عبادات کو نمائش مت بنائیں

رمضان میں عبادت،وظائف واذکار، تراویح، تلاوتِ قرآن کا اہتمام دیگر ماہِ مقدسہ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ـ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ساری بدنی مشقت اسلام کے حقیقی تصورِ عبادت پر مبنی ہے؟
اور کیا ہم عبادت کی اصل روح کو سمجھتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری ساری عبادت، معمولاتِ رمضان دکھاوے خودنمائی اور ریاکاری کی دبیز چادر میں لپٹی ہوئی ہے؟
اگر اللہ نے نماز،روزے،نفلی عبادات،تلاوتِ قرآن پاک کی توفیق دی ہے تو اس کے جزا،درجات بھی اللہ کے ہاں ہیں لہذا ِاسے بندوں کے سامنے گننا،کہ میں تو اتنے نوافل پڑھتی/پڑھتا ہوں یا اتنی بار قران ختم کر چکا،کو جتانے کا فائدہ کیا ہے؟ اس برتے پر سرِ محفل تضحیک کرتے ہوئے دوسروں کو احساس گناہ میں مبتلا کرنا یقیناً اللہ کے ہاں بھی ناپسندیدہ ٹھہرے گاـ اگر کوئی یہ سب اتنی تعداد میں نہیں کر سکا،تو ہو سکتا ہے اپنی بدنی کمزوری،بیماری یا اپنے روزگار کے سخت اوقات کی مصروفیت میں روزانہ سپارہ ختم کرنا یا سو نوافل پڑھنا،اس کے لئے ممکن نہ ہوں یا آسان نہ ہوں تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ،اپنی پڑھائی/عبادت کے بل پر ایک پیمانہ قائم کرکے دوسروں میں جزا سزا تقسیم کرتے پھریں
عبادت کا تعلق سراسر اللہ اور بندے کے بیچ میں ہیں،تو پھر اسے اسی کے درمیان کیوں نہیں رہنے دیتے؟
کسی کے رمضان میں قرآن ‏نہ ختم کرنے یا نوافل نہ پڑھ سکنے کے زاتی فعل کو اپنے نیک افعال کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے سرِعام محفل میں،ہدف تنقید بنانا، غلط اندازِ فکر ہے ، جو ہو سکتا ہے اس کے دل سے دین کی محبت بالکل ہی خارج کرنے کا باعث بن جائے
رمضان میں کی گئی نیکیاں اور عبادات کا ستر گنا ثواب ملتا ہے اور یہ صرف اللہ ہی دیتا ہے مگر اس شرط پر کہ یہ دکھاوے اور ریاکاری سے پاک ہو اور مکمل اخلاصِ نیت کے ساتھ ہو
اگر عبادات میں تمام نیک اعمال و افعال اس نیت سے کیے جائیں کہ دوسرے اسے نیک خیال کریں گئے یا پھر مجلس میں اپنے نیک اعمال کی تشہیر کا مقصد صرف خود کو دوسرے پر برتری دینا ہو ، یا پھر کسی کی عبادات میں طنزیہ انداز سے نکتہ چینی نکالتے ہوئے پھبتی کسنا دراصل دوسرے کی اصلاح کا ایک غلط اور نامناسب طریقہ ہے
جو عبادت اخلاق و کردار پر اثر انداز نہ ہو سکے وہ مشقت کے سوا کچھ نہیں
خودنمائی سماجی اور مزہبی طور پر درست طرزِ فکر و عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک نفسیاتی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے تمام نیک اعمال کے زیاں کا باعث بنتی ہے
رمضان میں کی گئی عبادت اور وظائف کی تعریف ضرور ہونی چاہیے مگر جہاں ان میں دکھاوے کا عنصر شامل ہوا یا آپنے اپنے تئیں خود کو پرہیزگار اور دوسرے کو گنہگار کے فتوے میں گھیرا اور تکبر کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کیا تو اسی لمحے آپ کے سارے اعمال دریا برد ہو گئے
مسند احمد میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے” رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا” گویا دکھاوے کی عبادت ہو یا نیکی اس کو شرک کے ساتھ مقام دے دیا گیا ـ
لیکن ہمارے سماج میں دکھاوے کی رسم کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے جیسے تقسیم راشن کی تقاریب باقاعدہ فوٹو سیشن کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں ایک آٹے چاول کی بوری کو چھ لوگ پکڑ کر کسی غریب کے ہاتھ میں پکڑآتے ہیں جو اپنی نیکی کی تشہیر تو کرتے ہی ہیں،ساتھ میں،کسی غریب کی عزت کا جنازہ بھی نکالتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اپنے قرب و جوار میں زیادہ مستحقین کو چپکے سے افطاری یا راشن دے دیا جائے تاکہ اس کی خوداری زخمی نہ ہو
اسی طرح سے دسترخوان پر ایک ہی وقت کے لیے بنائے گئے انواع اقسام کے لذیذ کھانے افطاری کے نام پر اپنے ہی جیسے با حیثیت رشتہ داروں کو دعوت دی جاتی ہے ـ کیا زیادہ بہتر نہیں کہ آٹا دال چاول کا حسب توفیق پیکیج بناکر سفید پوش یا محنت کش کے گھر دے دیا جائے تاکہ ان کا یہ پورا مہینہ کسی امیر کی خیرات کی لمبی لائن میں لگنے سے بہتر اپنے گھر میں سکون سے گزر جائے؟
صدقہ خیرات انسان کو مصائب سے بچاتے ہیں اور دوسروں کی مدد کا ایک اہم زریعہ ہیں لیکن دکھاوے،ہتک اور تکبر سے دیئے جانے والے صدقہ،خیرات اگر دوسرے کی تنگیِ دل کا باعث بنے تو ایسی نیکی دوسروں کو آزار دینے کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ـ
زکوۃ کے حقداروں کو جھڑک کر،احسان جتاکر زکوۃ نہ دیں کوشش کریں زکوۃ دیتے وقت ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو کیونکہ مومن کے دل میں خوشی داخل کرنا بھی صدقہ ہے
روزے کی بھوک پیاس کی وحشت کو کسی سائل پر نہ اتاریں اگر وہ عین افطاری کے وقت آپ کے دَر پر آیا ہے تو اسے اپنی خوش قسمتی سمجھیں اللّہ نے آپکو دینے کے قابل بنایا ہے
اگر مصلے سےاٹھتے ہی آپ کے گھر والے آپ کے مزاج سے تنگ ہیں غصے اور چڑچڑے پن سے عاجز ہیں آپ کی مغلظات سے ان کے دل تار تار ہوتے ہیں تو گویا آپ سجدے کا حق ادا نہ کر پائے،نہ ہی روزے میں کی گئی عبادت کے حقیقی اور اولین مقصد کو پا سکے ـ
نماز میں قیام، رکوع،سجدہ اور روزے میں بھوک پیاس برداشت کرنے کو بس ایک ظاہری شکل،میکانکی انداز یا روٹین کی طرح ادا کر کے اگر یہ سمجھ لیا کہ فرض پورا ہوگیا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ آپ کا طرز عمل، عملی میدان میں ناکام اور ادھورا رہا
ماہ رمضان دراصل مسلمان کو ایک با برکت موقع فراہم کرتا ہے جس میں ہماری ذرا سی نیکی پر بے شمار برکتیں اور رحمتیں دینے کا وعدہ اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے تو ہمیں اسے گنوانا نہیں چاہیے روزہ اور عبادت کا مقصد تزکیہِ نفس،ذہنی و جسمانی تربیت،روحانی فوائد اور اپنی دنیا دین کے تابع کرنے میں ہے ـ عبادت اور معمولاتِ رمضان ہمیں غیبت،چغلی،گالی،دل آزاری،مکاری سے مکمل اجتناب سکھاتے ہیں اور ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ہمارا ہر عمل چاہے رمضان میں ہوں یا بعد از رمضان صرف خوشنودیِ رب کریم اور رضائے مصطفیﷺ ہونے چاہئیں
نوٹ:اے ون ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں