اللہ کے نیک بندے قائدؒ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں

                بروز حشرجو انسان اللہ کے حضور اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کے پاس حساب دینے کے لئے کچھ بھی نہ ہوگا، اوروہ دنیا میں ہی اپنے حصے کے سارے حقوق و فرائض ادا کر چکا ہوگا ، اس گھڑی اس سے خوش نصیب انسان کون ہو سکتا ہے۔

                قائد اعظم محمد علی جناح  ان ہی خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ضرور ہونگے اور ان کی اس خوش بختی میں پاکستان کے عوام ہی نہیں اس پاکستان کا ایک ایک ادارہ پورا پورا شریک ہو گا۔

                جب پاکستان بنا تو اس کے دو بازو تھے، ایک کو مشرقی پاکستان اور ایک کو مغربی پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔

                ہم سب نے قائدکا بوجھ ہلکا کیا اور ایک بہت بڑا پاکستان اپنے ازلی اور دیرینہ دشمن بھارت کے مکمل تعاون کے ساتھ اپنے ہاتھوں بنگالی بھائیوں کے حوالہ کردیا تاکہ قائد کا بروز حشر حساب آسان ہوجائے۔

                پہلے پہل تو پاکستان کے سارے صدور اور وزرائے اعظم قائد کے مزار پر مسلسل آکر ان سے اس کارہائے عظیم کی داد چاہتے رہے اور پھولوں کی چادر چڑھا چڑھا کر اپنے کئے پر انعام مانگتے رہے لیکن کوئی جواب نہ آنے پر یہی خیال کیا کہ ان کی باقی ذمہ داریاں بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا لیں چنانچہ فاٹا، کشمیر، بلتستان اور گلگت والوں نے قائد کو دور سے ہی یہ پیغام دیا کہ اب آپ کے بوجھ کو ہم نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا ہے اس لئے ہم آپ کی خدمت اقدس میں حاضر نہیں ہو سکتے۔

                پھر پنجاب، سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختون خواہ اور بلوچستان نے بھی دوری اختیار کر لی اور کہا کہ ہم بھی نہیں چاہتے کہ آپ کو حساب کتاب میں کوئی مشکل پیش آئے اس لئے حاضری سے استثنیٰ مل جائے تو اچھا ہی ہے۔

                ملک کے وفاقی ادارے اور وفاق سے تعلق رکھنے والے صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف اور ہر اعلیٰ عہدے دار نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو دور کر لیا کہ کہاں ہم اور کہاں آپ جیسی جلیل القدر ہستی، ہم تو آپ کی خاک پا کے برابربھی نہیں، ہم لاہور یاتراہی کر لیں تو بہت ہے اس لئے ہمیں معاف ہی رکھیں تو اچھا ہے۔

                ایک وقت تھا کہ ایک بہت بڑے پاکستان کے بعد آدھے پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار سلام کو آیا کرتے تھے، پھر ایک ایک کر کے سب نے آناجانا ترک کردیا، غیر ملکی وفود بھی لاہوریاتراکرا دیئے جاتے ہیں، اب تو قائداعظم محمد علی جناح صوبہ سندھ ہی کے قائد بن کر رہ گئے ہیں اسی لئے پیدائش ہو یا وفات، یوم قراداد پاکستان ہو یا آزادی کا دن، یوم دفاع ہویا کوئی اور تقریب، کبھی وزیر اعلیٰ اور کبھی گورنر سندھ، مزارقائدسندھ پر پھولوں کی چادر لے کر حاضر ہوجاتے ہیں باقی ہر اہم دن کے لئے اہل پاکستان نے ایک اورقائد، قائد پاکستان علامہ محمداقبال کو منتخب کر لیا ہے تاکہ قائد کا ہر بوجھ ہلکا ہو جائے اور وہ بروز حشر اپنے خدا کے حضور اس طرح حاضر ہوں کہ ان کے پاس حساب دینے کے لئے کچھ بھی دامن میں نہ ہو۔

                ڈر ہرایک کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔ قائد قائد ہی ہوتا ہے اور جو لوگ قائد کے منافق ہوتے ہیں وہ ہر صورت میں اندر سے ڈرے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔ پہلے پہل تو پاکستان کے ہر منافق عہدیدار کی یہی کوشش ہوئی تھی کہ قائد کو زندہ ہی نہ رہنے دیاجائے کیونکہ اگر ان کی منافقت طشت از بام ہوگئی تو ان کا حشرنشر ہوجائے گا۔ قائد بیمار ہوئے تو زیارت میں یہ سارے منافق جاجا کر مزاج پرسی کے بہانے اس بات کا جائزہ لینے جایا کرتے تھے کہ قائد کی آتی جاتی سانسیں کتنے عرصہ اور جاری رہ سکتی ہیں۔ انتقال ہوا تو تب بھی ان کی موت کا مکمل یقین نہ ہونے کی وجہ سے ایسی ایمبولینس دی گئی جو ان کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کے ساتھ منزل (کراچی) تک پہنچا ئے تاکہ اگرزندگی کی کوئی موہوم سی امید بھی ہو تو وہ دم توڑ دے۔ پھر موت کی یقینی کے بعد اس بات کی کوشش کی گئی کہ ان کی زندگی کو متنازع بنادیا جائے چنانچہ پہلا سوال تو یہی اٹھایا گیا کہ (نعوذ باللہ) وہ مسلمان بھی ہیں یا نہیں لیکن کراچی کے عوام کا جاہ و جلال دیکھ کر ایک یو ٹرن لیا گیا اور مسلم و نامسلم کی بحث کو ترک کرکے اس بات کو اچھالا گیا کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ قوم اب کچھ بھی سننے کیلئے تیار نہیں تھی۔ جب ہر جگہ سے ناکامی ہوئی تو نماز جنازہ پڑھانے پر ایسا ماحول بنادیا گیا کہ کوئی عالم ان کی نماز جنازہ نہ پڑھا سکے لیکن اللہ سے بڑا کون ہوسکتا ہے۔ چنانچہ شبیر احمد عثمانی کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا کہ وہ کسی خوف و تردد کے بغیر اٹھے اور قائد پاکستان، محمد علی جناح کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس جرم پر پاکستان میں موجود علما نے ان کا گھیراو کیا اور جواب طلب کیا کہ (نعوذ باللہ) انھوں نے ایک مجوسی کی نماز جنازہ کیسے پڑھادی جس پر انھوں نے کہا کہ وہ مجوسی نہیں اتنے پڑے اور محترم مسلمان تھے کہ میرے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر کہا کہ میرا مجاہد آرہا ہے اس کا استقبال کرو۔

                منافقین کے منھ کو تالے لگے، ہر منصوبہ فیل ہوا تو آخری حربے کے طور پر ان کی تدفین میں روڑھے اٹکائے گئے اور اتنی عظیم ہستی کیلئے میوہ شاہ کے قبرستان کا انتخاب کیا گیا لیکن اس وقت کے ایمان و یقین والوں نے اس منصوبے کو بھی ناکام بنایا اور پھر ان کو وہاں دفن کیا گیا جہاں اب ان کا مزار ہے۔

                یہ ہے اس عظیم ہستی کی کہانی کا آخری درد ناک باب جس کی جدوجہد کے صلے میں انڈوپاک کے مسلمانوں کو ایک الگ خطہ زمین نصیب ہوا۔

                ان جبکہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ حکام اور عہدیداروں کو اس بات کا یقین کامل ہوچکا ہے کہ قائد واقعی وصال کر چکے ہیں تو وہ ان کے مزار پر آنے میں بھی تساہلی سے کام لیتے ہیں اور قائد ثانی کے مزار پر حاضری کو کافی خیال کرتے ہوئے لاہور یاترا پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ ویسے ایک راز کی بات کہوں، مزار قائد اعظم پر تو بہت پہلے ہی فوج کا پہرہ لگادیا تھا کہ کسی قسم کا کوئی خطرہ ہی نہ رہے لیکن ڈرے ہوئے تو یہ سب حکیم الامت علامہ محمد اقبال سے بھی بہت ہیں۔ جن کے مزار پر تقریباً پینتیس سال تک کوئی پہرہ نہیں تھا ان کی بھی نگرانی پر ہردم تازہ دم دستے متعین رہتے ہیں کیونکہ منافقین کا اندر کا خوف باہر نکل کر ہی نہیں دے رہا۔

                اللہ تعالی ان دونوں عظیم ہستیوں کی عزت و آبرو تا قیامت سلامت رکھے لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ آنے والا دور شاید دونوں کا سارا بوجھ اتار کر ہی دم لیگا (ہزار بار خدانخواستہ)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں