امیر صوبے کے  بے کس و مجبور لوگ

میں پاکستان میں ان چند خوش قسمتوں میں سے ہوں جنھوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں اور ان کے باسیوں کو خوب اچھی طرح دیکھا ہے۔ جستجو رکھنے والے مزاج کے سبب یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کی تہذیب و ثقافت، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا اور مزاج کیسا ہے۔

غربت اور امارت کس معاشرے کا حصہ نہیں ۔ پاکستان کے کچھ صوبے تو وہ ہیں جہاں بظاہر آبادی کے 80 فیصد سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف غریب ہیں بلکہ غربت کی لکیر سے بھی بہت نیچے ہیں اور بصد مشکل دو اوقات  پیٹ بھر کر اکھانا کھا پاتے ہیں۔ ایسے صوبوں میں سر فہرست بلوجستان آتا ہے جس میں غربت کی لکیر کےنیچے افراد کی تعداد  سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر ہے پھر  خیبر پختونخوا اور سب سے آخر میں پنجاب کا نمبر آتا ہے۔ پنجاب وہاں کے حکمرانوں کی فہرست میں “خوشحال” صوبے میں آتا ہے اس لئے ممکن ہے میرا اس صوبے کو غربت کی فہرست میں شمار کرنا اچھا نہ لگے لیکن میرے پاس ایسی حقیقتیں اور شواہد موجود ہیں جن کو سامنے رکھ کر اگر میں یہ کہوں کہ ممکن ہے  پنجاب جو  بظاہر بہت خوشحال نظر آتا ہے یا وہاں کے حکمران اسے پاکستان کے دوسرے صوبوں سے خوشحال تصور کرتے ہیں، سمجھتے ہیں اور پاکستان کے 22 کروڑ سے زائد عوام کو باور کرانا چاہتے ہیں ، وہ اس کے برعکس ہو۔

غربت  عموماً دولت، وسائل یا پیسے کی بے حد تنگی کو سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت اور پیسے کی قلت کسی کے تنگ دست ہونے یا  غریب و مفلس ہونے کی سب سے بڑی نشانی اور دلیل ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اسے غربت کہنا یا سمجھنا بہت بڑی غلطی اور کوتاہی ہے۔ بے شک دولت یا پیسہ نہ ہو تو انسان کا زندہ رہنا اور اپنے سانسوں کو جاری رکھنا ایک دشوار گزار ترین کام ہو بلکہ اپنے وجود ہی کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے لیکن روپے پیسے اور دولت سے بھی ایک عظیم ترین اور بیش قیمت ایک اور چیز ہے اور وہ ہے غیرت و حمیت۔ یہ اگر زندہ ہے تو انسان اگر سانسیں بھی لے رہا ہو، تندرست و توانا ہو، مکمل صحتمند ہو اور بہر لحاظ اس کا ظاہرہ کہیں سے کہیں بھی “غریب” نظر نہ آتا ہو وہ “زندہ لاش” تو کہلا سکتا ہے لیکن زندہ نہیں۔

پاکستان بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا اور یہ قربانیاں بھی صرف اور صرف ان لوگوں کی تھیں جن کو “خارجی” سمجھا، کہا اور قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ قربانیاں دینے والوں میں اِس خطہ زمین سے تعلق رکھنے والوں کا اگر کوئی حصہ تھا بھی تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہی رہا ہوگا۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ سارے افراد جو موجودہ سرحدوں کے اُس پار سے آئے تھے وہ اپنی اپنی جانیں بچانے کیلئے آئے ہوں۔ گمان غلط بھی نہیں اس لئے کہ ہندؤں کے شدید رد عمل کی وجہ سے تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی بہت بڑے پیمانے پر خونریز فسادات  پھوٹ پڑے تھے اور لاکھوں افراد ہلاک کر دیئے گئے تھے جس کی وجہ سے اس کے علاوہ کوئی راہ تھی ہی نہیں کہ محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کی جائے لیکن تاریخ پاکستان اس بات کی گواہ ہے کہ سب سے زیادہ بلکہ جوق در جوق ہجرت زمانہ امن میں ہوئی۔ فسادات پر قابو تو چند ہفتوں میں پالیا گیا تھا ۔ ہنگاموں اور قتل و غارت کے سبب لوگوں نے نقل مکانی کی بجائے مقابلے پر ڈٹ جانے کو ترجیہہ دینا زیادہ مناسب خیال کیا تھا چنانچہ حالات معمول پر آجانے کے بعد ایک بہت ہی بڑی تعداد پاکستان آنا شروع ہو گئی۔ شاید یہ ہجرت کبھی نہ رکتی اگر بھاری تعداد میں مسلسل آنے والوں پر “اسلامی جمہوریہ پاکستان” نے قانوناً ان کے آنے پر پابندی عائد نہ کی ہوتی۔ پابندی لگانے کا یہ کارنامہ ایوبی حکومت کا ایک عظیم کارنامہ تھا جس نے ان “پاکستانیوں” کو پاکستان آنے سے روک دیا جن کی قربانیوں کے طفیل پاکستان وجود میں آیا تھا۔

مجھے اس تمہید کے بعد صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ کیا ان “پاکستانیوں” سے بھی کوئی غریب ہوسکتا تھا جو 1947 سے 1959 تک سر زمین خداداد میں داخل ہوتے رہے؟۔ ان میں کم از کم 90 فیصد افراد اور خاندان وہ تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا آغاز غربت کی لکیر کو چھوڑیں، صفر سے بھی کئی گنا نچلے درجے سے کیا اور پھر وہاں تک جا پہنچے جہاں وہ پوریےپاکستان میں ان سب سے  زیادہ خوشخال ہیں جو اس بات کو بہت فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم اس دھر تی کی مٹی کے  سپوت ہیں۔

میں عزت ماآب جناب ذوالفقارمرزاکی اس بات کو اون کرتا ہوں ہوں کہ ہجرت کے وقت ہم میں سے ہر فرد اور خاندان بلا شبہ ننگا بھی  تھا بھی اور بھوکا بھی ۔ جو چند کھانے پکانے کے برتن، بوریہ بستر اور لباس ساتھ لایا تھا یا لانے میں کامیاب ہوا تھا بس وہیاس کا کل متاع زندگانی تھا لیکن میں ان کی اس بات کو اون کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہاں آنے والا کوئی ایک فرد بھی پاکستان آنے سے قبل ننگا یا بھوکا تھا ایسا سب کچھ پاکستان کی محبت میں ہوا اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے یہاں کے باسیوں کو ایک آزاد و خودمختار ملک کا تحفہ دیا ورنہ یہ سر زمین جس پر پاکستان ہے وہ 1947 سے قبل بھی تھی اور 200 سال قبل بھی موجود تھی لیکن اس پر “فرنگی” حکومت کرتے رہے اور موجودہ پاکستانی خواب غفلت میں پڑے رہے۔

موجودہ پاکستان کی سرحدوں کے اس پار سے صرف وہ ہی نہیں آئے جو تقسیم کے وقت ان علاقوں سے آئے جو ہندوستان سے داخل ہوئے۔ افغانستان سے ویسے تو افغانیوں کے آنے جانے اور شادی بیاہ کے بندھنوں میں بندھنے پر نہ تو پاکستان کے بننے سے قبل کوئی قدغن اور پابندی رہی تھی اور نہ 90 کی دھائی تک کسی قسم کی کوئی بندش ،اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں افغانستان سے آنے والوں کی وہ تعداد جو اب پاکستانی شناختی کارڈ کے حامل ہیں لاکھوں میں ہوگی ۔ افغان وار کے بعد تو کوئی حساب ہی نہیں کہ وہ اب کتنی بڑی تعداد میں میں ہونگے۔ کوئی ان افغانیوں سے پوچھے کہ وہ تاحال کس کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی سر زمین چھوڑنے کے بعد اپنے وجود کو بر قرار رکھنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔

وہ لوگ جو خالص اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں جو موجودہ پاکستان کہلاتا ہے  اور جن کی مٹی بھی اسی ملک سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ مختلف فوجی آپریشنوں کی وجہ سے اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا کردیئے گئے وہ لوگ بھی اس کرب سے آشنا ہونگے کہ اپنی اپنی بستیوں اور گھربار چھوڑ دینا کتنا اذیتناک ہوتا ہے اور اپنے تن کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔

ان تمام باتوں کو بیان کرنے کے بعد میں جس جانب لوٹنا چاہوں گا کہ  اس سے قبل میں کراچی میں آکر بیان بازی کرنے والے بہت سارے اکابرین کی وہ آرا بیان کرنا چاہوں گا جس کو بیان کرکے شاید ان کے کسی جذبے کو بڑی تسکین ملتی ہو لیکن  ان کی باتیں کروڑوں دلوں کو چیر کر رکھ دینے کا موجب بن جانے کے باوجود ان کیلئے نہ تو قابل معافی ٹھہرتی ہیں اور نہ ہی وہ اپنے کہے پر کسی شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

ذوالفقار مرزا  کا بس چلتا تو نہ جانے وہ کب کا یہاں کے باسیوں کا قتل عام کرچکے ہوتے۔ جو سندھ کا وزیر داخلہ ہوتے ہوئے سندھیوں اور بلوچوں کو پانچ لاکھ غیر ممنوعہ بور کی گنوں کا لائسنس اس شرط پر جاری کرے کہ اس میں  سےچلی ہوئی ہر گولی اگر کسی کا لہو چاٹے تو وہ صرف اہل کراچی (خارجیوں) کا ہو۔  یہ بات کوئی الزام نہیں بلکہ اون لائن پاکستان کے تمام چینلوں سے خود ان کی زبانی کہی ہوئی  بات ہے جس کو ایک بار نہیں بار بار دہرایا گیا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ان کی تضحیک بھی یہ کہہ کر کی گئی کہ “یہ ننگے بھوکے لوگ” ہیں۔  عمران خان نے ان کو زندہ لاشیں کہہ کر پکارا، نواز شریف نے مکھی سے تعبیر کیا اور ان کے چھوٹے بھائی “پنواڑی” کہہ گئے۔ کوئی مکڑ کہتا رہا اور کسی نے مٹروے کا خطاب دیا۔

تحقیر کرنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انھیں در خور اعتناع بھی نہ سمجھا جائے اور کنجشک فروع مایہ قرار دیکر ان کی حیثیت کو خاک میں ملادیا کائے۔

کچھ تو ہوتی ہیں سیاسی باتیں لیکن کچھ کا نہ تو خود کوئی سیاست سے تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بیانات کو سیاسی ترازوں میں تولا جاسکتا ہے اگر ان کے منھ سے بھی ان کی حیثیت  اور مرتبے سے نیچے درجے کی بات یا گفتگو سننے کو ملے تو ان کی اخلاقی گراوٹ پر رویا  جاسکتا ہے، سر پیٹا جاسکتا ہے یا پھر  قسمت کو کوسا جاسکتا ہے۔ سندھ کیا پاکستان کے سارے صوبوں کے لوگ غریب ہو سکتے ہیں، بے بس و لاچار ہوسکتے ہیں، بے کس ہو سکتے ہیں، حکمرانوں اور وڈیروں کے ستائے ہوئے ہو سکتے ہیں لیکن وہ چو پائے یا جانور نہیں ہو سکتے جن کو “ریوڑ” کہا جائے۔ یہ بات میں خود گھڑ کے نہیں کہہ رہا وہ فرماتے ہیں کہ “سندھ میں لکیر کے فقیر کی طرح کام چل رہا ہے ۔صوبے میں لوگ ریوڑ کی طرح گھوم رہے ہیں مگر کسی کو فکر نہیں ہےَ”۔ یہ الفاظ کسی کم پڑھے لکھے یا کسی عام انسان کے نہیں ملک کے سب سے بڑے منصف کے ہیں۔

ان چند باتوں کو اجمالاً بیان کرنے کے بعد میں اس تجزیہ کی جانب لوٹنا چاہوں گا کہ پورے پاکستان میں ذہنی اور مالی اعتبار سے سب سے غریب افراد کس صوبے میں پائے جاتے ہیں۔

پیشہ کوئی سا بھی ہو برا نہیں ہوتا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ پیشوں میں بہر کیف درجہ بندیاں ہوتی ہیں۔ مانگنے سے زیادہ کہیں بہتر ہے کہ نامناسب سے نامناسب (حلال) پیشے کو اختیار کر لیا جائے۔ خواتین، نوعمر لڑکیوں سے کام لینے کی بجائے  کام صرف اور صرف مردوں ہی کو زیب دیتا ہے۔ خواتین اور خصوصاً بچیوں اور نو عمر لڑکیوں سے کام لینا وہ بھی غیروں کے گھروں میں جاکر، غیرت و حمیت کے سراسر خلاف ہے۔

دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ خوشحال علاقوں  سے نقل مکا نی کرکے معاشی طور پر بد حال علاقوں کی جانب جائیں۔ دیکھا یہی گیا ہے غربت، تنگ دستی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان لوگ ان علاقوں، شہروں ، صوبوں  اور ملکوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں یا نقل مکانی اختیار کرتے ہیں جہاں صورت حال بہر حال معاشی اعتبار سے قدر مستحکم اور روزگار یا کاروبار کے مواقع زیادہ ہوں۔

ان حدود کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پورے پاکستان میں کراچی، جس کو ننگے بھوکوں، زندہ لاشوں، مکڑوں، مکھیوں، پنواڑیوں یا اس سے بھی گھن کھانے والے کیڑے مکوڑوں کا شہر کہا جاتا ہے، یہاں ہردن جوق درجوق آنے والوں کا جائزہ لیا جائے اور اس کمیونٹی کا جائزہ لیاجائے جو یہاں آکر بہ رضا و رغبت ہر قسم کاکام انجام دیتے ہیں ہیں تو سب سے بھاری تعداد پنجاب سے آنے والوں کی ملے گی۔ بے شک ان کا تعلق صادقہ باد سے لیکر لاہور کی سرحدوں سے آگے کا نہیں ہوتا لیکن وہ سب اسی صوبے سے تعلق رکھتےہیں جہاں “پڑھا لکھا پنجاب” یا خوشحال پنجاب کے نعرے بھی لگتے ہیں، دعوے بھی ہوتے ہیں اور دن رات ٹی وی چینلوں پر اشتہار بھی چلتے ہیں۔ بھاری تعداد ان کی ہوتی ہے جو بہت نچلے درجے کے پیشے والے ہوتے ہیں۔ سب کے سب جاہل مطلق ہوتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، چنچیاں چلاتے ہیں۔ میں پہلے ہی وضاحت کرچکا ہوں کہ پیشہ کوئی بھی برا نہیں لیکن کچھ باتیں حمیت و غیرت کی بھی ہوتی ہیں اور ان میں میرے نزدیک سب سے زیادہ خراب کام خواتین، نوعمر لڑکیوں اور معصوم بچیوں کا غیروں کے گھروں میں سارا سارا دن کام کرنا ہے۔

مجھے اور پاکستان کا تو علم نہیں لیکن کراچی جو 3 کروڑ آبادی کا شہر ہے یہاں تعداد پنجاب، جس کو جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے، بہت ہی زیادہ ہے اور گھروں میں کام کرنے والیوں کی تعداد زیادہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے اور اگر دیگر معمولی معمولی کام کرنے والوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو تعداد لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔ باقی بلوچی اور سندھی ہیں لیکن وہ ان کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔رہے پختوں تو میں  نےآج تک ان کی خواتین یا بچیوں کو کسی گھر میں چھاڑو پونچا کرتے نہیں دیکھا۔ گویا غربت اور حمیت کا امتیازکو وہ خوب پہچانتے ہیں۔

یہ نہیں کہ لاہور یا اس سے آگے خیبر پختون خوا تک کے پنجاب کے لوگ کراچی کی جانب نقل مکانی نہیں کرتے۔ وہ بھی ہیں خواہ اچھی ملازمتوں میں ہوں یا کاروبار کرتے ہوں لیکن وہ بھی روز سیکڑوں کی تعداد میں کراچی کی جانے تقل مکانی پر مجبور ہیں۔

اب مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ کیا کراچی والے (خارجی) اپنے شہر سے نکل کر پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان یا کے پی کے کی جانب بسلسلہ روز گار نقل مکانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؟۔ کیا وہ بہت ہی کم درجے کی ملازمت کو اختیار کرتے (بہ رضا و رغبت) ہیں، کیا ان کی خواتین کسی دوسرے شہر، قصبے یا صوبے کے لوگوں کے گھروں میں جاکر برتن مانجھتی یا چھاڑو پونچا کرتی نظر آتی ہیں؟۔ پھر بھی ان کی لاشیں گرانے کیلئے صوبائی وزیر داخلہ انھیں غیر ممنوعہ گنوں کے لائسنس باٹتے بھریں، ان کو ننگا بھوکا کہیں، نااہل وزیر اعظم ان کو مکھی کہہ کر پکاریں، ان کے بھائی ان کو پنواڑی کا خطاب دیں، لوگ ان کو مکڑ، مٹروا اور بکڑ بولیں تو ان کی سوچوں اور منھ سے جھڑنے والے پھولوں پر اپنا سر ہی پیٹا جا سکتا ہے۔

اب خود ہی اندازہ لگائیں کہ پاکستان کے جس صوبے کا دعویٰ “پڑھا لکھا” ہو، “خوشحال” ہو اور سب سے زیادہ امارت کا ہو جب اس کے لاکھوں لوگ اس بات پر مجبور ہوں کہ وہ کراچی کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوں اور اپنی بہنوں، بہو بیٹیوں اور معصوم بچیوں کو سارا سارا دن غیروں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور کریں تو خود ہی فیصلہ کریں کریں پاکستان میں سب سے زیادہ خوشحال کو ن سا شہر ہے اور سب سے زیادہ شریف انسان کہاں بستے ہیں جن کے ہاتھوں ان کی بہو بیٹیوں کو شاید ہی کبھی شکایت ہوتی ہو یا کوئی شکوہ سنج ہو کہ ان کو ان کی محنتوں کا جائزصلہ نہیں ملتا۔

کراچی کے بازاروں، گلیوں، کوچوں، چوراہوں اور ہر سگنل پر ہاتھ پھیلائے گھڑے لوگوں پر بھی لازماً نظر دوڑائیں تو آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان پھیلے ہاتھوں میں ننگے، بھوکے، مکھی، پنواڑی، مکڑ  مٹروے اور گڑگاواں شریف والے کتنے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں