’’انتہائی تکلیف دہ فیصلہ ‘‘

عافیہ صدیقی کیلئے کچھ نہیں کرسکتے، ہم کسی خود مختار ملک کو حکم جاری نہیں کرسکتے، ہمارا حکم امریکی عدالت نے اٹھا کر پھینک دیا تو ہماری عدلیہ کی کیا عزت بچے گی۔ یہ تھے وہ ریمارکس جو25جون کو ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کو خارج کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے دیئے تھے ۔ جو اسی روز الیکٹرونک میڈیا میں اور اگلے روزتمام قومی اخبارات میں نمایاں طور پر رپورٹ ہوئے اور جس کو سن اور پڑھ کر ہر شخص کچھ دیر کیلئے گم صم ، حیران و پریشان ہوگیا تھا کہ اس پر کیا کہے اور کیا رائے دے؟ ڈاکٹر عافیہ نے ٹیکساس میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل عائشہ فاروقی کو اپنے ساتھ ہونے والے غیرانسانی سلوک کی تفصیلات بتا کر اپنے ملک ، حکومت اور اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
موجودہ عدلیہ کے شاندار کردار کی وجہ سے ہر پاکستانی خوش تھا کہ جو کام دراصل حکمرانوں اور سرکاری حکام کو کرنا چاہئے تھا وہ دیر آید درست آید کی مصداق اعلیٰ عدلیہ سرانجام دے رہی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار، دودھ کے نام پر وائٹنر کی فروخت، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ٹیکس وصولی، موبائل فون ایزی لوڈ پر 40% تک کا بھاری بھرکم ٹیکس ، لوڈ شیڈنگ، قلت آب، ملک میں مزید ڈیم بنانے جیسے اہم ترین مسائل پرنوٹس لینا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرنا عدلیہ کا نہیں بلکہ حکومت اور سرکاری حکام (افسران و ملازمین) کا کام ہے جو کہ عدلیہ کو کرنا پڑرہا ہے۔پوری قوم کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری حکام کی کرپشن پر احتساب کے عمل سے انتہائی خوش ہے جس کا تمام تر کریڈٹ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کو ہی جاتا ہے۔
جب ایسے حالات میں جب قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن کی وطن واپسی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو ملک بھر کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ازخود نوٹسز عوام کی امیدوں کیلئے آخری کرن بن چکے تھے۔قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے ملک بھر سے لوگ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کامشوررہ دے رہے تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے کروڑوں لوگوں نے اعلیٰ عدلیہ سے امیدیں باندھ لی کہ اب معزز جج صاحبان حکومت پاکستان، وزارت خارجہ و دیگر متعلقہ حکام سے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے اب تک کئے گئے اقدامات کی تفصیلات طلب کریں گے او رڈاکٹر عافیہ کی جلد وطن واپسی کیلئے موثراقدامات کرنے کے احکامات جاری کریں گے۔ مگر عوام کی امیدوں پر پانی پھر گیاکیونکہ اتنی سادہ سی بات تو میرے جیسے عام آدمی کی سمجھ میں بھی آرہی تھی کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ نے پٹیشن اس لئے تو دائر نہیں کی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ امریکی حکومت کو عافیہ کی رہائی کے لئے احکامات صادر فرمائے بلکہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ سمیت ہزاروں پاکستانیوں کی دنیا کے مختلف ممالک کی جیلوں میں غیرانسانی صورتحال میں قید سے متعلق پٹیشن دائر کی تھی کہ پاکستانی حکومت اور سفارتخانوں سے ان پاکستانی شہریوں کی زندگی کی سلامتی اور منصفانہ ٹرائل کے حق کے حصول سے متعلق جواب طلب کیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ دنیا بھر کی غیر ملکی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، خاص طور پر مشرق وسطی اور دیگر ریاستوں میں پاکستانی سفارتخانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ قیدی غیر معمولی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ان قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ معاملہ عوامی اہمیت کا حامل ہے۔درخواست میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان سمیت دیگر 180 ریاستوں نے ویانا کنونشن پر دستخط اور قیدیوں تک قونصلر کی رسائی کی منظوری دی ہوئی ہے۔ آرٹیکل 36 ریاست کو اپنے شہریوں سے کمیونیکیشن اور رابطہ کی حاصل سہولت کوبیان کرتا ہے۔یہ غیر ممالک میں پاکستانی قونصلیٹ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ اور مددفراہم کرے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرے اور قومی اور بین الاقوامی قانون کے تحت کسی بھی غیر ملکی اور دیگر حکام کے سامنے اپنے شہریوں کی مناسب نمائندگی کرے یا اس کا انتظام کرے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جنہیں “قوم کی بیٹی” بھی کہا جاتا ہے کا کیس ان کی امریکی جیل میں غیر قانونی حراست کی ایک مثال ہے۔ جہاں جن کے نہ صرف بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے بلکہ پاکستانی شہری کی حیثیت سے بھی اندرون و بیرون ملک ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔درخواست میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت باوقار زندگی، یہ ہر پاکستانی کا حق ہے۔ ہمارے لئے یہ چیز ایک مسلمان ،پاکستانی اور ایک اسلامی جمہوریہ ریاست کے طور پر گزشتہ 15 سالوں سے مسلسل تکلیف دہ ہے،جب قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ روزانہ کی بنیاد پر اس کے ساتھ جیل کے محافظوں کی طرف سے زبردستی عصمت دری کی پورٹنگ کرتے ہیں۔ میں اس عدالت سے اس کی سزا یا سزا کی طویل مدت پر غور کرنے کی درخواست نہیں کررہی ہوں بلکہ درخواست کرتی ہوں کہ یہ دیکھنا چاہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے عوام کی حاکمیت اور وقار کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔جب ان کی بیٹی کے ساتھ غیرقانونی حراست میں عصمت دری اور تشدد کیا جاتا ہے۔ اسے رہائی کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ وہ اب بھی اس سے نفرت کرتے ہیں جبکہ وہ اس طرح کے تمام ظلم و ستم کے باوجوداس طرح مذہب چھوڑنے پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ ہمارے آئین نے ہمیں آرٹیکل 20 کے تحت اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی فراہم کی ہے۔ہم مسلم قوم کے طور پر دوسرے قوموں کے سامنے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، جب وہ اس پر ہونے والے غیرانسانی تشدد اور ظلم کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔جب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی ان کی غیر قانونی حراست میں ہیں امریکی حکام نے ویانا کنونشنز اور بہت سے دوسرے بین الاقوامی قوانین اور پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے ۔
الحمدللہ ہم ایک ایٹمی قوت کی حامل قوم ہیں۔ الیکشن کا موسم اپنی پوری جوبن پر ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں بڑھ چڑھ کر قوم کی تقدیربدلنے کے دعوے کررہی ہیں جبکہ قوم نے دس سال مسلسل انتہائی خراب طرز حکمرانی اور فرینڈلی اپوزیشن کا عذاب سہہ کر پھر اگلے الیکشن کی جانب گامزن ہے۔ عافیہ کو وطن واپس لانے کا دعویٰ سب سے پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں ’’جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے کیا ۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ میں جناب سراج الحق صاحب واضح انداز میں برسراقتدار آنے کی صورت میں ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کا وعدہ کیا مگر ایم ایم اے کے سربراہ کی موالانا فضل الرحمان کی جانب سے عافیہ پر خاموشی نے متحدہ مجلس عمل کے دعوے کو مشکوک یعنی محض ایک انتخابی نعرہ بنا دیا ہے۔ حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں برسراقتدار آکر عافیہ کی ذمہ داری لینے کا اعلان کر کے قوم کے دلوں کو خوشی بخشی ہے۔خدا کرے کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو پانچ پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹ کر پھر قوم کی مسیحائی کا دعویٰ کررہی ہیں۔ قوم ان کو عافیہ کی کسوٹی پر پرکھ چکی ہے اب ایک مرتبہ پھر ان کے وعدوں پر کیسے اعتبار کرے؟ گذشتہ 15 سالوں میں قوم کا سیاستدانوں اور پارلیمنٹ پر اعتماد مجروح ہوچکا ہے۔ ایسے حالات میں قوم کیلئے یہ ایک انتہائی تکلیف دہ فیصلہ تھا، جس پر نظرثانی ملک میں انصاف کے پرچم کو بلند کرنے اور اقوام عالم میں پاکستانی شہریوں کے وقار کو قائم کرنے کا سبب بنے گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں