تقویٰ اور غرورِ تقویٰ

                ارشاد رب کائینات ہے کہ “یہ ایک ایسی کتاب (قرآن حکیم) ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ یہ ہدایت ہے متقیوں کیلئے” (سورة البقرہ، 2)۔

                تقویٰ کے لغوی معنی ڈرنے، خوف کھانے اور اپنے آپ کو ہرنقصان دہ کام سے بچانے کے ہیں۔ اصطلاحاً تقویٰ کے معنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف سے مراد یہ ہے کہ جو بھی فعل یا عمل اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے خلاف ہے اس سے حتی المقدور اپنے آپ کو بچا کر رکھنا اور صرف وہی امور انجام دینا جو کام معروف میں آتے ہوں۔ منکرات کی سخت سزا ہے جبکہ معروف میں خیروبرکت اور ثواب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں نیزاسلامی تعلیمات کی روشنی میں تقویٰ کے معنی ہیں گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا، اللہ کے لئے ممنوعہ باتوں سے اجتناب کرنا، اپنی زندگی کو اللہ کی اطاعت و فرمابرداری میں گزارنااور ہرہرقدم پر اللہ سے ڈرنا۔

                تقویٰ انسانی زندگی کا شرف ہے۔ یہ ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے علم، روحانی ترقی، کامرانیاں اور قرب الٰہی کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کا بغور مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ تقویٰ کے ذریعے خیر و برکت، اجر و ثواب، نیک بختی اور سعادت مندی کا حصول آسان ہو جاتا ہے چنانچہ جو لوگ دنیا میں متقیانہ زندگی گزاریں گے اللہ تعالی نے انھیں جنت کی خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت میں جہاں ان کا قیام ہوگا وہاں باغات ہونگے ، دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہونگی، عیش و آرام کی زندگی ہوگی۔اس کے بر عکس جن لوگوں نے، اللہ کے حکم کے خلاف زندگی گزاری، دنیا میں اللہ کی نافرمانیوں میں کمر بستگی اختیار کی، ان کے لئے سخت عذاب ہے اورانھیں دوزخ میں ڈالا جائے گا جہاں دہکتی ہوئی آگ ہوگی اوروہاں کی زندگی بہت اذیتناک ہوگی۔

                متقیانہ زندگی فقط عبادت کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی طرززندگی ہے جس سے معاشرے کے سدھار کو یقینی بنایاجاسکتا ہے۔ا گر یہ کہاجائے کی خداخوفی اختیار کئے بغیر یہ بات کسی طور ممکن نہیں کہ دنیا ایک پرامن اور پر سکون زندگی گزار سکے توبیجا نہیں ہوگا اس لئے کہ سارا کچھ اس ایک اللہ ہی کا ہے جس نے اس کائینات کو بنایا لہٰذا یہ بات طے ہے کہ بنانے والے (اللہ رب العالمین) ہی کی مرضی سے اس کائینات کو چلایا جائے گا اور چلانے والے اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی و منشا کا پابند کرلیں گے تو دنیا میں خوشحالی و شادمانی کا راج ممکن ہو سکے گابصورت دیگر دنیا کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

                ایک متقی نہ تو کم تولنے کا سوچ سکتا ہے، نہ کسی کو دھوکا دے سکتا ہے، نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ کسی سے انسانیت سوز سلوک کرسکتا ہے، نہ کسی برے کام میں شریک ہوسکتا ہے، نہ کوئی ایسا کام کرسکتا ہے جس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو اور نہ ہی اس کے ہاتھ پاوں اور زبان سے اس کے اڑوس پڑوس کے لوگ کسی اذیت کا شکارہوسکتے ہیں۔

                ان تمام باتوں کا اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس بات کو سمجھ لینا کوئی دشوار کام نہیں ہوگا کہ تقویٰ ہی ایسا راستہ جس پر چل کر ہم امن و امان کی ایسی منزل کو پاسکتے ہیں جس کی تلاش میں پوری دنیا سرگرداں ہے۔ امن و امان کی تلاش میں بے شک ایک عالم سرگرداں ہے لیکن کیوں کہ اس نے تقویٰ کی زندگی کو اختیار نہیں کیا ہوا جس کا تقاضہ ہر فردوبشر سے اس کا اللہ کرتا ہے اس لئے لاکھ تلاش و بسیار کے باوجود اس منزل تک پہنچنے میں ناکام نظرآتا ہے۔ آخرت میں تو تقویٰ ہی ایک ایسا راستہ ہے جو جنتوں کا حق دار بنا سکتا ہے لیکن دنیا بھی تقویٰ کی زندگی اختیار کئے بغیر جنت نظیر نہیں بن سکتی۔ اسلئے ہمیں چاہیے کہ ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس میں اللہ کی رضاشامل ہو۔

                اب تھوڑی دیر کیلئے ہم اس زندگی جانب آتے ہیں جو تقویٰ کے برعکس ہے۔ بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ بظاہر کوئی فرد بہر لحاظ زہدوتقویٰ کا ایک بہت اعلیٰ نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کی شکل و صورت، اس کی وضع قطع، اس کا رکھ رکھاو، اس کے لباس کی تراش خراش، اس کا علم، اس کا انداز تکلم اور بودوباش ایک اعلیٰ متقی ہونے کی مظہر دکھائی دیتی ہے اور اس کی یہی وضع قطع دیکھ کر دیکھنے والے اس کو پیرومرشد مان کر اس کی عقیدت میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اسے (نعوذباللہ) اپنا مالک و مولائے کل بناکر اس کے حضور سجدہ ریز تک ہوجاتے ہیں۔ ایسے کرنے والے تو نادان ہوتے ہی ہیں لیکن جو ایسا کرنے پر کسی بھی قسم کی برہمی کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ایسا ہوتے دیکھ کر اپنے دل میں طمانیت محسوس کرتا ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ بڑائی، فخر یا غرور کا شکار ہو گیا ہے۔ اور یہ غرور ہی تو تھا جس نے معلم الملکوت کو مردود بنادیا اور وہ تا قیامت لعین قرار دیدیا گیا۔

                غرور کے سادہ سے معنی بڑائی کے ہیں۔ ایک بڑائی تو یہ ہے ، دو افراد ہوں تو ان میں یا تو ایک بڑا ہوگا یا مان لیا گیا ہوگا۔ یعنی امیر، راہنما، راہبر، سر براہ وغیرہ۔ واضح رہے کہ بڑا مان لیا جانا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھ لینا، دو نوں میں فرق بہت بڑا ہے۔ آپ نے کسی کو اپنا بڑا مان لیا، گویا اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیا، اچھے کا بھی مالک اور برے کا بھی مالک۔ اب یہاں پر دو قسم کے رویے سامنے آسکتے ہیں۔ جس کو بڑا مان لیا گیا ہے وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے یا بہت ہی بڑا بن جاتا ہے۔ بڑاپن قربانی مانگتا ہے جبکہ بڑائی دوسروں سے قربانی چاہتی ہے۔ بڑا پن خادمیت سکھاتا ہے، بڑائی فرعون بنا دیتی ہے۔ بڑاپن عاجزیت پیدا کرتا ہے، بڑائی تکبر پیدا کرتی ہے۔

                بڑا ئی یعنی تکبر کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے، دولت، عزت، قبیلہ، نسل، خاندان، رنگ، علاقہ، زبان، ملک یاطاقت وغیرہ اوراسی طرح کی بیشمار اور چھوٹی بڑی باتیں مگر۔یہی ساری باتیں بڑے پن میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔

                جب مذکورہ باتوں میں سے کوئی چیز بھی انسان کو غرور اور کبریائی کی جانب نہیں لی جاتیں تو ابلیس ایک آخری چال چلتا ہے۔ وہ علم، زہد، تقویٰ، عبادت گزاری اور لمبے لمبے، بلکہ بہت ہی لمبے لمبے سجدوں کا غرور پیدا کردیتا ہے۔ جب اس چال کا غرور اور تکبر دل و دماغ میں جڑ پکڑ لیتا ہے تو اس کے بعد کوئی بھی رشدوہدایت کی دوا کام نہیں کرتی۔ ہر سامنے والا فرد ، سانپ، سنپولیا، بچھو، چھپکلی، چوہاِ ، چھچھوندر، کیڑا مکوڑا اور مکھی مچھر نظر آنے لگتا ہے۔

                یہی وہ زہر ہے جو ابلیس کے رگ و پے میں دوڑتا تھا، کائینات کا بے پناہ علم، ارض سماوات پر بلا روک ٹوک آنا جانا، فرشتوں کی صفوں میں بیٹھنا اور ان کا معلم الملکوت بن جانا۔ زہد و تقویٰ کا ’لبادہ اتنا دبیز کہ لبادے کے اس پار فرشتوں کی نگاہیں بھی نہیں جا ن سکیں کہ لبادے کے اندر کتنی خباثت ابلیس لعین کے اندر چھپی ہوئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو (نعوذ باللہ) اللہ سے بھی سوا سمجھنے لگا ہے۔

                ہم اگر اپنی ماحول پر نظریں دوڑائیں تو ہمیں اچھی طرح علم ہو جائے گا کہ ہم میں جو جہاں بھی ہے وہ خود سے سوا ہوکر اپنے آپ میں خدا بن بیٹھا ہے۔ اگر وہ سیاست میں ہے، علم میں ہے، مذہب میں ہے یا کسی بھی گروہ میں شامل ہے، اس کے آگے ہر دوسرا فرد خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو، سیاست سے ہو، علم کے شہسواروں سے ہو یا دنیوی ٹھیکیداروں سے، دھول، مٹی، کنجشک فروع مایہ، یک مشت خاک یا مکھی مچھر سے بھی کم حیثیت کا حامل ہے۔ کافر ہے مشرک ہے، مجوسی ہے اور لائق دار و رسن و گردن زدنی ہے۔

                فلاں پارٹی اونہہ، فلاں فرقہ ، لاشیں گرادو، دفائی ادارے، قابلِ تختہ دار۔

                یہ تراہکی ہیں، یہ کارمل ہیں، یہ نجیب والے ہیں، یہ ڈیزل کے ہیں، یہ سرخ پوش ہیں، یہ ”یا یا “ بہت کرتے ہیں۔ان کی پگڑی اس اس رنگ کی ہے، یہ خانقاہیں ہیں، یہ مزارات ہیں، یہ بارگاہیں ہیں، یہ مدارس ہیں اوریہ اسکول ہیں ۔

                بازاروں میں خریدوفروخت کرنے والے کیڑے مکوڑے ہیں، تفریح گاہوں میں پھر نے والے مچھر مکھی ہیں، پتلون والے بچھو سوٹ والے سانپ اور سنپولئے۔ سب کا قیمہ بنا کر رکھ دو، قتل کردو، ماردو، کاٹ دو، زمین کے خاکی رنگ سے چڑسی ہو گئی ہے، سرخ کردو۔

                یہ ہے زہد و تقویٰ ، دنیوی علم، توپ اور طیاروں کی کثرت، ٹینکوں اور میزائلوں کا تکبر اور اپنی جہالت بھری علمیت کا غرور جس نے اللہ کی سرسبز زمین کو سرخی میں تبدیل کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ایسا سب کچھ کیوں ہے؟، محض اس لئے کہ جو اس غرور میں مبتلا ہیں کہ ہم سے بڑھ کر اللہ کا لاڈلا کوئی نہیں وہ سب تکبر کے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور قوم موسیٰ کی طرح اپنے ہر رہنما سے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہی ”جا تو اور تیرا خدا لڑلے“۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں