کبھی کبھی ذہن میں ابھرتے ہیں نقش ماضی مٹے مٹے سے

 سچ پوچھیے تو فطرت کے مناظر اور   گزرے زمانوں کے آثار میں خود کو چلتا پھرتا محسوس کرنے والے کے لیے کراچی میں دلچسپی کا کچھ نہیں رکھا۔ نہ درخت ہیں نہ ہی پارک، پرانی گلیوں اور عمارات کو ڈھا کر نئی طرز تعمیروالی غیر معیاری اور روکھی پھیکی عمارات کا ایک جنگل ہے جس کے درمیان سے گاڑیوں کا سیل رواں الجھتا، اٹکتا بہتا چلا جاتا ہے۔

نو تعمیر شدہ پل اور زیر زمین گزرگاہیں بدصورت اور بھدی ہیں۔ خوبصورت عمارات کے سامنے گاڑیوں کی بے ہنگم پارکنگ اور شور سماعت و بصارت دونوں پر گراں گزرتے ہیں۔ خدا کی ایک شاندار نعمت، ہمارا جان سے پیارا سمندر وہ واحد جگہ تھی جہاں آنکھیں کچھ گز تک دیکھنے کی پابند نہیں رہتی تھیں۔ اور آپ  زمین کے اس کنارے کو دیکھنے کی عیاشی  کرسکتے تھے جہاں آسمان جھک کر زمین کو بوسہ دیتا ہے ۔مگر وہاں بھی ریتیلے ساحل کی پٹی پر فلک شگاف عمارات کھڑی کر دی گئی ہیں۔ اب تو انسانوں اور گاڑیوں کا ہجوم ہے جو اونچی عمارات کے گرد بسا رہتا ہے۔

یہ سب ہے۔ مگر دل کا کیا کریں جو کراچی کے سوا کسی اور شہر کے لیے بےتاب ہونے کو بے وفائی گردانتا ہے۔اس کی مانوس گلیاں،عمارتیں جہاں  آنکھیں کھولیں، اسکول کالج یونیورسٹی گئے۔ اس کی سجی سجائی بسیں ، اس کے مہربان رکشے ،اس کے پر رونق بازار، اس کا وہ بے حد اپنا پن  آوازیں دیتا ہے۔ ضدی دل مچل مچل کرخواہش کرتا ہے اور سو طرح بہلانے پربھی میں نہ مانوں کی رٹ لگاۓ رکھتا ہے۔

اسی اور نوے کی دہائی کے ڈرامے دیکھیں یا آنکھیں  میچ کر بچپن کا کراچی یاد کریں تو وہ  ایسا نہ تھا۔

جگہ جگہ کھلے میدان تھے۔ شارع فیصل کے ساتھ درختوں کی قطاریں تھیں۔ ائرپورٹ سے نکلیں، ملیر کی طرف نکل جائیں یا ڈرائیو ان سینما کے پاس سے گزریں تو کتنے ہی پل گزر جاتے اور دور دور تک گنجان آبادی نظر نہ آتی۔ ملیر کے پل کے نیچے سے وہ ندی بہتی تھی جسے ہم دریا سمجھتے تھے اور اور ڈیفنس سے کورنگی جاتے ہوۓ بہت بچپن کی مٹی مٹی یادوں میں ایک بار اپنی گاڑی کا ندی کی طغیانی میں پھنس جانابھی یاد ہے۔

کراچی پناہ گزینوں کا شہر، روزی کی تلاش میں نکلے ہووں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے والا غریب پرور شہر۔

ہر تھوڑی دیر بعد یادوں کا شہر کراچی بس جاتا ہے۔

گرمیوں کی سہ پہروں میں قلفی والے کی  مخصوص گھنٹی، سوتی ماؤں سے آنکھ بچا کر چھتوں ، دالانوں اور گلیوں میں کھیلتے بچے، بازاروں میں ماؤں اور خالاؤں کے ساتھ گھومتی لڑکیاں، گرما کی شاموں میں ساحل سمندرپر چہل قدمی کرتے خوش  باش لوگ، ساتھی، سہیلیاں، جناح اسپتال، اور برنس روڈ، رشتہ دار، چاٹ اور حلیم کی دکانیں، راتوں کو سجے شادی ہال اور وہ سارےمنظر جو بہت سادہ مگر بہت اپنے لگتے ہیں اردگرد رونق لگالیتے ہیں۔

دل کو سمجھاتے ہیں کہ یہ نرا  ناسٹیلجیا ہے۔ ایک رومانی خواب۔

اپنا آپ ان بابوں کی مانند لگتا ہے جو سرشام بیٹھکوں اور گلیوں میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور ماضی کے قصے جذبات کے رنگوں سے پینٹ کر کے اپنے تئیں حال کی بے رنگی سےفرار حاصل کرتے ہیں۔

دل رہ رہ کر مچلتا ہے اور ہم خود کو ڈراتے ہیں کہ اے گھر سے نکلے مسافر !اگر گھر کو لوٹنے پر رپ وین ونکل والا حال ہوا تو کیا کروگے؟

مستقبل سے بے پرواہ اور حال میں مگن اور ماضی کے رومان میں زندہ رہنے والوں کا حال رپ وین ونکل کا سا ہی ہوتا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں