’’جمہویت کے دس سال‘‘

ملک کی اعلیٰ عدالت نے انتخابات وقت پر نہ ہونے کے منڈلاتے کالے بادلوں کی آندھی کا رخ موڑ دیا۔مسرت اس بات کی ہے کہ عوام اس شش و پنج میں مبتلا نہیں، الیکشن تاخیرکا شکار ہوں گے۔اس لیے قوم کو جمہوریت کے دس سال مبارک ہوں۔پہلی بار سول بالادستی کے ساتھ جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ۔پھر 2013 کے عام انتخابات میں نون لیگ اقتدار میں آئی اور گرتے پڑتے یہ بھی اپنی مدت پوری کر گئی۔اگرچہ دس سالہ جمہوری دور میں وزراا عظم اپنی کرسیوں کو نہ بچا سکے ،مگر یہ بات جمہوری روایات کی طرف اچھی پیش قدمی ہے کہ حکومتیں مکمل اختیارات کے ساتھ اپنی مدت پوری کررہی ہیں۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ بڑی دل چسپ صور ت حال اختیار کر چکا ہے۔اگرچہ نون لیگ کی بڑی اہم وکٹیں کپتان کی خطرناک بولنگ کے آگے ڈھیر ہوئی ہیں اور پی ٹی آئی اپنی ٹیم کا اعلان کرچکی ہے، مگر میچ ابھی باقی ہے۔پاور پلے میں دو چار وکٹیں گر جائیں تو ٹیم کڑی مشکلات میں پھنس جاتی ہے۔خان صاحب کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم کا عہدہ کسی کو راس نہیں آیا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب کافی پر جوش ہیں کہ ان کی ٹیم بہت اچھے کمبینیشن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں وزیر اعظم بنا دے گی ۔لیکن یہ کوئی لارڈ یا گال اسٹیڈیم نہیں اور نہ ہی نون لیگ زمبابوے ، اٖفغانستان کی طرح نووارد ٹیم ہے کہ خان صاحب پلک جھپکتے کرسی پر براجمان ہوکر وزیر اعظمی کا کپ اٹھا لیں گے۔میچ کے لاسٹ پانچ اوور میں ٹیم کا پتا چلتا ہے کہ وہ کتنا اسکور ، اسکور بورڈ پر سجاتی ہے۔یہاں تو کافی وقت پڑا ہے ۔عالمی میڈیا ، مشہور جریدے نون لیگ کی کامیابی کا عندیہ دے چکے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز حکومت نے ملک کو بہت نوازا ہے۔اگر ہم پانچ سالہ دور کا بے لاگ تجزیہ کریں تو نون لیگ بہتر رہی پیپلز پارٹی سے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مخالفین کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس نے ترقیاتی کام کرائے ۔کسی کے آگے جھکے بغیر ملک کو اجتماعی مسائل سے نکالنے کی سعی کی ۔دہشت گردی کے جن کو قابو کیا ۔سندھ میں امن وامان کی دگرگوں ہوتی صور ت حال کو درست کیا اور آج شہر قائد میں جہاں سر نکالنا مشکل تھا ، عام آدمی بے دھڑک کام کررہا ہے۔
سرمایہ دار ملک سے بھاگ رہے تھے ۔بزنس مین انڈسٹریاں ملیشیا ء ، یو اے ای لے جا رہے تھے ۔فارن کرنسی بس نام کی رہ گئی تھی۔ڈالر جب چاہتا منہ اٹھا کر آسمان سے باتیں کرتا ۔ایک جاننے والے نے 2009 موٹر سائکل پارٹس کی چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ کہنے لگے دعا کریں اللہ کاروبار کو چار چاند لگائے۔لیکن ایک ہفتے بعد دکان کو تالا لگانا پڑا ۔کیوں ؟ کیوں کہ وہاں کئی ایک پارٹیوں نے بھتوں کی پرچیاں بھیجنی شروع کر دیں ۔ غریب شہری جب اپنی تمام تر جمع پونجی چھوٹے سے کاروبار میں لگا کر بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرے ،پھر کسی حق کے بغیر اس سے اس طرح کی سینہ زوری کی جائے تو وہ کیا روزی روٹی کرے گا ۔آج وہی بندہ نون لیگ کے لیے دعا گوہے ۔اس جیسے کئی ایک درد منددل اور ہیں جن کو نواز حکومت نے امن فراہم کیا اور چند ایک سیاسی جماعتوں کی غنڈا گردی اور بدمعاشوں کی قیدسے آزاد کرایااور ان کوایسے قماشوں کے چنگل سے رہائی دلائی۔
جمہوریت کے تسلسل کی بات چل نکلی ہے تو نون لیگ ابھی کچھ ہفتے قبل اپنی مدت پوری کرکے اقتدار سے علیحدہ ہو ئی۔گزشتہ دس سالوں میں پنجاب جن سہولتوں ، آسودگیوں سے پرے تھا ،اگرچہ ان دس سالوں میں وہ وعدے مکمل پورے نہیں کیے گئے،مگر سندھ سے پنجاب کی حالت قدرے اطمنان بخش ہے۔ان دس سالوں میں کراچی کچرے کا ڈھیر بن گیا اور پنجاب میں صفائی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔پنجاب میں سڑکوں ،فلائی اوور کا جال بچھایا گیا ۔ہنرمندی اور ٹیکنیکل ایجوکیشن میں معیاری تعلیمی ادارے بنائے گئے۔سرکار کی فنانشل سپورٹ کے ساتھ ضرورت مند طالب علم ہنر سے آراستہ ہو کر روزگار حاصل کررہے ہیں ۔جنرل صحت اور جنرل تعلیم کے میدان وسیع کئے گئے ۔ہاں لیکن ابھی انفرادی نوعیت کے کام ایسے ہیں کہ جن پر سے صرف نظر کیا گیا۔رحیم یار خان ، بہاول پور ، ملتان ، مظفر گڑھ ، اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں عوامی رائے نون لیگ کی کاوشوں کو سراہتی ہے۔کچھ دن ہوئے ایک فرسٹ ایئر کے طالب علم سے مکالمہ ہو ا۔تعلیمی سرگرمیوں کا پو چھا تو جواب بڑا حیران کردینے والا تھا۔طالب علم کا کہنا تھا کہ ہوسٹل کا جو معیار نواز حکومت نے دیا ہے اس سے پڑھائی میں دل چسپی ،شوق کا اضافہ ہوا ہے۔ہم بحیثیت تنقیدی قوم ،بڑی چٹخارے دار تنقید کرتے ہیں۔اچھے عوامی کاموں کی تعریف کرنا ہمیں شخصیت کی تعریف محسوس ہوتی ہے۔
خوش ائند بات یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ 25 جولائی رکھ لی گئی ہے۔اس سے یہ ابہام دور ہوا ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوگے۔ کچھ قوتیں الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرانے کی درپے ہیں ۔نگراں حکومت کو چاہیے کہ وہ ن سازشی ٹولوں کو مؤثر حکمت عملی کے ساتھ کھڈے لائن لگائیں۔اس لئے کہ الیکشن دیدہ ہونے چاہیے،ان میں کچھ بھی نادیدہ نہ ہوں ۔نگراں وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک اپنا عہدے کا حق ادا کر کے تاریخی انتخابات منعقد کرائیں۔وزیر اعظم پر تمام پارٹیاں متفق ہیں اور یہ غیر متنازع شخصیت ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ یہ ایسی اسمبلیاں بنائیں کہ عوام پرانے گھاک و گھوسٹ سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں س۔ہمیشہ حلف برداری کی پر وقار تقریب میں جن وعدوں کی پاسداری کی جاتی ہے ، سیاست دان اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی چند روز میں ہی اپنے فرض سے وفاداری کا سبق بھول جاتے ہیں۔نگراں سیٹ اپ اب یہ بات یاد رکھے کہ ملک کو ایک اور جمہوری حکومت کے ہاتھوں میں دینے کی کیا تگ ودو کرنی چاہیے۔کیوں کہ یہ ملک کسی بھی غیر جمہوری حکومت کا بار نہیں اٹھا سکتا ۔اس لئے جمہوریت کے دس سال مبارک ہوں۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں