“کیماڑی اور افطاری”

میں نے کلمہ شکر ادا کرتے گاڑی سے نیچے قدم رکھا، کراچی کی گرمی جوں کی توں قائم تھی۔ بازار میں گہما گہمی تھی۔ روزے دار اپنی افطار کا سامان خریدنے میں مگن تھے۔ ریڑھیوں، ٹھیلوں کی بہتات تھی۔ بریانی کے ٹھیلے پر رش تھا۔ پلاو خریدنے لوگ جمع تھے۔ سامنے کی جانب ایک خان بھائی نے برف کی بڑی چٹانیں بوریوں میں لپیٹ رکھیں تھیں۔ ان کے ہاتھ میں سوا نما تیز دھاری آلہ تھا جس کو وہ برف کے بڑے ٹکڑے کے کلیجے میں پیوست کرتا، بڑا ٹکڑا چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا اور وہ ارگرد لگے گاہکوں کے جھمگٹے میں سے کسی ایک کو تھما دیتا۔
قطار کا رواج یہاں بھی نہیں تھا جس کی زیادہ بلند آواز اس کا پہلا نمبر۔ پھل فروش گاہکوں سے مول تول میں مگن تھے۔ آگے ایک جانب پکوڑے سموسے والا پسینے میں شرابور پکوڑے تل رہا تھا۔ وہ اپنی شہادت کی انگلی کو ماتھے پر پھیرتا، اور پھر ہاتھ کو ایک طرف جھاڑ کر ٹب میں گھلے بیسن کے محلول کو اٹھا کر کڑاہی میں ڈال رہا تھا۔ ابلتے تیل میں پسینہ ملے پکوڑے سرخ ہو رہے تھے اور گاہک ہاتھوں ہاتھ لے کر ہنسی خوشی گھر کی سمت بڑھ رہے تھے۔ سامنے کچھ لوگ سائبان تلے دھوب سے بچاو کا سامان کر رہے تھے۔ دو لوگ ایک تھڑے پر قابل اعتراض حالت میں پاوں پسارے بیٹھے تھے۔ ٹوٹی سڑک پر پانی بکھرا، کیچڑ بن رہا تھا۔ لوگ اور موٹر سائیکل ایک دوسرے کی مخالف سمت آجارہے تھے۔ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ با پیادہ زیادہ ہیں یا سوار۔
میں دھول آلود قصبے کی گندی گلیوں میں اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ کچی گلیوں میں گھٹر کے کھلے ڈھکن کسی کی ڈبکی کے منتظر تھے۔ کچرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ کچھ بچے گلی میں کھیل رہے تھے تو کچھ گھر والوں کے احکامات کی بجاآوری میں دکانوں کا رخ کیے ہوئے تھے۔ میں عمر خان روڈ پر مڑا اور اپنے ٹیچر کے گھر کی طرف بڑھنے لگا جہاں وہ میرے ہی منتظر تھے۔ میں نے دوست کے فون کے بعد انہیں مطلع کر لیا تھا۔ میں نے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے ایک بچے کو بھیج دیا۔ میں گلی کی نکڑ پر کھڑا تھا۔ ایک بچہ آیا، قریب آکر منتظر نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس نے نگاہیں سامنے بازار سے آتی بھیڑ پر جما رکھیں تھیں ایسے میں میرا فون بجنے لگا۔
فون اٹھایا تو میزبان کی آواز ابھری۔ آئے نہیں؟ سر راستہ!! میں نے لڑکا بھیجا ہے انہوں نے میری بات کاٹتے ہوئے اس لڑکے کا نام بتایا اور محل و وقوع پر روشنی ڈالی، میں نے قریب کھڑے مسکین صورت لڑکے کا نام لے کر پکارا تو وہ جھینپ سا گیا اور شرمندہ شرمندہ سا میری طرف بڑھا۔ مجھ سے بیگ لیا اور آئیں کی آواز کے ساتھ مقامی رہبر کا رول ادا کرنے لگا۔ چند منٹوں بعد ہم گھر پہنچے تو عبدالحق صاحب کو منتظر پایا۔
تھکاوٹ سجے چہرے کو مسکراہٹ و اپنائیت سے ملے، راکھ ہوتے چہرے پر نظر ڈالی اور مجھے بیڈ پیش کرتے ہوئے بولے: پہلے نہا لو پھر آرام کرو، باقی باتیں بعد میں۔ میں نے تولیہ بغل میں دابا اور نہانے غسل خانے کا رخ کیا۔ نمک ملے نیم گرم پانی سے جسم کی ٹھکور کا انتظام موجود تھا۔ واپس آیا تو بیڈ میرا ہی منتظر تھا۔ میرے جسم کی تھکاوٹ نے غنیمت جانا اور بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں اجنبی شہر کی بجائے ایک ایسی وادی میں پہنچ گیا تھا جس میں دنیا بھر کے انسان اپنی آدھی زندگی گزارتے ہیں۔ موت کے عارضی تجربے سے روشناس ہونے کے بعد جب آنکھ کھلی تو گھڑی پانچ بجا رہی تھی۔
میزبان نے مسکراہٹوں سے اس وادی سے واپسی پر استقبال کیا اور پھر ہم گفت و شنید میں مصروف ہو گئے۔ روزہ ہے؟ انہوں نے پوچھا۔ جی! الحمدللہ۔ اچھا افطاری ساتھ کریں گے۔ روزے کا نام لیتے ہی میرے خالی پیٹ میں خول اٹھنے لگے، بھوک، پیاس ستانے لگی تھی۔ اور حالت “ٹچ می ناٹ” سی ہو رہی تھی۔ مجھے گھر بہت شدت سے یاد آرہا تھا۔ امی جان کا چہرہ دھندلی آنکھوں کے سامنے ابھرتا اور ابھر کر غروب ہو جاتا۔ مجھے گزشتہ رمضان یاد آتا جب امی اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بلائیں لیتیں، کوئی اگر کوئی کام بتاتا تو صاف کہہ دیتیں نہیں! روزہ ہے۔ حتی الامکان خود کوئی بھی کام بتانے سے گریز کرتیں تھیں کہ بیٹا روزے میں تھک جائے گا۔ روزے کی حالت میں کسی سفر سے واپسی ہوتی تو کہتیں ہائے! کتنا سا منہ ہو گیا عبدل کا۔ حالانکہ منہ اتنا ہی ہوتا تھا جتنا عام حالت میں ہوتا تھا۔ لیکن پتا نہیں کیسے بھوک سے افاقہ ہو جاتا تھا اور پھر کہتیں بس پتر! افطاری ہوا ہی چاہتی ہے۔ مائیں اولاد کے لیے کتنا جھوٹ بولتی ہیں ناں! کہیں گی مجھے بھوک نہیں، تم کھاو، میں نے کھا لیا وغیرہ۔ ہر بات میں اولاد کا خیال؛ اور اولاد۔۔!!!؟
افطاری کا وقت قریب ہوا تو عبدالحق صاحب نے دسترخوان بچھایا، مختلف کھانے کی چیزیں سجائیں، تین چار قسم کے مشروبات لائے اور دعوت افطار دی۔ باپ کا رول ادا کرتے ہوئے انہوں نے تکلف برطرف کی تلقین کی۔ ہم نے افطاری کی، پکوڑوں پر نظر پڑی تو بازار کا پکوڑا فروش یاد آیا استفسار پر پتا چلا کہ بلا جھجک، بغیر شک و شبہ، بن منہ بنائے، کھا سکتے ہو گھر کے بنے ہیں، بازاری نہیں۔ افطار کیا، نماز سے فراغت کے بعد ایک نشست مزید لگائی۔ کھانا تناول کیا اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔
مجھے قیام اپنے دوست کے پاس کرنا تھا سو اجازت لی اور نکل کھڑا ہوا۔ ٹیکسی اونچی اونچی عمارتوں کو پیچھے دھکیلتی آگے ہی آگے بڑھ رہی تھی۔ ہم علاقہ روئسا سے گزر رہے تھے۔ صاف ستھری سڑک، خوبصورت مکانات، کوٹھی بنگلے، بازاروں میں خوب چہل پہل تھی۔ مسجدیں آباد، کہیں کہیں سے تراویح میں قرآن کریم کی تلاوت کی گونج سنائی دیتی، مسجدیں خوب روشن اور مسلمان جذبہ ایمانی سے سرشار، رب تعالی کے سامنے سربسجود۔
ٹیکسی کراچی کے ایسے حصوں سے گزر رہی تھی جو میرے لیے اجنبی تھے۔ میری دوڑ کیماڑی سے شارع فیصل تک تھی۔ شاہراہوں اور چوراہوں سے ہوتے ہوئے صرف اتنا اندازہ ہو پاتا کہ علاقہ روئسا ہے یا غرباء؟ چوں کہ صفائی ستھرائی کا انتظام تاحال کووں، چیلوں اور شکروں کے سپرد ہے۔ کہیں کتے بھی ڈھیروں پر نظر آجاتے ہیں یا پھر خانہ بدوش کچھ چنتے اور کوڑے کرکٹ میں سے اپنے کام کی چیزیں تلاشتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ ایلیٹ کلاس کے علاقوں کی صفائی قابل دید ہے۔ کہیں کوڑا کرکٹ نظر نہ آئے گا۔ کچرادان کا ٹھیک استعمال ہو گا۔ وہ لوگ کچھ خود صفائی کا خیال رکھتے ہیں تو کچھ متعلقہ شعبہ وہاں پر زیادہ ایکٹیو ہے۔
جب کہ متوسط اور غریب علاقوں میں مسائل کا انبار ہے کچھ ان کا اپنا بنایا ہوا تو کچھ حکومت کا عطا کردہ۔ صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔ گلیاں کچی ہیں، کچرے کے ڈھیر جابجا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کی قلت ہے۔ یہاں کے لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھتے اگر کچرادان متعلقہ ادارے نے وہاں رکھوا بھی دیا ہے تو لوگ اس کی صفائی کا بہت خیال رکھیں گے۔ کچرا اس میں پھینک کر اسے گندہ کرنے سے احتراز برتتے ہیں۔ وہ اندر سے خالی ہوگا جب کہ اس کے اردگرد کچرے کا ڈھیر لگ جائے گا۔ کچرادان خالی پڑا منہ چڑائے گا۔
ہم ایک بلند عمارت کے پاس جا کر رکے، جہاں چاروں طرف عمارتیں، مارکیٹیں رات کے سمندر کی سطح سے نیچے سانس لے رہے تھے۔ چند منٹوں بعد دو چار گاڑیاں گزر جاتیں۔ میں نے گاڑی سے اتر کر گھنٹی بجائی تو سناٹے میں تیز بیل سنائی دی، چند لمحوں بعد سیڑھیوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔ کوئی سیڑھیاں اترتا ہوا آرہا تھا۔ ٹھپ، ٹھپ، ٹھپ آہستہ آہستہ وہ دروازے کے قریب پہنچا اور دروازہ کھول دیا۔ سامنے تیکھے نقوش والا ساجد ٹوپی پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ابھی ہی مسجد سے آیا ہو۔ بہت دیر کر دی یار تم نے؟ اس نے کہا اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ آو اندر، پھر اس نے دروازہ بند کیا اور ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
اچھا سب باتیں بعد میں، یہ بتاو کھانا کھاو گے نا؟ اس نے فریج سے پانی نکالتے ہوئے پوچھا۔ نہیں، میں کھا چکا ہوں۔ بیٹھو باتیں کرتے ہیں۔ وہ بیٹھا، کچھ حال احوال لیے، مجھے نرم بستر پر بیٹھتے ہی جمائیاں آنے لگیں تھیں۔ اس نے میری آنکھوں میں تیرتی نیند دیکھی، جمائی لے کر میرا ساتھ دیا اور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا نہیں؛ تم سوو، بہت تھکے ہوئے لگتے ہو۔ صبح کھل کر باتیں ہوں گی اور پھر میری آنکھیں بند ہوتی گئیں اور میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں