا “کہ ہمارے ایک امیدوار کو مارا پیٹا اس نے کہا آئی ایس آئی کے لوگ تھے، دوسرے روز اس کا بیان تبدیل کروایا اور اس نے کہا محکمہ زراعت کے لوگ تھے، اب آپ بتایے، کیا یہ سب محکمۂ زراعت کے لوگ کر سکتے ہیں؟”۔

نواز شریف جو کچھ فرمارہے ہیں معلوم نہیں ان کی اس رائے سے ان کی پارٹی کے موجودہ ذمہ داران اور دیگر عہدیداران کتنا اتفاق کرتے ہیں لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ نواز شریف کی قیادت میں پنجاب میں فوج اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سوچ میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستانی کالم نویس اور ایکٹویسٹ گل بخاری کا کہنا ہے کہ پنجاب میں آج جتنا فوج مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، اتنا تو شاید جنرل ضیا کے زمانے میں بھی نہیں تھے۔ گل بخاری کا کہنا ہے کہ نواز شریف اب ایک حقیقی عوامی رہنما بن کرابھرے ہیں اور یہی بات اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں آرہی۔

نواز شریف کی باتیں یا ان کے جذبات ایک جانب لیکن ان کا یہ کہنا بہت بجا ہے کہ “کاش جتنی جلدی ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اتنی ہی جلد مقدمہ ملک اور آئین توڑنے والوں، دہشت گردوں اور ان کے حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی چلایا جاتا”۔ ان کا یہ اشارہ کس فرد یا ادارے کی جانب ہے اس کا علم خود ان کو ہی ہوگا۔

نواز شریف کی اس بات چیت سے کم ازکم ایک بات تو بلکل واضع ہو گئی ہے کہ جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ فوج اور نواز شریف کے درمیان کوئی مصالحت ہو جائے گی، ان کو شدید دھچکا لگے گا۔ نواز شریف کو دیکھ کر اور انھیں سن کر اس بات کا کہیں سے عندیہ نہیں ملا کہ اب کوئی مصالحت ممکن ہے۔ شاید کسی وقت اور کسی سطح پر اس کی کوششیں ہوئی ہوں لیکن اب یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

میرے نزدیک دو باتیں بہر حال اہم ترین ہیں۔ اول یہ کہ نواز شریف وطن آکر اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کرتے ہیں یا نہیں اور ثانیاً یہ کہ کیا ن لیگ کے موجودہ صدر، عہدیداران اور سارے ذمہ داران ایک پیج پر ہیں۔ اگر نواز شریف حسب دعویٰ ملک میں آگئے اور ن لیگ ساری کی ساری ایک ہی پیج پر کھڑی رہی تو ان کا اور ان کی پارٹی کا مستقبل نہایت روشن اور تابناک ہے بصورت دیگر وہ اپنے مستقبل کے سورج کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب کر بیٹھیں گے کیونکہ اس وقت عوام شہسوار کو میدان میں ڈٹا ہوا دیکھنے کے منتظر ہیں اور کسی بھی قیمت پر لیل و لعت سے کام لینے والوں کی جانب نظر بھر کر بھی دیکھنے کیلئے تیار و آمادہ نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں