کراچی کے مسائل ۔ منشور کا حصہ بن گئے

کراچی میں انتحابات کی گہما گہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نظریں اس وقت کراچی پر مرکوز ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ایم کیو ایم کی تقسیم اور کراچی کے ان گنت مسائل ہیں ۔ ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کے بعد اب ہر سیاسی جماعت کے قائد کو کراچی میں مسائل ہی مسائل نظرآنے لگ گئے ہیں اور وہ بھی انہی کو اپنے منشور میں شامل کرکے کراچی کے باسیوں کو ایک مرتبہ پھر بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
کراچی دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو بے شمار مسائل اپنی گود میں لیے دنیا کا ساتواں بڑا میگا سٹی بن گیا ہے۔ شہر قائد کے ہر مسئلے کے پیچھے انتظامی بدعنوانی ‘کرپشن اور سیاسی مفاہمت پوشیدہ ہے جو ان مسائل کو حل نہیں ہونے دیتی۔ دنیا کے ساتویں بڑے شہر کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں پبلک ٹرانسپورٹ‘ گندگی کے ڈھیر‘ لینڈ مافیا‘ پانی کی عدم فراہمی اور بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی شامل ہے جو کئی عرصے سے توجہ کے متقاضی اورفوری حل طلب ہیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ جنہوں نے شہر قائد پر 30‘30سال اور 10‘10سال حکومتیں کی وہ آج انہی مسائل کو دوسروں کے سر تھوپ کر ایک مرتبہ پھر سے اسی پرانے مسائل کو جنہیں وہ آج تک حل نہیں کرسکے ‘ بنیاد بناکر عوام سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بیانات سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے ان مسائل کی وجہ وہ نہیں بلکہ عوام خود ہیں اور عوام نے ہی یہ مسائل اپنے لیے خود پیدا کیے ہیں‘جن میں ان پارٹی اور ان کے رہنماؤں کا کوئی قصور نہیں۔
چند روز قبل مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کراچی آئے اور اپنے حلقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلدیہ ٹاؤن میں پانی کا مسئلہ تین سال میں حل کردیں گے اور ساتھ ہی انفرااسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کی بھی یقین دہانیاں کرائیں۔ لیکن شاید میاں شہبازشریف بھول رہے ہیں کہ یہ کراچی ہے۔ یہاں کے لو گ پان ضرور کھاتے ہیں مگر دھوکا نہیں۔بلدیہ ٹاؤن کے علاقہ معززین سے جب شہبازشریف کے دورے اور ان کے وعدوں سے متعلق بات چیت کی گئی تو علاقہ معززین نے کئی سوالات اٹھائے‘ جس میں پہلا سوال یہ تھا کہ بلدیہ ٹاؤن میں پانی گزشتہ 5سال سے نایاب ہے‘بلدیہ ٹاؤن کی 6یوسی چیئرمین ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں جب پانی کا مسئلے کے لیے ان سے بات کی جاتی تھی وہاں سے ایک ہی جواب ملتا تھا کہ اول تو ہمارے پاس فنڈز نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اختیارات ہیں ‘ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ دعا کریں بارشیں ہوں تاکہ حب ڈیم میں پانی آئے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شہبازشریف کس طرح ایک سیٹ لے کر اس علاقے کا مسئلہ حل کریں گے۔ کیا وہ بھی الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے یہ ہی کہیں گے کہ دعا کریں بارش ہو‘ تاکہ حب ڈیم میں پانی آئے۔
میاں برادران جب حکومت میں تھے تب انہیں کراچی کا خیال نہیںآیا۔ تب انہوں نے پانی کے لیے کوئی حکمت عملی پیش نہیں کی۔ عوام کا احتجاج تو پانچ سال سے جاری ہے تو اب کس طرح انہیں عوام کے پیاسے ہونے کا خیال آگیا۔ اس وقت کیوں کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی اس وقت ان کے یوسی چیئرمینوں کو کوئی لاج آئی جس طرح وہ آج کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ مسئلہ حل کریں گے۔اس وقت عوام سے دعاؤں کے لیے کہاجاتا تھا تو کیا اب آسمان سے پانی برسائیں گے یا پھر وہی جملہ دہرایاجائے گا کہ دعائیں کریں بارش ہو۔ عوام کے احتجاج میں کبھی ان کی پارٹی عہدیداران نے شرکت نہیں کی۔ کیا اس وقت ان کا مقصد صرف اور صرف پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو گندہ کرکے اپنی سیاست چمکانا تھا؟
پانی کا مسئلہ اب چونکہ صرف بلدیہ ٹاؤن یا اورنگی تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کو پانی کی فراہمی کے دو ہی ذرائع ہیں جن میں سے ایک حب ڈیم اور دوسرا کے تھری پروجیکٹ ہے۔ حب ڈیم کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں پانی کی سطح انتہائی کم ہوکر محض دو فٹ رہ گئی ہے۔ جب کہ کے تھری کو منچھرجھیل سے پانی کی فراہمی ہوتی ہے اب دونوں جگہ پانی دستیاب نہیں ایسے میں کس طرح شہبازشریف بلدیہ ٹاؤن کو پانی فراہم کریں گے۔ کیا پنجاب کی طرح یہاں بھی 56صاف پانی کی کمپنیاں بنائیں جائیں گی؟ یا پھر لاہور سے پانی کی کوئی لائن بلدیہ ٹاؤن تک بچھائی جائے گی؟ یہ سب عوام کو بے وقوف بنانے کے دعوے اور وعدے ہیں جو ہرالیکشن میں کیے جاتے ہیں اور الیکشن ہونے کے بعد ان وعدوں او ر دعوؤں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر ہی پھوٹتی ہے۔
پانی کے مسئلے کا واحد حل ڈیمز بنانے میں ہے‘مگر کوئی بھی سیاسی پارٹی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں‘وہ اس لیے کہ اگر مسائل حل ہونا شروع ہوگئے تو عوام کو اپنے ووٹ کی اہمیت معلوم ہوجائے گی اور اس کے بعد کوئی بھی ان کے بہکاوئے میں نہیں آئیگا۔ لہٰذا جس طرح چل رہا ہے چلنے دووالی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ ملک کو اس وقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس پر کسی سیاسی پارٹی نے کبھی بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ایکشن لیا ہوا ہے تو اس پر بھی ان سیاسی قائدین کو اپنی سیاست کی فکر پڑ گئی ہے‘ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔ اگر ان سیاسی جماعتوں کو کالا باغ ڈیم سے الرجی ہے تو اس کا نام بدل کر پاکستان ڈیم رکھ لیں کیوں کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔ ورنہ چند سالوں بعد پاکستان صرف ایک بنجر زمین ہوگا اور یہاں ایک ایک بوندکے لیے لوگ ایک دوسرے کو ذبح کررہے ہوں گے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں