بادشاہ کبھی غلطی نہیں کرسکتا

زمانہ قدیم میں بادشاہوں ،امراؤں اورسلاطین کے بارے میں ایک مقولہ بولا جاتا تھا کہ ’’بادشاہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرسکتا‘‘ اس مقولے سے کہیں یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اس زمانے کے بادشاہ سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوتی تھی۔اس کا مطلب محض اتنا ہے کہ ان غلطیوں پر جو ابدہی کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ وقت کوسارے کام کرنے کی کھلی چھٹی ہوتی تھی۔ کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا تھا۔کسی عمل کی
جوابدہی نہیں کرنی پڑتی تھی ۔یک جنبش قلم فیصلے ہوتے اورطوری طورپر نفاذ عمل ہوجاتے۔کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ باشاہ کے موڈ پر منحصر ہوتا تھا۔وقت بدلا حالات بدلے اور حضرت انسان، انسانیت کی معراج کی سیڑھیاں چڑ ھتا ہوا آج اس مقام پر آ پہنچا ہے ۔
اب ذرا آئیے 2018ء کی اس دنیا میں، جہاں دنیا بھر میں سیاست کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔دو عالمی جنگ عظیم کو بھگتنے کے بعد، اورنا جانے کتنی زندگیوں کی قربانی دینے کے بعد دنیا کو سمجھ میں آگیا ہے کہ جنگ لڑی کیسے جا ئے گی۔ اتفاق اس بات پر نہیں ہوا کہ جنگ نہیں ہوگی۔ اصول یہ طے ہوا ہے کہ یہ لڑی کیسے جائے گی ۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نام نہاد جمہوریت کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں حکمرانوں کی سوچ بھی قدیم بادشاہوں جیسی ہی ہے۔اس ملک کے حکمران نا تواپنے کسی عمل کی جوابدہی کرنا چاہتے ہیں۔ناہی عوامی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ شاہان انداز میں حکومت کرنا چاہتے ہیں اور محلوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ نعرہ توجمہوریت کا بلند کرتے ہیں ،لیکن خواب ڈکٹیٹرشپ کے دیکھتے ہیں۔جلسوں میں ’’نیلسن منڈیلا‘‘جیسے حکمرانوں کو آئیڈیلزکرتے ہیں،لیکن اس لیڈر کی طرح ملک کو بنانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ہر الیکشن میں بڑے بڑے دعویٰ کرکے عوام کو سنہری خواب تو دکھاتے ہیں ،لیکن پانچ سال تک صرف کرپشن کے نت نئے اسیکنڈل ہی سامنے آتے ہیں۔
پاکستانی عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے مثالی لیڈرشپ صرف خوابوں میں دیکھی ہے۔ملک بننے کے اتنے عرصے بعد بھی ہم آج تک کوئی لیڈرپیدا نہیں کرسکے ہیں۔یک ایسا لیڈر جو اس ملک کے وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال کرسکے۔ایسا لیڈرجوغربت کے سائے کم کرسکے،ایک ایسا لیڈرجو دعوے نہیں وعدے پورے کرکے دکھائے ۔ایک ایسا لیڈر جو صحیح معنوں میںْ ٓٗٓقائداعظم کا خواب پورا کر سکے۔ لیکن ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آزادی حاصل کرکے بھی ہم غلام رہیں گے۔کتنی ہی نسلیں جوان ہوگئیں لیکن مسائل جوں کے توں ہیں ،جن مسائل کا سامنا ہمارے دادا،پرداداکو کرنا پڑتاتھا آج ہمارے بچے بھی ان ہی مسائل کا شکار ہیں اس سے بڑا المیہ اورکیا ہوسکتاہے۔
کہتے ہیں کسی ملک کی ترقی کاپیمانہ اگر دیکھنا ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ نے اس ملک کو کیا کیا نعمتیں عطا کی ہیں اس کے وسائل کیا ہیں۔ اس ملک میں سمندر،دریا،پہاڑریگستان ،میدانی علاقے موجودہیں یا نہیں۔کیا پاکستان ان نعمتوں سے مالامال نہیں ؟دوسری چیزوسائل کا صحیح استعمال ہے ، یہ چیز بھی ملک کی ترقی میں اہم کرداراداکرتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کوآج تک وہ حکمران نہیں ملا ،جو ان وسائل کا درست استعمال کرکے لوگوں کی قسمت بدل دے۔
سالوں سے محض چہرے ہی بدل رہے ہیں،لیکن پاکستان کے عوام کی قسمت نہیں بدلتی ۔آخر اس کاحل کیا ہے؟کیا ہم ہر الیکشن میں ان ہی چہروں کوآزماتے رہیں گے اورروتے بھی رہیں گے کہ حالات نہیں بدلتے۔آخرعوام کو کتنی بارٹھوکریں کھانے کے بعد سمجھ آئیگی کہ ہمارا صحیح حکمران کون ہے۔کون ہے وہ رہنما جو ہمیں تاریکی سے نکال کرروشنی میں لائے گا۔جو ہمیں امید کے دئیے تھمائے گااور اس خواب کی تکمیل کرے گا۔جس کاخواب ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں پھر سے الیکشن کی بہاریں نظرآرہی ہیں۔جلسوں کیلئے پنڈال سجنے لگے ہیں۔ہزاروں کے ہجوم میں وعدوں کے قیمتی موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے،سہانے خواب دیکھائے جائیں گے۔اُس پاکستان کی باتیں ہوں گی جہاں کبھی وہ کام کیے ہی نہیں گئے ہوں گے۔جن کے دعویٰ کیے جارہے ہوں گے۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اتنے مایوس کن ؂صورت حال کے باوجود کچھ جماعتیں اب بھی دیانت داری سے کام کر رہی ہیں۔ جنھیں مو قع ملا اور انہوں نے خود کو ثابت بھی کیا۔ ان میں ایک نام جماعت اسلامی کا بھی ہے ۔ یہ وہ واحد جماعت ہے جو پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ اس جماعت میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ موجود ہے۔ کر پشن کا کوئی داغ آج تک اس جماعت پر نہیں لگا۔ صاف ستھرا منشور رکھنے والی یہ جماعت یقیناًالیکشن جیتنے کی پوری حقدار ہے۔ ایسی جماعتوں کو یقیناًایک موقعہ ضرور ملنا چاہیے ۔ جہاں تک بات ہے اس مقولے کی کہ’’ بادشاہ کبھی غلطی نہیں کرسکتا‘‘تواس الیکشن میں بھی ہم سب نئے سرے سے خواب دیکھتے ہیں۔ کچھ نئی امیدوں کو جگہ دیتے ہیں۔ نئے پاکستان کی بنیادیں رکھتے د یکھتے ہیں۔آئیے اک نئے بادشاہ کو چنتے ہیں اے کاش ! ہمارابادشاہ بھی کوئی غلطی نہیں کرے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں