اسلام اور صحت 

اللہ نے انسان کو بنیادی طور پر اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اس کا صحتمند ہونا ضروری ہے۔ بسا اوقات انسان کی صحت کو کچھ ایسے عوارض لاحق ہوجاتے ہیں جس سے اس کی صحت متاثر ہوجاتی ہے۔ بیماری کسی بھی قسم کی ہو اس کا علاج کروانا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے علاج معالجے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اللہ کے بندو تم علاج کرواؤ۔ بلاشبہ اللہ نے سوائے بڑھاپے کے کوئی ایسا مرض نہیں پیدا کیا جس کا علاج نا ہو‘‘۔
بہت سے امراض ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ لا علاج ہے مگر اس حدیث کے مطابق کوئی مرض لا علاج نہیں۔ ہم جن امراض کو لا علاج قرار دیتے ہیں دراصل وہ ہمارے محدود علم کے مطابق لا علاج ہوتے ہیں اس کا علاج اس کی دوا موجود ہے مگر ہماری دریافت ابھی اس تک نہیں پہنچی ہوتی۔ آج جن امراض کا علاج تشخیص ہوچکا گزشتہ دور میں انہیں بھی لا علاج سمجھا جاتا تھا تو جن امراض کو ہم لا علاج قرار دیتے ہیں آنے والے دور میں ان کا علاج ہونا کوئی بعید نہیں۔
فرمان باری ہے ’’تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے‘‘۔ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ نے کوئی مرض بنا علاج نہیں پیدا کیا‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ضرورت اپنا بھی علاج کروایا صحابہ کرام رضوان اللہ کا بھی کروایا۔ سینگی بھی لگوائی یہ بھی دیگر طریق علاج میں ایک ہے۔
کچھ لوگ بوجہ توکل علاج سے گریز کرتے ہیں کہ اگر مقدر میں شفا ہے تو علاج کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر شفا نہیں تب بھی علاج کا کیا فائدہ۔ توکل کا معنی یہ نہیں کہ اسباب ترک کردیے جائیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسباب ہی کو موثر حقیقی نا سمجھ لیا جائے بلکہ نظر فاعل حقیقی ہی پر رہنی چاہیے کہ اگر اللہ چاہے تو اس دوا سے شفا ہوجائے گی ورنہ نہیں۔ جب انسان یہ عقیدہ رکھ لے گا اسباب محض اسباب ہیں اللہ کی منشا کے بغیر ان میں تاثیر نہیں آسکتی تو یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔
جس طرح ہم سردی گرمی بھوک پیاس مٹانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں۔ یہ توکل کے منافی نہیں اسی طرح علاج بھی توکل کے منافی نہیں ہے۔ ورنہ سید المتوکلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے یہ فعل سر انجام دیتے اور امت کو بھی تلقین کرتے۔علاج معالجہ کے اسباب مختلف ہیں جن کے مطابق علاج کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔
ؐؐ*۔۔۔ اگر مرض ایسا ہے کہ علاج کروانے سے جان یقینی طور پر بچ جائے گی اور نا کروانے سے موت واقع ہوجائے گی یا کسی عضو کی خرابی یا مفلوج ہونے کا خدشہ ہو یا وہ مرض متعدی ہو کہ دوسرے لوگوں کو لگ جائے گا تو اس صورت میں علاج کروانا واجب ہے نا کروایا اور جان چلی گئی تو گناہگار ہوگا۔
ؐؐ*۔۔۔اگر مرض ایسا ہو کہ علاج سے مرض ختم ہونے کے بھی امکانات ہوں اور ایسا بھی ہوسکتا ہو کہ نا ٹھیک ہو۔ یعنی ظن غالب ہو فائدہ ہوگا۔تو اس صورت میں علاج کروانا بہتر ہے تاکہ لاشعوری طور پر کچھ بڑا نقصان نہ ہو۔
ؐؐ*۔۔۔علاج صرف مباح چیزوں سے کرنا واجب ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے حرام چیزوں میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی‘‘۔ یعنی جب شفا نہیں رکھی تو یقیناًان سے علاج کرانا بھی بیکار ہے، البتہ لاعلمی کے طور پر کسی بھی دو ا سے علاج کیا جارہا تو ایسے میں صحت سب سے پہلے ہے۔
یاد رکھیں اپنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے نہ صرف طب نبویﷺ سے رہنمائی لی جاسکتی ہے بلکہ قرآن پاک میں بھی بے شمار مقامات پر ایسی چیزوں کا زکر ہے جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے صحت اور تندرستی پر بہت زور دیا ہے۔ کھانے کے جتنے بھی طریقے ہیں ان کو اگر من عن اسلامی احکامات کے مطابق اپنایا جائے تو شاید ہی کبھی کوئی بیماری ہوجائے۔ پھر جن چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیاان کو استعمال کیا جائے تو بھی کافی حدتک ہمارے صحت ٹھیک رہ سکتی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں