سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل بھی

  اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکلات میں گھرتا جارہا ہے۔ ہر آنے والا لمحہ اس کی مشکلات کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ بیرونی دنیا کا اس میں کتنا ہاتھ ہے، یہ الگ بحث لیکن جو اس کے ساتھ اس کے اپنے کر رہے ہیں اس کی جانب توجہ کم ہی نظر آرہی ہے۔

                میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں “ایک جنگل میں دوشیر اور ایک میان میں دو تلواروں” والا مسئلہ ہے جو اب نہ ختم ہونے والا سلسلہ بنتا نظر آرہا ہے۔ ریاست تو ریاست ہوتی ہے، اس طرح کا سلسلہ اگر کسی گھر میں بھی ہوجائے تو وہ گھر تباہ و برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ باہر کی دنیا خود پریشان ہے کہ جب ہم پاکستان کی جانب دیکھیں، کوئی معاہدہ کریں تو رواولپنڈی جائیں یا اسلام آباد۔ یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیا ہم پر کسی بھی معاملے کے سلسلے میں اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اس تباہی میں ہمارے پڑوسیوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ہاتھ ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا دشمن ہم پر خشت باری کی بجائے گل پاشی کریگا؟۔ دشمن جو بھی ہو، وہ ہمارے ہی گھر والوں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہی آئے گا اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ بات میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں، محمود خان اچکزئی کیا کیا کچھ کھلے عام کہہ رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں، اس کا علم پاکستان ہی کو نہیں پوری دنیا کو ہے۔ محمود خان اچکزئی جو کچھ کہتے رہے ہیں اسی قسم کی ایک آواز بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ کی بھی باہر کی دنیا میں گونج رہی ہے۔ میں ان ہی کی زبان سے کہے ہوئے الفاظ قارئین کے سامنے رکھنے کے بعد اپنی ایک بات کہہ کر قارئین کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کیلئے کہہ کر اجازت چاہوں گا اور چاہونگا کہ ان کی رائے مجھ تک ضرور پہنچے۔

                بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ، سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں نے دوسرے علاقوں سے دہشت گردی بلوچستان میں درآمد کی ہے۔ قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے کے تناظر میں پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیاستدانوں کے ساتھ انٹرویوز پر مشتمل بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز،”وژن پاکستان” میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو سمجھنا کوئی ریاضی کا سوال نہیں، وہاں سب جانتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والی تنظیموں کے لوگ کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں اور ان کے پاس اداروں کے (شناختی) کارڈ بھی ہیں۔ ان کو لائسنس ”ٹو کِل“ دیا ہوا ہے۔

                ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کا جواب تھا، وہ ایسی تصاویر دکھا سکتے ہیں، جن میں مطلوبہ جرائم پیشہ دہشت گرد، اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بغل گیر کھڑے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ “میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا (بلوچستان میں) ملوث نہیں ہوگا، وہ ہوگا، لیکن اسے یہ موقع بھی ہم نے دیا ہے، اگر ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو وہ بھی کریں گے۔ یہ دونوں طرف سے ہورہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے”۔ سردار مینگل نے سوال کیا کہ “ہم نے کیا افغانستان میں مداخلت نہیں کی؟ کیا ہم اس سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا مجاہدین ہم نے نہیں پالے، کیا طالبان ہم نے نہیں پالے؟ کیا یہ اسلام کے نام پر تھا یا پاکستان کے لیے تھا یا پھر ڈالروں کی وجہ سے تھا۔ ہم نے ڈالروں کی وجہ سے پاکستان کو بیچ ڈالا”۔

                صوبے میں حالات کیسے بہتر کیے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ شدت پسندوں سے بات کرنا چاہیے۔ جب آئی آر اے اور برطانیہ کی حکومت بات کر سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ بقول اختر مینگل پاکستان کی سیاسی قیادت بہت بے اختیار ہے، طاقتور صرف اسٹیبلشمینٹ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ’ ’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو اپنا حصہ نہیں سمجھا، اسے صرف ایک کالونی سمجھا ہے اسے پنجاب کی کالونی سمجھا ہے، جب تک بلوچستان کو حصہ نہیں سمجھا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اب تک تو اللہ ہی بچاتا آیا ہے، لیکن جیسے حالات ہیں پتا نہیں وہ بھی بچا پائے گا یا نہیں؟ اگر ملک کو ساتھ رکھنا ہے تو پھر حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینا پڑیں گے۔ ملک سے متعلق محمد علی جناح کے وژن پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 70 برسوں میں جتنے بھی حکمران آئے چاہے وہ ووٹ سے آئے یا بندوق کے ذریعے، ان سب نے جناح صاحب کے وژن کو مسخ ہی کیا ہے۔ ان کے بقول جناح کے وژن میں سنہ 1940 کی قرارداد تھی، جس میں تمام صوبوں کو خود مختاری دی گئی تھی۔

                ان کا کہنا تھا کہ کیا آج کے پاکستان میں انھیں وہ خود مختاری حاصل ہے۔ صوبوں کو اگر حیثیت دی جاتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ جناح صاحب کے وژن کی سکرات جناح صاحب کی وفات سے شروع ہوگئی تھی اور موت پاکستان کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔

                انھوں نے کہا کہ باعث مجبوری، ریاست کے جغرافیہ کو تسلیم کرتے ہیں، سیاستدان بھی مجبور ہیں، صوبے بھی مجبور ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی ذمہ دار وہ جماعتیں، وہ ادارے اور حکومتیں ہیں جنھوں نے وہاں نوجوانوں کو مایوسی کی جانب اس حد تک دھکیلا ہے وہ اب علیحدگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے معصوم لوگوں کو قتل کیے جانے کی شدید مذمت کی۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاستی سرگرمی کو تباہ کیا گیا ہے، سیاسی کارکنوں کو غائب کیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان انتہائی مایوس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب تک اسٹیبلشمینٹ اپنی سوچ نہیں بدلے گی، پاکستان تاریکی کی طرف جائے گا۔ مجھے پاکستان میں تاریکی نظر آرہی ہے، کوئی قیادت نہیں جو روشنی کی جانب لے جائے۔

                اپنے اس انٹر ویو میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، اختر مینگل نے کچھ باتیں بہت ہی سخت کہی ہیں جو ایک ایسے فرد سے جو صوبے کا سر براہ رہ چکا ہو اس کے منہہ سے کسی صورت مناسب نہیں۔ ان کی یہ باتیں ”براہمداخ بگٹی“ کے منہہ سے نکلے ہوئے تیر و نشتر سے بھی زیادہ دل چیرنے والی باتیں ہیں اس لئے کہ براہمداخ پاکستان کی کسی بھی اہم ذمہ داری پر کبھی فائز نہیں رہا۔ دنیا نے جو وزن ایک سابق سربراہ بلوچستان کے منہہ سے نکلے ہوئے الفاظ میں محسوس کیا ہوگا۔ مثلاًبحالت مجبوری پاکستان کے جغرافیہ کو ماننا، پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں کے ذمہ دارادارے ہیں وغیرہ، وہ باتیں ہیں جو کسی صوبے کے سربراہ کی زبان سے کسی صورت منا سب نہیں۔ اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

                آخر میں میں ایک بات برائے غور و فکر رکھ کر اجازت چاہونگا اس لئے کہ جو فرد بھی پاکستانی پاکستان کے متعلق منفی سوچ رکھتا ہے شاید وہ اندر سے ظاہری پاکستانی سے کہیں زیادہ پاکستان کا درد رکھتا ہو لیکن ہم اسے سمجھنے میں غلطی کر رہے ہوں۔

                ایک اسکو ٹیچر کسی بچے سے کہتی ہے  یہ دو سیب میں تمہاری میز پر رکھ رہی ہوں اگر دو اور رکھ دوں تو یہ کتنے ہو جائیں گے؟۔ بچہ انگلیوں پر حساب لگاتا ہے، پھر کچھ سوچتا ہے اور اعتماد کے ساتھ کہتا ہے پانچ۔ ٹیچر زناٹے میں آجاتی ہے اس لئے کہ یہ وہ بچہ ہے جو کلاس کا ذہین ترین بچہ ہے۔ خود کو سنبھال کر وہ پھر وہی سوال اسی طرح دہراتی ہے۔ بچہ دوبارہ انگلیوں پر حساب لگاتا ہے اور نہایت اعتماد کے ساتھ کہتا ہے پانچ۔ کلاس ٹیچر کو غصہ تو بہت آتا ہے لیکن وہ یہی خیال کرتی ہے کہ شاید اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ وہ اب سیب کی بجائے دو گیندیں میز پر رکھ کر بچے سے کہتی ہے کہ اگر دو گیندیں میں اور رکھوں تو یہ کتنی ہو جائیں گی۔ بچہ اسی انداز میں انگلیوں پر کچھ حساب لگاتا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہے چار۔ اس پر کسی حد تک ٹیچر کو غصہ آجاتا ہے اور وہ سیبوں کو دوبارہ اسی انداز میں میز پر رکھ کر بچے سی پوچھتی ہے بتاو کتنے سیب ہو جائینگے۔ جواب وہی آتا ہے پانچ۔ غصے سے لال پیلی ٹیچر بچے کو پرنسپل کے پاس لے جاکر سارا ماجرہ کہہ سناتی ہے۔ پرنسپل بچے کو پیار سے اپنے قریب بلاکر پوچھتی ہے کہ بیٹا آپ گیندوں کی تعدا تو درست بتاتے ہو لیکن آخر سیبوں کی تعداد غلط کیوں بتا تے ہو؟ بچہ کہتا ہے میڈم میں سیبوں کی تعداد بھی ٹھیک ہی بتاتا ہوں، کیسے؟ پرنسپل نے حیرت سے کہا۔ میری امی نے مجھے ایک سیب لنچ میں کھانے کیلئے دیا ہوا ہے۔ چار ٹیبل پر ہوئے، ایک میرے بیگ میں۔ پانچ ہو گئے نا۔

                بظاہر غلط بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کا موقف سمجھنے کی کوشش کریں یعنی بات چیت کریں، ڈرون مت ماریں اسی میں پاکستان کا فائدہ ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں