نوازو عمران کیوں نہیں مل سکتے ؟؟ 

ارضِ پاک میں چہروں کی تبدیلی کے ساتھ مُلک کو جدید ریاست بنا نے کے لئے اگلے ممکنہ الیکشن کی تاریخ 25جولائی 2018ء قر یب ہے۔ ایسے میں بالخصوص معروف سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی اور بالعموم دیگرسیاسی پارٹیوں میں جیت کی حکمتِ عملی کے تحت گراس روٹر نظریاتی کارکنان کو کاٹ کر پیراشوٹرز اسپانسر افراد کو کارکنان کی حیثیت سے انتخا بی ٹکٹوں کی تقسیم اور کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے ساتھ ہی مُلک کے طولُ ارض میں الیکشن بہار کی گہما گہمی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ غرضیکہ، اَب پوری طرح سیاسی جماعتوں کے بال رومز میں رَت جگے شروع ہوچکے ہیں، اُمیدوار وں ، کارکنوں اور حلقے کے ووٹرز کو وارم اَپ کرنے کے لئے جیت کے ترا نے بجا ئے جارہے ہیں۔ جہاں شور و غل ایسا ہے کہ کان کے پردے پھٹے جارہے ہیں۔
تو وہیں ووٹرز کی آنکھ میں دھول جھونک کر ووٹ لینے کے لئے پرانے منشوروں پر وعدوں اوردعووں کی قلعی بھی چڑھا ئی جا رہی ہے یعنی کہ منشوروں اور نعروں کو دلکش و دلفریب بنا نے کا سلسلہ زوراور شور سے جاری ہے۔ شہرشہر اور گاؤں گاؤں ، گلی، محلوں، میدانوں ، شاہراہوں اور بازاروں میں الیکشن مہم کے سلسلے میں کارنر میٹگنز، جلسے اور جلوسوں کا ایک بازار گرما ہے۔
آج سیاسی جماعتیں کوچے کوچے کی دیواروں پر اپنے نعرے ، وعدے اوردعوے لکھ کر اور اپنے انتخابی نشانات بنا کر اِسے گندا کررہی ہیں۔ اپنے حلقوں میں انتخا بی اُمیدواراور اِن کے چیلے چانٹے دن رات نکلنے والی ریلیوں میں بغیر سائیلنسرموٹرسا ئیکلیں دوڑاکراور چیخ چِلآ کر علاقوں کو مچھلی بازا ر بنا ئے ہوئے ہیں۔
اِس حوالے سے قانون کے ہوتے ہوئے بھی لاقانونیت کا ہی راج قا ئم ہے اُمیدوار انتخا بی مہم میں مقررہ کردہ حد سے زیادہ خرچ کررہے ہیں ۔ جبکہ چیک اینڈ بیلنس کا پورا ایک نظام موجود ہے مگر افسوس کی با ت ہے کہ کسی کی اِس جا نب تو جہ نہیں ہے۔یعنی کہ نہ قا نون کی پاسداری کرنے والوں کو قانون توڑنے والوں کی گرفت کاکوئی خیال ہے اور نہ قانون توڑنے والوں کو بعد میں اپنے انجام کی کوئی فکر ہے۔ یہاں سب چلتا ہے۔ کیو ں کہ وطنِ عزیز میں یہ سوچ عام ہے کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے،دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔
بہر کیف ، ایسا صرف ستر سال سے پاکستان میں ہی ہورہاہے۔ اگر آج اِسے نہ روکا گیاتو پھر یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا۔ جبکہ آج کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ایسا تو ساری دنیا میں ایسا ہوتاہے وہاں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، اُن ممالک میں ایک سماں بن جا تا ہے، لوگ سڑکوں پر ہوتے ہیں؛ وہاں بھی اُمیدواروں کے حامی اپنے اُمیدوار کی جیت کے لئے انتخا بی مہم میں نعرے بازی کرتے ہیں ۔ وہاں بس، الیکشن مہم کا حصہ سمجھ کو مخالفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے ، وہاں بھی جیت کے لئے دوستی، دشمنی اور دُشمنیاں، دستیوں میں بدل جاتی ہے، مگر ایسا صرف الیکشن مہم تک ہی ہوتا ہے ۔ بعد میں سب کچھ خود ہی ختم ہوجاتا ہے۔
مگر بدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان میں ایامِ الیکشن کے شور میں شروع ہونے والی سیاسی چپقلش بعد میں نسلوں تک کی دُشمنیوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ جبکہ دنیا کی تہذیب یافتہ اقوام اور ممالک میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اِس لئے کہ وہاں اُصولوں پر اختلافا ت ہوتے ہیں اور اُصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تما م رنجشیں اور کدورتیں ختم بھی ہوجاتی ہیں ۔
کیو ں کہ وہاں برداشت ہے ۔وہاں تحمل مزا جی اور عفوودرگزر ہے۔ مگر توبہ توبہ ، میرے دیس پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اِس لئے کہ ہم میں برادشت ، صبر وتحمل اور عفوودرگزر سب ہی کچھ تو ختم ہوگیاہے۔ جبکہ ہمیں بھی اُصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اِس یقین کے ساتھ کہ الیکشن صبر و برداشت اور عفووو درگز کے بغیربے معنی ہیں۔ سو ہمیں بھی اِس بنیا د پر اپنی سیاسی اور ذاتی رنجش کو ختم کردینا چاہئے۔
بہر حال ، آج ہمیں بھی یہ اُمیدضرور رکھنی چاہئے کہ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن امریکا اور شمالی کوریا کے طرح نواز اور عمران بھی مل سکتے ہیں کیوں کہ آج جب ازل کے دُشمن امریکا اور شمالی کوریا اپنے مفادات کے لئے مل سکتے ہیں۔ اورجب ٹرمپ اور کم کا مصافحہ تاریخی لمحہ بن سکتاہے۔ توپھر اِسی طرح اپنے سیاسی، ذاتی مفادات اور اگلے ممکنہ انتخابات میں مخلوط حکومت بنا نے کے لئے کیوں نواز او رعمران نہیں مل سکتے ہیں؟
آج اِس پر کو ئی یہ نہ کہے کہ ایسا نہیں ہوسکتاہے کہ عمران خان اور نواز شریف نہیں مل سکتے ہیں۔ اُن کے لئے بس اتنا ہی عرض ہے کہ ارے بھئی ، یہ پاکستان ہے ۔ یہا ں ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے اور ممکن بھی پل بھر میں نا ممکن میں بدل جاتا ہے۔ میری اَرضِ پاک میں سب کچھ ہوسکتاہے۔ جب سابقہ ن لیگ کی حکومت اپنی ہی لاکھ مخالفتوں کے باوجودخود ہی آمر پرویز مشرف کو اِسے اِس کی بیماری کے علاج کے بہانے مُلک سے جا نے کی اجازت دے سکتی ہے۔ تو پھر یہ یہ بھی تو سوچیں، نواز اور عمران بھی مل سکتے ہیں۔ عنقریب وہ دن بھی آنے والا ہے جب یہ دونو ں بھی ایک دوسرے کو معاف کرکے بغل گیر ہو جا ئیں گے۔ بس خاطر جمع رکھیں اور آگے آگے دیکھتے جا ئیں۔ اگلے ممکنہ اور متوقع انتخابات سے قبل اور بعد میں بہت کچھ انہونے ہونے جارہے ہیں ۔ پھر کوئی یہ نہ کہئے کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں