نوجوانوں کو بدظن کیا جارہا ہے

کیاہمارے ملک خدادپرکیا چند جاگیرداروں،وڈیروں،سرمایہ داروں،وزراء کا حق ہے یا اس پر ایک عام پاکستانی کا بھی اتنا ہی ہے۔یہ سوال ایک عام سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت خاص ہے کیوں کہ نوجوانوں میں بڑھتی ناامیدی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمران اورہمارے اساتذہیہ بات سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ،کسی بیٹے کی ملکیت نہیں بلکہ اس میں خون ہے لاکھوں مسلمانوں کا جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے جنہوں نے اپنوں کی قربانیاں دیں اپنی جائیداد یں چھوڑ دیں صرف ایک آزاد ملک حاصل کرنے کے حصول کیلئے ہم نے یہ بات اپنے نوجوانوں کو بتانی ہے ان کو سمجھانی ہے کیوں کہ قومیں نوجوانوں سے آگے بڑھتی ہیں ۔
ملک خداداد میں انتخابات کا وقت نزدیک آگیا ہے اور نواجوں کی امیدوں کو پھر سے کچلنے کے لیے وزراء نے کمر کس لی ہے جلسوں اور ریلیوں میں ایک دوسرے کو چور کہنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے کل کے بغل گیر آج کے دشمن بن گئے ہیں،صرف انتخابات کی کامیابی کیلئے ۔۔کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ سیاست میں کوئی لفظ حرفِ آخر نہیں ہوتا اس کا بھرپور مظاہرہ شروع کیا جاچکاہے ۔الزامات در الزامات کی سیاست۔۔ دنیا بھر میں نوجوانوں کو مستقبل کہا جاتا ہے،ہمارے یہاں الٹا ہے ،وزیر کا بیٹا ہے تو وزیر بنے کا اور کلرک کا بیٹا ہے تو کلرک ،ہمارے معاشرے میں عوام کی سوچ کو دیمک لگادینے والے یہ حاکم اب نئے نعروں اور نوجوانوں کے ساتھ مذاق کو تیار ہیں ۔
جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال کیا جارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے اور ہمارے حاکم بتارہے ہیں کہ ملک میں ترقی کی شرح ۶ فیصد سے تجاوز کرگئی ہے ،صحیح کہہ رہے ہیں جناب آپ بلکل آپ گھروں میں ترقی کی شرح ہی نہیں بلکہ رہن سہن کا انداز بھی اور اس ملک سے باہر پڑی دولت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ،آپ کے بینک بیلنس نے ضرور ترقی کی ہے ؟ ایک عام شہری اس وقت ایک لاکھ ۲۰ ہزار کا قرض دار صرف ان نااہل حکمرانوں اور ان کے عیاش بچوں کی وجہ سے۔مستقبل کے معماروں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اس قوم کے لوگ چور ہیں اس کی مثال ایک کولر میں لگی زنجیر جس کے ساتھ گلا س بندھا ہوتا ہے اس سے دی جاتی ہے لیکن اس قوم کے معماروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کولر کو بھی لگانے والا ایک عام سا آدمی تھا اور اس نے یہ کام محض خدا سے ثواب کیلئے کیا تھا اس قوم کے بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی کا ایکسیڈینٹ ہو جائے تو لوگ اس کا بٹوا تک چرا لیتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس قوم کے ہی وہ فرد ہوتے ہیں جو اسے اسپتال لے جاتے ہیں۔اس قوم کے نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مساجد سے ان کی چپلیں چوری ہوجاتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مساجد بھی کسی ایسے انسان نے تعمیر کی جو اپنے محدود اور لامحدود وسائل سے اس کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔ اس قوم کے جوان سپوتوں کو یہ نہیں بتایا جاتا جب اس ملک میں زلزلہ آتا ہے تو اسی قوم کا ہر فرد بوڑھا ہو یا بچہ ،مرد ہو یا عورت اپنے بہن بھائیوں کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اپنے نئے بستر ہوں یا نئے کپڑے سب ان کے لئے حاضر کردیتے ہیں۔اسی ملک کے کسی بھی شہر میں دھماکہ ہوتا ہے تو لوگ جوگ در جوگ ان کی امداد کے لئے آگے آجاتے ہیں۔اسپتالوں میں خون کے عطیات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں لیکن اس قوم کے نوجوان کو یہ بتایاجاتا ہے کہ ہماری قوم سو رہی ہے ہماری قوم ایک مردہ اور بے حس قوم ہے لیکن شاید یہ ہماری نااہلی کے نوجوان نسل آج اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتی ۔
کیوں ہم اپنے ہی نوجوانوں کو خود سے بدظَن کر رہے ہیں اس کی سب بڑی وجہ فرقہ وارادیت اورسیاست ہے اگر نوجوان کو بہلانا ہے تو اس کو نوکری اور ملازمت کا جھانسہ دو تا کہ وہ صرف اسی کے پیچھے پیچھے ڈورتا رہے اور تھک کر کہیں نہ کہیں یا ملک چھوڑ جائے یا کسی بدنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے ،ہماری غلط پالیسیاں اور حکومتوں کی جانب سے عدم توجہ اس وقت ملک کو تاریخ کے بدترین دور سے گزار رہی ہے کسی ملک کا محور اس کا نوجوان ہوتا لیکن ہماری پالیسوں میں نوجوان کے لیے کچھ نہیں۔ دنیا میں قومیں اس لئے ترقی کررہی ہیں کہ انہوں نے اپنی نوجوان نسل کیلئے قربانیاں دیں اوران کے لئے ملازمتوں سے لیکر کھیل تک میں مواقع پیدا کر رہی ہیں۔شاید ہمارے سیاست دان نہیں جانتے کے مستقبل کے معمارکبھی جھکا بکا نہیں کرتے بلکہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں