شکرگذاری

حضرت موسیؑ کوہ طور پر اللہ تعالی سے ہمکلام ہونے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ۔اللہ نے اس کو رزق کی خاصی فراوانی عطا کر رکھی تھی ۔ اس نے حضرت موسیؑ سے عرض کی ” اے رسول خدا ! میرے رب سے ذرا میرے متعلق دریافت کیجئیے گا  کہ میرے لئیے کیا حکم ہے ؟ میرے پاس اتنا رزق ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے “۔ موسیؑ ذرا آگے روانہ ہوئے تو ایک اور شخص کو دیکھا جس نے ریت سے اپنے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا ۔اس نے حضرت موسیؑ سے فرمایا ” اے کلیم اللہ ! میرے رب سے میری کیفیت بھی عرض کیجیئے گا “۔

حضرت موسیؑ کوہ طور پر پہنچے اور پہلے والے آدمی کے متعلق دریافت کیا  ۔ اللہ تعالی نے جواب دیا کہ ” اس سے کہو ہماری ناشکری کرے “۔ جب دوسرے کے متعلق پوچھا تو  فرمایا کہ ” اس سے کہو ہمارا شکر گذار بن جائے “۔موسیؑ نے واپس ہوتے ہوئے پہلے والے آدمی سے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میری ناشکری کرو رزق میں کمی واقع ہوجائے گی “۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا ” اے موسیؑ ! میں اتنا کچھ دینے والے رب کا ناشکرا بندہ نہیں بن سکتا ہوں ” ۔ آپ آگے چلے اور دوسرے آدمی سے مل کر کہا کہ ” اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرو “۔ اس نے انتہائی مایوسی سے جواب دیا کہ ” کس بات کا شکر ؟ میرے پاس ایسا کیا ہے جس پر شکر ادا کیا جائے ؟ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہوا چلی اور جسم پر سے ریت بھی اڑ گئی ۔

آپ یقین کریں ہم انفرادی اور اجتماعی حثیت  میں ناشکرے بن چکے ہیں ۔ اسوقت ہر آدمی اپنے باپ سے اچھی زندگی گذار رہا ہے ۔مال و دولت کے اعتبار سے بھی اور سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے بھی ۔ آپ کبھی اپنے سودے کی لسٹ ہی اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائیگا ۔ جن چیزوں کے متعلق شاید ہمارے والدین نے سنا بھی نہیں ہوگا وہ چیزیں اب ہماری ضروریات زندگی بن چکی ہیں مگر ہم پھر بھی ناشکرے ہیں ۔بجلی ، گیس ، پانی ، موبائل اور انٹرنیٹ جیسی عظیم نعمتیں ایک ایک بٹن کے فاصلے پر موجود ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ تمام سہولیات فرعون ، قارون اور نمرود بھی ” انجوائے ” نہیں کرسکے ہونگے جو آج ہمارے پاس ہیں لیکن ہم اس  سب کے باوجود ناشکرے ہیں ۔

شکر گذاری الفاظ کا نہیں ایک رویے اور عادت کا نام ہے ۔ اگر آپ شکر گذار ہیں تو پھر آپ کے رویے میں شکر گذاری نظر آئیگی ۔ آپ کی ” باڈی لینگویج ” میں شکر گذاری چھلکے گی ۔ لیکن آپ کبھی کسی بڑے دوکاندار تک سے ہاتھ ملائیں اور اس سے اس کے گھر اور کاروبار کے بارے میں دریافت کرلیں ۔ ایک بے جان اور مردہ شکل کے ساتھ ” اللہ کا بڑا کرم ہے ، اسکا شکر ہے “۔ کا فقرہ سننے کے بعد آپ کے کان ترس جائینگے کہ کہیں سے للہ کا شکر بھی ادا ہوجائے لیکن سوائے رونے دھونے کے کوئی جملہ آپ کے کانوں سے نہیں ٹکرا سکے گا ۔

یاد رکھیں جو مخلوق کے سامنے خالق کی شکایتیں کرتا پھرتا ہے ۔ اللہ اس کو ساری دنیا کے سامنے رلاتا ہے ۔ اس کی عزت کو تذلیل میں تبدیل کردیتا ہے اور مسائل کا نہ ختم ہونے والا سمندر اس کی زندگی کا حصہ بنا دیتا ہے ۔لوگوں کو مت سنائیں کہ آپ کے اوپر کتنے ستم کے ” پہاڑ ” ٹوٹ رہے ہیں ۔ اکیلے میں اپنے رب کو سنائیں اس سے شکایتیں کریں اس کے سامنے روئیں ، گڑ گڑائیں اور دنیا کے سامنے اپنے رویے سے شکر گذاری کا اظہار کریں ۔اللہ آپ کے غموں کو خوشیوں سے بدل دیگا ۔

شکر گذاری کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ آپ کے رزق میں برکت  ڈال دیتا ہے ۔آپ دس ہزار کمائیں گے لیکن آپ کی ضروریات اللہ غیب سے پوری کرنا شروع کردیگا ۔ آپ کا اللہ پر توکل جتنا بڑھتا چلاجائیگا ، آپ کی زندگی میں شکر اتنا زیادہ آجائیگا ۔ آپ کو حاصل شدہ نعمتوں پر آنسو بہانا اور ان کی قدر کرنا آجائیگا ۔

ناشکرا آدمی سب سے پہلے کفران نعمت کرتا ہے اور کفران نعمت یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس نعمت کے لئیے ناقدری جنم لیتی ہے ۔ اللہ جب کسی انسان کی تباہی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو ناشکرا بنادیتا ہے ۔ کسی بھی نعمت کی ناقدری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس نعمت کو ناشکرے آدمی سے دور کردیتا ہے ۔ اس دنیا میں اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت اس کے دئیے ہوئے رشتے ہیں ۔ جتنا قریبی رشتہ ہوگا اس کا شکر بھی سب سے زیادہ ادا  ہونا چاہئیے ۔ اس کائنات میں میاں ، بیوی کا رشتہ سب سے قریبی ہے اس کا شکر اور اس کی قدر بھی سب سے زیادہ مطلوب ہے  لیکن ہم سب سے زیادہ ناقدری اسی رشتے کی کرتے ہیں ۔ پہلے اللہ دونوں کے  دلوں سے ایک دوسرے کے لئیے محبت ختم کرتا ہے اور پھر یہ رشتہ ختم ہوتا ہے ۔ زندگی بھر کی بے سکونی اور نہ ختم ہونے والے عذاب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اگر یہ رشتہ ناقدری کی بنیاد پر ختم ہوا ہے۔

شکر گذاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اطمینان قلب اور سکون نصیب ہوجاتا ہے ۔آپ کو بات بات پر خوش رہنا آجاتا ہے ۔ پھر آپ بیس ہزار کمائیں یا بیس لاکھ آپ کو دل کے سکون کی ایسی کیفیت نصیب ہوتی ہے کہ جسکا سرور صرف شکر گذار آدمی ہی محسوس کرسکتا ہے ۔ اگر لاکھوں روپے کما کر بھی ، تمام آسائشیں اور لگژریز رکھ کر بھی آپ کے گھر اور زندگی میں سکون نہیں ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ شکر گذار نہیں ہیں ۔ جس دن آپ کی زندگی اور رویے میں شکر آگیا سکون خود بخود آجائیگا ۔

شکر گذار آدمی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ مخلوق خدا کی زندگیوں میں آسانیاں اور سکون پیدا کرنا شروع کردیتا ہے ۔انسانیت کو اس سے فائدہ پہنچنا شروع ہوجاتا  ہے ۔ اس کائنات کے سب سے شکر گذار انسان رسول خداﷺ تھے ۔ اور انکا فیض آج تک جاری و ساری ہے اور قیامت تک جاری رہےگا بلکہ اس کے بعد بھی ۔ جو جتنا شکر گذار بنتا چلاجائیگا اللہ تعالی کی مخلوق اس سے اتنا زیادہ نفع حاصل کرنا شروع کردیگی ۔ وہ علم کی صورت میں ہو ، سکون اور اطمینان کی صورت میں ہو یا مال و دولت کی صورت میں ۔

آپ کے پاس جو بھی اور جتنا بھی ہے ۔ اس سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا شروع کردیں ۔ یہ شکر گذاری کی معراج ہے ۔ مولانا جلال الدین رومیؒ نے فرمایا ” اپنے دلوں پر حکمرانی کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جو اپنی خود غرضی کو اپنی قسمت اور نصیب سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔ جو اپنے نصیب پر راضی ہے اصل میں تو وہی بادشاہ ہے “۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں