کتاب نے کتاب کو دبادیا

ایک زمانہ تھا جب کتابوں کو پڑھنے پڑھانے کا دور تھا۔ مجھے فخر ہے کہ میں اسی دور کا ہوں اور میری طرح لاکھوں کتابوں کے اسی دور کے ابھی حیات ہونگے۔ جس بات کا میں حوالہ دینے والا ہوں اس کو آج کل کی نسل نے شاید ہی پڑھا ہو لیکن میری عمر کے ہزاروں افراد نے نہ صرف پڑھا ہوگا بلکہ اس کا ایک ایک لفظ ان کو اب بھی اس طرح یاد ہوگا جیسے کتاب ان کی آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی ہو اور وہ اس کو پڑھ رہے ہوں۔

کتاب کا ایک کردار تانیث اور ایک کردار تذکیر اور بات ہو رہی ہے کتابوں کی۔ ہر دو فریق کا دعویٰ یہ کہ وہ ہر کتاب کا مطالعہ نہایت ذوق شوق سے کرتے ہیں۔ کتاب ہمیشہ تانیث ہی کی جانب سے پیش کی جاتی تھی جو تذکیر بہت اشتیاق سے قبول کر لیا کرتے تھے لیکن مصروفیات سے کہیں زیادہ لاپرواہیاں کتاب کے مطالعہ کی نوبت ہی نہیں آنے دیا کرتی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ جب اگلی بار ملاقات ہوتی اور کتاب پر تبصرہ کئے جانے کا کہا جاتا تو حضرت اتنی مہارت کے ساتھ تبصرہ کیا کرتے تو فریق مخالف شاید اتنا حیران نہ ہوتا ہو لیکن وہ خود کتاب پر کئے گئے تبصرے پر عش عش کر اٹھتے تھے۔ فرماتے، دیکھے کتاب بہت ہی خوب ہے اور اس کا لکھنے والا لائق تحسین و تعریف ہے۔ اس نے کیا خوب کتاب لکھی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ لیکن اگر وہ فلاں فلاں واقعہ کو کچھ اس انداز میں بیان کردیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ فریق مخالف ان حضرت کی بات پر کافی مطمئن ہوتا اور جاتے جاتے کوئی اور نئی کتاب ان کے حوالے کرجاتا۔ اس کتاب کے ساتھ بھی وہی حشر ہوتا اور وہ فریق مخالف کو ہر بار حیرت انگیز طور پر مطمئن اور خوش کرنے میں کامیاب ہوجایا کرتے۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ چلتا رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی ہی دوست کو بنا مطالعہ خوش اور مطمئن کرتے رہے لیکن اپنے ضمیر میں ہمیشہ کبیدگی محسوس کرتے رہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ کسی طور مناسب بات نہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ وصول کی جانے والی کتاب کو پڑھ بھی لیا کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کبھی اِدھر اُدھر کی آئیں بائیں شائیں ان کی شرمندگی کا سبب بن جائے اور انھیں اپنی دوست کے آگے خجالت اٹھانا پڑے۔ یہ سوچ کر انھوں نے دل میں کئی بارعہد کیا کہ وہ آئندہ دی جانے والی کتاب کا ضرور مطالعہ کیا کریں گے لیکن عادت اتنی پختہ تر ہو چکی تھی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود وہ اپنے عہد پر قائم رہنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ وقت گزرتا رہا اور ان کی جھوٹی دھاک ان کی اپنی دوست پر بیٹھتی چلی گئی۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ شدید بیمار ہوگئے۔ بیماری کی حالت میں عموماًحساس انسان کچھ زیادہ ہی حساس ہو جاتا ہے۔ بیماری طویل اورکسی حدتک خطرناک صورت اختیار کرلے توحساسیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی کچھ حضرت کے ساتھ ہوا۔ جوں جوں بیماری طوالت اور پیچیدگی اختیار کرتی گئی دوست کے ساتھ کئے گئے ہوائی تبصرے ان کے دل میں چرکے لگانے لگے۔ احساس ہوا کہ ان کو اپنی معصوم دوست کے ساتھ اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مطالعہ نہیں کیا تھا تو جوبات سچ تھی وہ کہہ دینی چاہیے تھی۔ بتادینا چاہیے تھا کہ مصروفیت یا تساہلی کے سبب کتاب کا مطالعہ نہ کرسکا۔ یہ سوچ کر عہد کیا کہ اب جب بھی ملاقات ہوئی اور دوست نے کوئی کتاب مطالعے کیلئے پیش کی تو نہ صرف اس کتاب کا مطالعہ کرونگا بلکہ ماضی میں کی گئی دروغ گوئی کا بھی اعتراف کرکے معافی طلب کرلونگا۔ یہ سوچ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا محسوس ہوا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی دوست جب بھی کوئی کتاب مطالعے کیلئے پیش کرتیں تو فرمایا کرتیں کہ کتاب بہت ہی عمدہ ہے اور اس کے لکھاری نے بھی کتاب لکھنے میں کمال کر دیا ہے۔ تبصرے میں بھی شریک ہوتیں اور کتاب کے ہر ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو فرماتیں۔

اِدھر دل کا بوجھ ہلکا ہوا اُدھر ان کو اطلاع ملی کہ تیمارداری کیلئے تشریف لے آئی ہیں۔ دل کو پکا کیا اور جب روایتی مزاج پرسی اور سلام و دعا سے فراغت ملی تو سارا احوال کہہ سنایا اور معافی طلب کی۔ تمام احوال سن کر ان کی دوست نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ ان کی معذرت قبول کی اور ان کی بیماری کا خیال کرتے ہوئے تسلی دی کہ اس میں ایسی پریشانی کی کیا ضرورت ہے۔ پھر جاتے جاتے ایک کتاب اور پیش کی۔ کتاب اور خالق کتاب کا تعریف کی اور کہا کہ چلیں کوئی بات نہیں آپ اس کامطالعہ ضرور کیجئے گا، مجھے تو یہ کتاب بہت ہی پسند آئی۔ اتنا کہہ کر رخصت چاہی اور واپسی کی راہ لی۔

دل کی ساری باتیں رکھ دینے کے بعد ادھر دل کا بوجھ ہلکا ہوا اُدھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ صحت بحال ہوتی چلی گئی۔ جب طبیعت اچھی طرح بحال ہوئی تو کتاب کا خیال آیا۔ اٹھے، میز پر رکھی ہوئی کتاب اٹھائی اور چاہا کہ اسے کھول کر پڑھا جائے لیکن یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ اس کتاب کے بہت سارے اوراق آپس میں جڑے ہوئے تھے اور جراحی کے طالب تھے۔

بہت زور شور کے ساتھ “اسپائی کرانیکلز”ٗ کا شور اٹھا۔ ایک ایسی کتاب جو ایک دوسرے کے دشمن ممالک کے ساتھ تعلق رکھنے والے نہایت حساس اور جاسوسی اداروں کے سربراہوں نے مل کر لکھی تھی جو بجائے خود ایک چونکادینے والی خبر تھی۔ پاکستان کی آئی ایس آئی کا سربراہ اور ہندوستان کی خفیہ”را” کے سربراہ کا مل کر کوئی کتاب لکھنا کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کو سنگینی کا درجہ نہیں جاتا اور پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ کتاب کے سلسلے میں پاکستان سے باہر کئی ممالک میں دونوں کے متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور نہ جانے کتنی راتیں اس سلسلے میں کالی ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر شور بلند ہوا اور شوروغوغا جی ایچ کیو تک بھی سنا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا رد عمل سامنے آیا اور سابق سربراہ آئی ایس آئی کو “وضاحت” کیلئے طلب کیا گیا اور ترجمان پاک فوج نے بیان دیا کہ ہم اس معاملے کی مکمل تحقیقات کریں گے اور عوام کے سامنے حقائق کو لائیں گے۔

معاملہ کیونکہ نہایت سنجیدہ تھا اس لئے اس قسم کے ایکشن کی توقع تھی لیکن کسی تحقیق کو مکمل حقائق کے ساتھ عوام کے سامنے لانے والی بات میں کتنی صداقت ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ہمارے ٹی وی چینلوں پر تو اس بات کو بہت ہوا نہیں دی گئی البتہ سماجی ویب سائیڈ پر اسے کافی اچھالا گیا۔ جب تک میڈیا یا سوشل میڈیا کے ہاتھ کوئی اور طوطا نہ لگے اس وقت تک پہلے “طوطے” کی جان نہیں چھوٹا کرتے۔

ہمارے ملک میں کچھ ماہ قبل بڑے بڑے خود کش حملے ہوتے رہے ہیں۔ ایک حملے کے بعد جب تک کوئی اور دھماکہ نہیں ہوجاتا تھا پہلے کی کمینٹری جاری رہا کرتی تھی اس طرح پہلے دھماکے کی خبر دوسرے دھماکے میں، کسی پہلے بڑے دہشتگردی کے واقعے کی خبرکسی دوسری دہشتگردی کی خبرمیں دب جایا کرتی تھی۔

ابھی “اسپائی کرانیکلز” کتاب کی ہوا چلی ہوئی تھی کہ ایک اور کتاب میدان میں کود پڑی یا کدادی گئی۔ ریحام خان کی وہ کتاب جو ابھی شائع بھی نہیں ہوئی ہے اس نے بنا کسی اشتہار وہ شہرت حاصل کرلی جو پاکستان میں شائع ہونے والی کتاب کو نہ مل سکی۔

ریحام کی کتاب کے وہ سارے اوراق جو شاید ریحام کے علم میں بھی نہ ہوں بازار میں ایسے کودے کہ الامان و الحفیظ۔ شہرت پاکستان سے نکل کر دنیا کے بہت سارے ممالک تک جا پہنچی۔ اس پر سوشل میڈیا سے لیکر لائیو چینلوں پر وہ غدر مچا کہ ہر چینل مچھلی بازار بن کر رہ گیا یہاں تک کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ اس شور کا نتیجہ یہ ہوا کہ “اسپائی کرانیکلز” پر مچنے والا شور ایسا دبا کہ کوئی ایک چینل، کوئی لکھاری، کوئی کالم نگار، کوئی ٹی وی اینکر یا کوئی تجزیہ نگاراب سلسلے میں بات کرتا تک دکھائی نہیں دیتا۔

یہ بات محض کتاب تک ہی محدود نہیں۔ ہر بڑے حادثہ ہر دوسرے بڑے حادثے میں دب جاتا ہے یا دبادیا جاتا ہے۔ دھرنا تھا تو ہر سودھرنا ہی دھرنا تھا۔ اے پی سی نے 126 دن کے بے ہنگم شور کو دباکر رکھ دیا۔ ضرب عضب ردالفساد میں دب گیا۔ پانامہ نااہلی کی نذر ہوا۔ نااہلی کا شور نیب کھا گئی۔ ریمنڈیوس قصاص سے ختم کردیا گیا۔ پاکستان میں اسی طرح ہوتا چلا آرہا ہے اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ سلسلہ کبھی ختم ہوجائے گا یا صور پھونکے جانے تک اسی طرح چلتا رہے گا۔

یہ باتیں تو یونہی ضمناً بیان کی ہیں۔ اصل مسئلہ دوکتابوں کا ہے۔ ایک کتاب نے دوسری کتاب کو یوں دبایا کہ پہلی کتاب کا تمام شور اس کے آگے دب کر رہ گیا۔

ممکن ہے کہ ان کتابوں کے ذکر پرکوئی کہے کہ تمہید میں باندھے گئی باتوں سے ان کتابوں کا کیا تعلق بنتا ہے تو میں اسی جانب لوٹ رہا ہوں۔

بات یہ ہے کہ وہ کتابیں جو تانیث تذکیر کو دے کر یہ کہتی تھی کہ کتاب بہت عمدہ ہے اور تذکیر فرماتے تھے کہ واہ کیا بات ہے اور لکھنے والے کی تعریفوں کے پل باندھا کرتے تھے ان کو نہ تو تانیث نے کبھی پڑھا تھا اور نہ کبھی تذکیر نے۔ یہ کتابیں بھی جو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور را کے سابق سربراہ نےلکھی یا ریحام خان کی وہ کتاب جو ابھی شائع ہی نہیں ہوئی کیا کسی ایک تجزیہ نگار، مبصر، اینکر، کالم نویس، نقاد یا لکھاری نے پڑھی؟۔ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے اوراق ابھی تک آپس میں اسی طرح جڑے ہوئے ہیں اور پیپر نائف سے اسی طرح کی جراحی کے طلب گار ہیں جس طرح تانیث کی دی ہوئی کتابوں کے صفحات ایک دوسرے جڑے ہوئے ہوتے تھے اور پیپر نائف سےجراحی کے طلب گار ہوا کرتے تھے۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور سماجی ویب سائیڈ پر شور اسی طرح مچا ہوا ہے جیسے بنا مطالعہ کئے تذکیر و تانیث ایک دوسرے پر اپنے مطالعے کی دھاک بٹھا یا کرتے تھے۔ ان دونوں میں ایک تو پھر بھی اپنے ضمیر پر نادم ہوگیا تھا لیکن ایک وہ بھی تھی جس نے تیمارداری کے بعد کسی بھی شرمندگی کا اظہار کئے بغیر جاتے جاتے جڑے صفحوں کی کتاب یہ کہہ کر حوالے کی کہ اسے ضرور پڑھ لینا،  بہت عمدہ کتاب ہے۔

میں نے بہت ہی سلیس اردو میں اپنی بات بیان کردی امید ہے کہ پاکستان کے سارے شوروغوغا مچانے والے اگر واقعی “تذکیروں” میں سے ہیں تو اپنے اپنے دلوں کا بوجھ ضرور ہلکا کرنے پر غور کریں گے ورنہ دنیا ان کو “تانیثوں” میں شمار کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں