امت مسلمہ کا کرب اور ہماری ذمہ داریاں

امت مسلمہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے اور اس کے شب و روز دانائے دشمنوں کی پیہم سازشوں کا شکار ہیں جبکہ ہمارے ارباب اختیار ہیں کہ وقت کی نزاکتوں سے قطعا بے خبر آئے روز نئی سے نئی حماقتوں کا ارتکاب کئے جا رہے ہیں۔ قبائے امت مسلمہ لہو لہو ہے۔ جس طرف کان لگائیں مسلمانوں کی چیخیں اور سسکیاں، جس سمت نظر اٹھائیں مسلمانوں کے خون کی ندیاں، بے گور و کفن لاشے، اجڑی ہوئی بستیاں اور جلتے ہوئے گھر ہماری غیرت پر نوحہ کناں ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں اور ان میں صوبائی، لسانی، علاقائی تعصب کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم یہ سب جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی ہر بار دشمن کی گود میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر بار وہ ایک ہاتھ سے ہماری پشت میں خنجر گھونپتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے منہ میں خیرات ڈالتا ہے۔ گویا اب ہم عقل و شعورسے بھی عاری ہو چکے ہيں۔

آج ہم دنیا کے جس کونے میں بھی نظر دوڑائیں، ادھر ہی ہمیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور مدد کے لیے چیخ و پکار سنائی دیتی ہے مگر ہم تو گویا بہرے ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو دشمنوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور خود بدلے میں ملنے والی امداد پر عیش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف امن ہی امن ہے۔

کشمیر، عراق، افغانستان، بیت المقدس، شام اور برما کے مظلوم مسلمان آج بھی اس مجاہدانہ کردار کے حامل نوجوانوں کا رستہ دیکھ رہے ہیں کہ جن کی للکار ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردے۔ جو یقین محکم عمل پیہم پر عمل پیرا ہوں اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کے فاتح بن جائيں۔ جو دنیا میں ابو بکر و عمر کی ایسی مثال تازہ کر دیں کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی ترقی یافتہ اقوام بھی ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہو جائيں اور جو خاک و خون کے جہاں سے محبت کرتے ہوں اور اس طرح ان کے قدم بڑھیں کہ موت ڈرنے لگے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ جن نوجوانوں کو آج امت کا مستقبل سنوارنے کی فکر کرنی تھی، وہ شیلا کی جوانی اور اس جیسے بے ہودہ مناظر اور موسیقی سے اپنے اندر دن رات غلاظت جمع کر رہے ہیں۔ جنہیں امت کی ماؤں بہنوں کی پکار موسیقی کے شور میں سنائی نہیں دیتی اور اگر اتفاق سے سن بھی جائےتو یہ قصدا بہرے ہو جاتے ہیں۔ انہیں اگر سب سے زيادہ فکر ہے تو اپنی عیش پرست زندگی کو مزید سہولیات سے مزین کرنے کی۔

جو اقبال کے شاہیں تھے، جنہیں دنیا زير کرنی تھی، جنہیں ستاروں پر کمندیں ڈالنی تھیں، وہ آج ستاروں پر کمندیں تو دور کی بات، سوئی میں دھاگہ تک نہیں ڈال سکتے۔

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی یہ تن آسانی

ہمارے نوجوان جن کے لیے آئیڈيل زندگیاں آج شاہ رخ خان، سلمان خان اور پرنس ہیری سے بڑھ کر کوئی نہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو بھول گئے ہیں اور جو اقوام اپنے ماضی کو فراموش کردیتی ہیں، انہیں صفحۂ ہستی سے مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اس لیے ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے پیٹ پتھر باندھ کر جنگیں جیتیں، چیتھڑوں میں ملبوس ہو کر بادشاہوں کی قبائیں نوچیں اور شہنشاہوں کے تاج اتارے۔ جن کے گھوڑوں کے سموں نے قیصر و کسری کے درباروں میں بچھے قالینوں کی دھجیاں اڑا دیں اور فقط دس سال کے قلیل عرصے میں بائیس  لاکھ مربع میل علاقے کو فتح کرتے ہوئے مشرق ومغرب میں اسلام کی عظمت کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔

میرے ساتھیو! اس وقت ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنے دین و ایمان کو بچانے کی ضرورت ہے۔ امام حسن البنا اور قائد اعظم جیسی صالح قیادت کی ضرورت ہے اور یہ قیادتیں ہم میں سے ہی اٹھیں گی، اس لیے ہم سب کو رب کریم کے نام پر متحد ہونا ہوگا۔ اس دنیا کو ہم بدل سکتے ہیں، اسے ہم ہی امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں کیونکہ اقبال فرماتے ہیں

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

ہاں ہم دنیا بدل سکتے ہیں، بدل سکتے ہیں، بدل سکتے ہیں اگر ہم خالد بن ولید کی للکار بن کر نکلیں، اگر ہم حیدر کرار کی تلوار بن کرنکلیں، اگر ہم اپنے اندر تین سو تیرہ والا جذبہ پیدا کر لیں تو ہم دنیا بدل سکتے ہیں۔ اور تمام عالمی قوتوں کو بتا سکتے ہیں کہ

لو تم بھی سنو حق ہے اس میں، اک بات سنانے آیا ہوں

میں پھر سے ممولے کو لے کر شاہیں سے لڑانے آیا ہوں

جمہور کے خون کے ناحق سے رنگین ہیں جن کی دیواریں

میں اس شاہی ایوان کی دیواریں ہلانے آیا ہوں

اس دار رسن کی محفل میں حق کہنے کا دستور نہیں

میں اس دستور کو بدلوں گا، یہ بات بتانے آیا ہوں

اگر آپ اجالے چاہتے ہیں، دین و دنیا کی سرفرازی چاہتے ہیں اور پاکستان کو عظیم سے عظیم تر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بس ایک ہی رستہ ہے

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں