راجعون

                قرآن میں راجعون کا لفظ کافی جگہ استعمال ہوا ہے، اصل میں یہ لفظ رجوع سے نکلا ہے۔

                رجوع کے معنیٰ ،ہیں واپس ہونا، مڑنا، لوٹنا، حائل ہونا، راغب ہونا، حاضر ہونا، التجا، نظر ثانی، وغیرہ۔

                ہم اکثر ایک لفظ بہت استعمال کرتے ہیں، رجوع کرنا، جس کا مطلب ہے مڑنا، پلٹ جانا،کسی بھی معاملے میں مشاورت کرنا، مخاطب ہونا وغیرہ۔

                رجوع آپ بیان کئے گئے جس معنوں میں بھی لے لیں، بظاہر اس میں بہت ہی سادگی نظر آئے گی لیکن جب تک ہم اس کی گہرائی میں نہیں اتریں گے، اس لفظ کی حقانیت کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکیں گے۔ میں کوئی عالم تو نہیں لیکن کوشش کرونگا کہ جس حد تک اس لفظ کو میں سمجھ پایا ہوں، دوسروں تک اس کو پہنچا سکوں (اللہ حامی و ناصر ہو)۔

                اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ،”بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”۔

“اے عیسیٰ، اب میں تجھے واپس لے لونگا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھالونگا” ۔۔۔۔ (آل عمران آیت55)

                “اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی، رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں اور پھر تمہارے درمیان کسی معاملے میں کوئی ۔نزع۔ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیردو“سورت النسا، آیت59

                “۔۔۔۔۔ داودؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا “ (سورت ص آیت 24)۔

                اسلامی عائلی قوانین میں ایک اصطلاح طلاق کے سلسلے میں استعمال ہوتی ہے ’طلاق رجعی‘ جس میں مقررہ وقت سے قبل بغیر نکاح کے تعلقات زن و شو استوار کئے جا سکتے ہیں (یعنی رجوع کیا جا سکتا ہے)۔

                اوپر دی گئی چار پانچ آیات اور حوالوں کی روشنی میں دل و دماغ میں تھوڑی سی کشادگی ضرور پیدا ہوئی ہوگی اور لفظ رجوع کا مفہوم کابی واضح ہوتا ہوا محسوس ہوا ہوگا۔

                یہ سارے حوالے ایک جانب بہت ہی واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ جب بھی اپنی اصلاح مقصود ہو، اپنے “اصل مرکز” کی جانب لوٹ جانا بہت ضروری ہے۔ یعنی جہاں سے کام میں بگاڑ پیدا ہوا ہو، جہاں سے تعلقات میں کوئی کشیدگی نے جنم لیا ہو، جس مقام سے تنازعہابھری ہوں، جہاں سے راستہ نظروں سے اوجھل ہو گیا ہو یا احساس ہورہا ہو کہ مزید بھٹکنے کے امکانات ہیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ٹھیک اسی مقام اور جگہ لوٹ کر آیا جائے تاکہ معاملات کوسیدھا کیا جا سکے۔ یہ طے ہے کہ اصل مرکزکی جانب مڑجانے کو علاوہ اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں بصورت دیگر رسوائی اور ذلت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

                یہاں میں تمثیلاً ایک بات رکھنا چاہوں گا۔ فرض کریں آپ کسی راستہ پر ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے کئی اور راستے نکلتے تھے، کسی ایک کا تعین آپ نے کیا ، لیکن کچھ دور چل کر آپ کو احساس ہوا کہ راہ کے انتخاب میں غلطی ہو گئی ہے، کیا خیال ہے، کیا آپ نے جس مقام سے غلط راہ کا انتخاب کیا تھا، وہاں لوٹے بغیراپنی منزل کا درست تعین کر سکتے ہیں؟، ہر گز نہیں، گویا غلطی کاسچے دل سے اعتراف کئے بغیر اصلاح احوال ممکن ہوہی نہیں سکتی۔لہٰذا جب تک آپ ٹھیک اس مقام تک واپس نہیں آجائیں گے جہاں سے راہ کا غلط چناؤکیا تھا، کسی صورت اپنی اصل منزل کا تعین نہیں کر سکیں گے۔ اپنی غلطی کا اعتراف اور اس کے بعد جہاں اور جس مقام سے غلطی سرزد ہوئی ہو وہاں تک واپس آنا اور پھر دوبارہ درست سمتوں کا تعین، یہی رجوع ہے اور ہر مرتبہ کسی بھی غلطی کے بعد رجوع کرتے رہنا ہی وہ واحد طریق یعنی راستہ ہے جس پر چلے بغیر منزل تک پہنچنا ممکن نہیں۔

                میں نے طلاق رجعی کا حوالہ دیا تھا، آپ کا کیا خیال ہے، یہ رجوع یعنی تعلقات زن و شو کیا بغیرمعافی تلافی ممکن ہے؟۔

                ہم ہزاروں معاملات میں عدالت سے رجوع کرتے ہیں، مختلف معاملات میں صاحب عقل دانش سے مشاورت کرتے ہیں، تو کیا یہ اپنی علمی کم جائیگی کا اعتراف نہیں ہوتا۔ زندگی کے بیشمار معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا حل صرف ہمارے اپنے پاس نہیں ہوا کرتا اور خصوصاً ایسے معاملات جو متنازع صورت اختیار کرجائیں تو ان کے حل کیلئے کسی ایسی ہستی کا بیچ میں پڑنا ضروری ہو جاتا ہے جو ان معاملات کی باریکیوں کا اداراک رکھتی ہو ورنہ نوبت کوئی بھی سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے میں منصف کو بیچ میں ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے اور سب سے بڑا منصف اللہ اور اس کے رسول (ص) کی ہدایات ہی ہوسکتی ہیں لہٰذا ایسے موقعہ کیلئے ہمیں قرآن اور سنت رسول اللہ (ص) کی جانب لوٹنا چاہیے اور اسی لوٹنے کو قرآن اور سنت رسول (ص) سے رجوع کرنا کہتے ہیں۔ اگر ایسے معاملات میں ذرا بھی تاخیر ہوجائے اور رجوع کئے بنا ہم اپنے تئیں مسئلے کا حل نکالنے بیٹھ جائیں، جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے، تو خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔

                پھر یہ کہ علاج معالجے کے لئے ہم کسی فلاسفر کے پاس، اور سیاسی معاملات کے لئے کسی شاعر کے پاس تو نہیں جاتے۔ گویا رجوع اسی سے کیا جا تا ہے جس کے پاس مسئلے کا حل ہو۔

                اب میں بہت اہم نقطہ کی جانب آوں گا اور آپ کی مکمل توجہ چاہونگا ۔

                کیا آپ واقعی مجرم ہوں تو عدالت میں پورے اعتمادکے ساتھ پیش ہو سکتے ہیں؟، کیا آپ کی کسی پوشیدہ بیماری میں سر تا پا آپ کا اپنا ہی ہاتھ ہو تو آپ کسی معالج کا سامنا بلا جھجک کر سکتے ہیں؟، کیا جس خاتون کو آپ نے دھتکار دیا ہو (طلاق رجعی) اس کے پاس دوبارہ بغیر اعتراف شرمندی جانے کی جسارت کر سکتے ہیں؟۔ ظاہر ہے ہر سوال کا جواب ’نہیں‘ کے علاوہ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

                اب ذرا غور کریں کہ ’ہم سب اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم کو لوٹ کر جاناہے‘کہتے ہوئے ہمیں کچھ خیال آتا ہے یا بس ایک جملہ ہے جو ہم بڑی آسانی کے ساتھ ادا کر کے جیسے اپنا فرض نبھا دیتے ہیں۔ کیا کوئی احساس ندامت؟، کوئی شرمندگی، کوئی خجالت یا جھجک ذہن کو پریشان نہیں کرتی؟۔ اگر جرم کے بعد عدالت کی پیشی پر، پوشیدہ بیماری جس میں سراسر اپنا ہی ہاتھ ہو، معالج کا سامنا کرتے ہوئے، طلاق رجعی پر فریق مخالف کے سامنے، اور گناہوں پر مغفرت طلبی پر اللہ کے حضور احساس ندامت اور شرمندگی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ واقعی معافی کے طلب گار ہیں اور اپنی غلط کاری و سیاہ بختی کے معترف ہیں۔ یہی رجوع ہے۔

                یاد رکھیں کہ جانا اسی کی جانب ہے، کوئی اور جگہ ہے ہی نہیں، در وہی ایک ہے اور کوئی در ہے ہی نہیں،اس لئے کہ جب بھی آپ لوٹیں گے اپنے اصل مرکز کی جانب ہی لوٹیں گے۔ اور وہی مرکز، مقام رجوع ہے یعنی وہ مقام جہاں سے آپ اپنے راستے سے بھٹک کر دنیا اور اس کی خواہشات کے اسیر ہو گئے تھے۔

                اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ نے جو کچھ بھی کمائی کی ہے اس کے ساتھ اس کی جانب لوٹیں گے۔کاش وہ کچھ لے کر جائیں جس کے باعث سر خمیدہ ضرور ہوں مگر اس کے حضور ہوں، شرمندگی کی وجہ سے نہ ہوں۔ آنکھیں نمدیدہ ضرور ہوں مگر احساس تشکر اس کا سبب ہو، خجالت اس کی وجہ نہ ہو (آمین)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں