کتنے فسانوں کا عنوان بنا پیام عید

رمضان المبارک میں اطاعت و بندگی کا مجسم بن کر نمونہ عمل پیش کرنے والوں کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ نے “عید” کی شکل میں ایک خوبصورت تحفہ اتارا ہے “عید” تو روزہ دار کے لئے دنیاوی انعام ہے اس  سے بڑھ کر انعام تو وہ ہے جو انھیں آخرت میں اللہ کے دربار میں حضوری کے وقت حاصل ہو گا۔

اس وقت ماہ صیام اورعید  ایسے موقع پر آیا ہے جب عالم اسلام شام اور فلسطین میں جاری کشت و خون پر حزن و ملال میں مبتلا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان مظلوم مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو اور مسلم ممالک کو ان کی پشتیبانی کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

                   عید کی یہ ساعتیں اس گھر پر بھی سایہ فگن ہیں جن کی پیاری بیٹی سبیکا شیخ روزے کی حالت میں گولیوں کا نشانہ بن گئی اللہ اس جانکاہ حادثے پر متاثرہ  گھرانے کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

       عید کی ان ساعتوں میں قوم کی بیٹی  وہ عافیہ صدیقی بھی یاد آئی جو اغیار کے زنداں میں اپنے ناکردہ جرائم کی سزا بھگتے ہوئے حکمرانوں کی ملت فروشی، ضمیر فروشی، بے حسی اور غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف کے بدلے میں قوم کی بیٹی کو واپس لانے کے زریں مواقعوں کو ضائع کرتے ہوئے یہ باور کروایا گیا کہ امریکیوں کے مقابلے میں پاکستانیوں کی جان و آبرو کوئی معنی نہیں رکھتی۔ صد حیف کہ جب یہ حکمران اس حد تک  گر سکتے ہیں کہ قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اغیار کے حوالے کریں تو کیا امید کی جا سکتی ہے ۔

                  اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا “بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سےمحبت رکھتے ہیں ” یہاں طرز حکمرانی یہ ہے کہ  عوام کو بنیادی سہولیات تک میسرنہیں ۔انصاف،روزگار، امن وامان کے گمھبیر مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ماہ مقدس کا استقبال ہی بجلی کی معطلی اور ترسیلی نظام کے شدید بحران سے ہوا۔  یہاں تک کہ سحر و افطار کے مواقعوِں پر بھی بجلی کی ترسیل ممکن نہ بنائی جا سکی۔ سولہ سے بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے بجا طور پر حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی کہ چار سال میں بحران کو جڑ سے ختم کرنے کے بلند و بانگ عزائم کے باوجود اپنی رخصتی پر بھی بجلی کے بحران کا خاتمہ تو کجا اس میں معمولی تخفیف بھی نہ کر پائی۔ اگر بجلی چوری کا معاملہ ہے تو محکمہ بجلی کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیئے مؤثر اقدامات کیوں نہ اٹھائے گئے۔ بجلی چوری کے خلاف مؤثر کاروائی نہ کرنا اور عام عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں تڑپانا کہاں کا انصاف ہے؟مگر جہاں حکومت جیسا ادارہ ہی اپنی ذمہ داری کا حق ادا نہ کر پا رہا ہو وہاں دیگر  ادارے  بھی ضابطہ اخلاق سے محروم ہی ہوں گے۔

         عید سے قبل ڈالر ، ڈیزل اور پیٹرول مہنگا کر کے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا گیا ہے ۔ بیرونی قرضوں کا جی ڈی پی 6.1 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی، چالیس سال سے ڈیم نہ بننا، بجلی کی ٹرانسمیشن صلاحیت نہ بڑھنا ایسے  مسائل ہیں  جو سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔

   انہی حالات میں حکومت اپنی معیاد پوری کر چکی ہے اور ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ہم شنگھائی تعاون کی تنظیم کا مستقل رکن ہیں سی پیک جیسے بڑے منصوبے کے حامل، مگر مستقبل میں ہمیں جن سماجی، معاشی اور سیاسی و نظریاتی بحرانوں کا ہمیں سامنا ہے اس کا ادراک من حیث القوم سب کو ہو نا چاہیئے ۔ تبدیلی کی ضرورت ایک عرصےسے محسوس کی جا رہی ہے، کہیں کہیں سے نئے نظام کی صدا بھی بلند ہوئی ہے لیکن عرض یہ ہے کہ تبدیلی یا نئے نظام کی آمد کے پیچھےکوئی معجزہ کار فرما نہیں ہوتا بلکہ یہ راستہ قربانیوں کا تقاضہ کرتا ہے ۔ جب سیاست دولت کمانے ، محض اقتدار اور طاقت کے حصول کا ذریعہ بن جائے تو پھر اصول و نظرئیے کی سیاست ختم ہو جاتی ہےاور اس کی جگہ آج کی موجودہ سیاست جنم لیتی ہے اسی لئے موجودہ منظر نامے میں سیاسی قیادتیں نہ تو قومی پالیسی بنانے کی اہل ہیں نہ ان میں وہ فہم و فراست ہے کہ کوئی قابل قبول ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کریں لہذا ایسا طرز حکمرانی سامنے آیا جس نے لوگوں کو ریلیف کم، مشکلات میں زیادہ مبتلا کیا ہے۔ انتظامی معاملات میں کرپشن اور لوٹ مار ہماری سیاسی و سماجی روایات کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لئیے مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ، امن وامان اور سماجی و قانونی انصاف کے لئے پریشان عوام کا حکومت پر سے اعتبار ختم ہو چکا ہے جو کہ ایک خطرناک روش ہے ۔ اور سیاسی قوتوں کو اس کا ادراک کرنا چاہیئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی ریاست و سیاست ، معیشت و سماجیات سمیت دیگر قومی معاملات کو از سر نو تشکیل دینا ہو گا۔

               رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رخصت ہوا۔  مگر 27 ویں شب کو معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد بحرانوں کے چنگل میں پھنسی ابھی تک اپنی شناخت کےلئے سر گرداں ہے ۔ جب تک اس ملک  کو اسلامی شناخت نہ ملے گی مشکلات و مصائب  اور بحرانوں سے دامن نہیں چھڑایا جا سکتا۔  اس دعا کے ساتھ کہ آئندہ آنے والے دن اہل اسلام اور ملک و قوم کے لئے اچھے وقت کی نوید ثابت ہوں سب کو “عید مبارک”

حصہ

جواب چھوڑ دیں