عوام الناس اوراہل قلم ودانشورچیختے رہ گئے، کئی کئی دن تک مباحث کادورچلا ، لوگ واویلاکرتے رہے، ہرسوآوازیں بلندہوئیں ، سب نے سب کچھ کیامگرجونہ ہواوہ حکمرانوں سے کچھ نہ ہوا۔بھارت اپناکام کرتارہا، وہ دشمنی نبھاناخوب جانتاہے اسی لئے اس نے اپنے دشمن کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اسے بوند بوند کوترسادیا،اس نے جگہ جگہ ڈیم بنائے اورپھرپاکستان کوبنجربنادیا۔ہمارے حکمران بھی جانفشانی سے لڑے، ہرمحاذپراپنی مہارت کے خوب جوہردکھائے، کوئی لمحہ اورموقع نہ جانے دیاکہ جب اپنے دشمن کے لئے حکمرانوں نے زباں نہ کھولی ہومگریہ سب تواقتدارکی لڑائی تھی، دشمن بھارت یاپاکستان کاناطقہ بندکرنے والامودی نہیں بلکہ مخالف سیاسی پارٹی تھی،کرسی کے لئے سب کچھ کیاگیامگرجونہ ہوسکاوہ پاکستان کابھلاتھا، جونہ ہوسکی وہ عوام کی فریادرسی تھی،جوہواوہ قوم کااستحصال تھا، جوملاوہ زرخیز زمینوں میں اڑتے خاک کے بگھولوں کاتحفہ تھااورجوہوگاوہ خشک دریاؤں اورندی نالوں کے نتیجے میں انسانی آنتوں کی بے رحم پیاس اورموت کارقص ہوگا۔یہ سب کچھ ہوگامگرحکمرانوں کوہوش تک نہ ہوگا۔
پہلے عوام صاف پانی کوترستی تھی اب توکھارااورآلودہ پانی بھی میسرنہیں ، پہلے پانی اس قدرتھاکہ انسان تک ڈوب گئے اوراب پانی کی قلت یوں ہے کہ آنکھیں بھی خشکی کاسندیسہ دیتی ہیں ۔کسی کوفکرنہیں ، کسی کوبھی خبرنہیں اورجن کوخبرہے وہ خودبے اختیارہیں ، رونے کوجی چاہتاہے مگررونے دھونے کے لئے بھی آنسوچاہییں اور آنسوؤں کے لئے پانی درکارہے، یہی توروناہے کہ پانی ہی نہیں ملتا۔جوبااختیارہیں، انہیں پرواہ تک نہیں اورجنہیں پرواہ ہے ان کے لئے تومنرل واٹرکے وافر ذخائر موجودہیں کچھ توملک میں اورکچھ اغیارکے کارخانوں میں پیکنگ کے مراحل سے گزررہے ہیں۔
پانی کی ضرورت اورپیاس کی شدت جب بڑھے گی توہرطرف آگ ہی آگ ہوگی ،یہ آگ صرف عوامی پیٹ کے اندرہی نہیں ملک کے بطن میں بھی بھڑک اٹھے گی مگرافسوس نہ پیٹ کی آگ بجھ پائے گی اورنہ ہی ملک سے دھواں ختم ہوگا۔جس پانی نے آگ بجھانی تھی وہ توکب کاختم ہوچکاہوگا، کہتے ہیں کہ گندہ اورگدلاپانی بھی آگ بجھانے کے کام آجاتا ہے مگرجب پانی کی جگہ خاک ملے ، اڑتی ریت دکھائی دے اورزمین پانی دینے سے انکارکردے اورایسی حالت میں خشک دریاؤں اورندی نالوں سے پانی کی بوندتک نہ ملے توپھرآگ کیونکربجھائی جائے گی؟اس وقت ’’مٹی پاؤ‘‘والامقولہ من وعن سچ ثابت ہوگابلکہ حکمرانوں نے توابھی سے کالاباغ ڈیم کی تعمیرپراپنی سیاست کی گندی مٹی ڈال کراسے سچ ثابت کردکھایاہے۔
کراچی میں سمندربہتاہے مگر وہاں کے باسیوں کے پانی کے برتن پانی مافیابھرتے ہیں اوروہ بھی منہ مانگے دام وصول کرکے ، لاہورمیں دریائے راوی بہتاتھامگرمیں نے اپنی زندگی میں اسے کبھی بھی رواں نہیں دیکھا، دریائے چناب ، ستلج ، جہلم اوردریائے سندھ مٹی کی چادرمیں لپٹے حکمرانوں کی بے حسی کارونارورہے ہیں ، ان کے آنسو خاک کی صورت میں شہروں کاطواف کرتے ہیں ، بنجرہوتی زمینیں ، پانی کوترستی بربادہوتی فصلیں اور خزاں رسیدہ سوکھتے درخت زندگی کے اختتام کی خبردیتے ہیں ۔ اگراپنے شہرلاہورہی کی بات کروں تویقین جانیں دریائے راوی سے قریب ترعلاقہ پانی سے خالی ہوتاجارہاہے یہی نہیں بلکہ سوکھے ہوئے راوی میں بسیراکرنے وا لوں کومیں نے پانی کے لیے برتن اٹھائے دوسروں کے درپہ جاتادیکھاہے ، پمپ پانی کھینچنے سے عاجزہیں کہ پانی کی سطح بلندہونے سے قاصرہے،پمپ کے لئے کھدائی کرنے والے ،لوگوں کوخوب لوٹ رہے ہیں ، لاہورجیسابڑاشہربھی پانی کی قلت کاسامناکرنے پرمجبورہے۔
کسانوں کی بات کروں تویادکیجئے پہلے کسان صبح تڑکے تڑکے اٹھتاکہ آج اس کی پانی کی باری ہے ، اس نے اپنی پیاسی فصل کوسیراب کرکے دنیاکے لئے خوراک کاانتظام کرناہے مگراب وہ بھی مایوس اٹھتاہے ، کبھی توموہوم سی امیدلئے فصلوں کی جانب چل نکلتاہے کہ شائدزمین رحم کھالے یاپھرآسمان کوترس آجائے مگراپنی سوکھی ہوئی فصل دیکھ کر پریشان سرتھامے وہیں بیٹھ جاتاہے۔ کبھی تویہ کسان ہاتھ اٹھائے اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرتاہے اورکبھی آسمان پرکچھ دیرکے لئے چھائے بادلوں کودیکھ کرخوشی سے جی ہی جی میں بارش کے برس جانے کی دعاکرتاہے ۔کسانوں کااستحصال پہلے بھی جاری تھااب تواس میں شدت آگئی ہے،حکمران سمجھتے ہیں کہ یہ صرف کسانوں ہی کانقصان ہے ، انہیں معلوم نہیں کہ یہی کسان پوری دنیاکے لئے راتوں کواٹھتاہے ، دن کوتپتی دھوپ میں خون پسینہ بہاکر ہل چلاتاہے ،دھکتی زمین کاسینہ چیرتاہے، بیج بوتاہے، پانی لگاتاہے ، کھادکے لئے قرض اٹھاتاہے اورپھرفصل کے تیارہونے تک دن رات اس فصل کی رکھوالی کرتاہے ، وہ کیاکیاجتن نہیں کرتا، فصل کی کٹائی سے لے کرہمارے منہ کانوالہ بنانے تک کسان ہی کاہاتھ ہوتاہے مگرآج کسان کی فصلیں ماتم کناں ہیں ، یہ فصلیں میدان کربلابنیں بوندبوندکوترس رہی ہیں ۔جب فصلوں کوپانی میسرنہیں توسمجھ لیجئے کہ دنیاپانی ہی نہیں ،غذائی قلت کابھی تیزی سے شکارہورہی ہے ۔
پاکستان کے عوام اب پانی کے لئے بلکناشروع ہوچکے ہیں اگرجلدہی اس کاکوئی مؤثراوردیرپاحل نہ نکالاگیاتوکچھ بعیدنہیں کہ عوام بھڑک اٹھے اورپھروہ شاہراہوں پر آنکلے ، گلی گلی آگ لگادے، حکمرانوں کے گریبانوں پرہاتھ ڈالے ،ملک کانظام درہم برہم کردے ۔جب انسان کواس کی بنیادی ضرورت سے محروم کردیاجائے توپھروہ اپنے حق کے لئے سب کچھ کرگزرتاہے خواہ اس حق اورضرورت کے لئے اسے درندگی ہی کیوں نہ اختیارکرنی پڑے ۔
حکمرانوں کواس بارے میں سنجیدگی سے سوچناہی نہیں بلکہ عمل بھی کرناہوگاورنہ تاریخ عبرت سے بھری پڑی ہے کہ جن حکمرانوں نے اپنی بادشاہت کے حصول کے سواکچھ نہ کیاوہ خودبھی ذؒ لیل ورسواہوئے اوران کی قومیں بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی گئیں ۔ خیرہم پہلے ہی ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن پھربھی جسم کی آزادی توہے ،کہیں یہ بھی حکمرانوں کی آپس کی لڑائی اوراقتدارکے حصول میں نہ چھن جائے ، اس لئے اس آگ کے لگنے سے پہلے ہی حفظ ماتقدم کے طورپر کالاباغ ڈیم اوراس جیسے دیگرمنصوبوں کوجلدازجلدمکمل کرناہی عقل مندی کاتقاضاہے۔