کراچی میں پہلا سفر

رکشے والا مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر ویلکم کرنے اس طرف کو مڑا، منہ میں بھرے پان یا گھٹکے کی پچکاری روڈ پر ماری اور بولا: ہاں! صاب کہاں جانا ہے؟ میں حیران سا اسے دیکھتا رہا کہ ماہ رمضان اور یوں سرعام پان، ماوا، گھٹکا اور چہرے پر کوئی ندامت بھی نہیں۔ پھر یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ اور بندے کے معاملے میں دخل اندازی؛ میرا کیا کام؟ شارع فیصل چلنا ہے۔ میں نے جواب دیا۔ شارع فیصل کس جگہ جائیں گے؟ رکشے والے نے دوبارہ پوچھا۔ مجھے ایک تو گرمی ستا رہی تھی دوسرا جس دوست نے مجھے وصول کرنے پہنچنا تھا وہ بھی غائب تھے اور کوئی اطلاع بھی نہ تھی۔ تیسرے ان کا نمبر بھی بند جا رہا تھا۔ بار بار کال ملانے پر آٹو میٹک خاتون یہی بتا رہی تھی کہ مطلوبہ نمبر بند ہے۔

اب تو مجھے شدت سے غصہ آنے لگا تھا۔ خیر! روزے کی حالت میں ہی غصہ پیا یہ خیال تھا کہ غصہ پینے سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا نا۔۔ پھر رکشے والے کی طرف متوجہ ہوا۔ جو اب ایک گندے سے پیکٹ میں سے کچھ دانے ہتھیلی پر نکال رہا تھا۔ کتنے پیسے لو گے؟ میں نے پوچھا۔ اس نے ہتھیلی پر ڈالے دانوں کو پھانکا اور منہ اوپر کر کے دانت جوڑتے اور ہاتھ کے اشارے سے کہا پانچ سو۔ میں دھنگ رہ گیا کہ اتنا زیادہ کرایا۔ پھر اچانک سے خیال آیا کہ پگلے! ماہ رمضان ہے اور اس مہینے میں اجر دگنا کر دیا جاتا ہے۔ اور اس دگنے کا سب سے زیادہ فائدہ مسلمان اٹھاتا ہے کہ دام بھی بڑھا کر دگنے کر دیتا ہے۔

اب میں پھر سے موبائل میں مگن ہو گیا تھا کہ شاید اب کوئی خبر مل جائے میزبان کی اور انہیں خبر کر دوں کہ مہمان تشریف لا چکے ہیں اور قریب قریب رکشے والے کے دام میں پھنسنے ہی والے ہیں۔ شکر خدا کا کال مل گئی اور وہ انتہائی لجاجت سے بولے: بھئی! کہاں پہنچے؟ گاڑی نے بہت لیٹ نہیں کر دیا؟ آئے نہیں ابھی تک؟ اور میں تھا کہ مٹھیاں بھینچ کےکر دانت چبا کے رہ گیا۔ اس وقت اپنا ہی سر پیٹنے کو من کر رہا تھا۔

میں نے سانس بحال کی اور انکساری سے عرض کیا محترم! آپ نے تکلیف کی مجھے لینے آئے میں آجاتا نا!! پھر مجھے لگا جیسے وہ ہڑبڑاہٹ سے اٹھ بیٹھے ہوں اور جلدی میں موبائل بھی گر گیا ہو۔ اور وہی ہوا۔ کال منقطع ہو چکی تھی۔ میں رکشے والے کی طرف متوجہ ہوا تو فون بجنے لگا تھا۔ سکرین پر جھلی حروف میں دوست کا نام جھگمگا رہا تھا۔ جی بھئی؟ میں نے کال اٹھائی تو دوسری طرف دوست شرمندہ شرمندہ سے کہہ رہے تھے سوری یار! میں سو گیا تھا۔ اور مجھے خیال ہی نہیں رہا۔ بس ابھی آتا ہوں۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا: نہیں نہیں آپ نہ آو، گرمی شدید ہے۔ میرے لیے خود کو تھکاو گے، پریشانی اٹھاو گے، میں خود ہی آتا ہوں۔ “ٹھیک ہے میں انتظار کرتا ہوں” کے ساتھ ہی کھٹاک سے فون کٹ گیا اور میں انگلی چباتا رہ گیا۔

اب میں نے سوچا میزبان کو اطلاع ہو گئی ہے کیوں نہ دوسرے ایک دو کام بھی نمٹاتا چلوں۔ اب میں بڑھکتی ہواوں کے دوش پر سڑک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کیوں کہ رکشے والے یا تو پیسے زیادہ بتا رہے تھے یا پھر جانے سے ہی مکر رہے تھے۔ پھر خیال گزرا کراچی کی بسیں خاصی مشہور ہیں۔ کیوں نہ انہیں میں سفر کیا جائے۔ سو سڑک کراس کی اور بس کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ مگر بس تھی کہ آنے کا نام نہ لے رہی تھی اور جو اگر آتی تو وہ بھی ایسےکھچاکھچ بھری ہوئی کہ دیکھ کر ہی اوسان خطا ہوجاتے۔

کافی ٹائم گرد و غبار پھانکتا وہیں گاڑی کے انتظار میں کھڑا رہا اسی اثنا ایک موٹر سائیکل سوار قریب آکر رکے اور میرا ہاتھ فورا سے پہلے جیب کی طرف بڑھ گیا کہ ہاتھ میں موبائل تھا۔ جب کہ دوسرے ہاتھ کی پکڑ بھی خاصی مضبوط ہو گئی تھی۔ خیر! جب انہوں نے گیلا رومال جو سر اور منہ کے گرد لپیٹ رکھا تھا ہٹایا، تو سانس بحال ہوئی۔ بیٹا! کہاں جانا ہے؟ سفید ریش بزرگ مجھ سے مخاطب تھے۔ میں دل ہی دل میں ڈرتے اور ظاہرا خوشی سے مسکراہٹ سجائے انہیں بتانے لگا تھا کہ گرو مندر جانا ہے۔ اچھا! آو میں بھی وہیں جا رہا ہوں تمہیں وہاں چھوڑ دوں گا۔ اول تو ہچکچایا مگر پھر میں موٹر سائیکل پر سوار ہو رہا تھا۔

اپنی دعا کی اتنی جلدی قبولیت پر حیران تھا۔ کیوں کہ خاصا وقت جب گاڑی نہ ملی تھی اور رکشے والے بھی جانے سے انکاری تھے تو خیالوں میں خیال ابھرا تھا کہ خدایا! کوئی فرشتہ بھیج دے جو وہاں پہنچا کر روزے دار کی دعا لے۔ اب ہم گرو مندر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گرو مندر پہنچا تو پھڑپھڑاتے کبوتروں نے اڑ کر اور کچھ نے زمین پر اتر کر استقبال کیا تھا۔ بس انکل یہیں اتار دیں۔ اچھا! ویسے جانا کہاں ہے؟ انہوں نے اتارتے وقت پوچھا۔

انکل! میں کیماڑی کی طرف جاوں گا۔ میں نے جواب دیا۔ انہوں نے ہاتھ پر بندھی گڑھی دیکھی، پسینا پونچھا اور کہا۔ آو بیٹھو، میں اگلے اسٹاپ پر آپ کو اتار دوں گا وہاں سے آپ کو گاڑی بآسانی مل جائے گی۔ اور ساتھ ہی بائیک روڈ پر دوڑتی ٹریفک میں شامل ہو چکی تھی۔ پھر وہ میری پریشانی بھانپتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔ یہاں سے بس بآسانی مل جائے گی اور دس پندرہ روپے کرایا لے کر آپ کو مطلوبہ مقام پر اتار دے گی۔ پھر کہا: رکشے والوں کے نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ دراصل آج سی این جی بند ہے اور یہ لوگ ایسے دن کچھ زیادہ ہی نقصان کی تلافی کر رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی بائیک بس اسٹاپ پر رک چکی تھی۔

میں اترا وہ تپاک سے ملے ایک بار پھر سارا راستہ تلفظ کے ساتھ سمجایا اپنی اور اپنی چیزوں کی حفاظت کی نصیحت کرتے وہ اپنی منزل کی جانب بڑھ گئے جب کہ میں اس فرشتہ صفت انسان کو تشکر آمیز نگاہوں سے جاتا دیکھتا رہا جب وہ ٹریفک کے اژدھام میں گم ہو گئے تو میں مطلوبہ بس تلاشنے لگا۔ وہ بس تو نہ ملی البتہ ایک اور بس کھڑی تھی جیسے میری ہی منتظر ہو۔ جس کے دروازے کی ہتھیلی تھامے کنڈیکٹر مختلف علاقوں کے نام لے لے کر سواریوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ میں نے اس کی گردان پر غور کیا تو آخر آخر میں ایسے لگا جیسے کیماڑی کا نام بھی لیا ہو۔

میں وہیں رک گیا اور انتظار کرنے لگا کہ اب دوبارہ سے یہ اپنی گردان دہرائے، میں جائے مطلوبہ کا نام سنوں تو سوار ہو جاوں۔ میری نظریں دوسری بس کو ڈھونڈ رہی تھیں جب کہ ہمہ تن گوش اسی کی طرف تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہوا۔ ڈبل اے ڈبل کی آواز کے ساتھ ہی بس کے دروازے کو اس نے تھپاک سے بجایا تو ڈرائیور ایکسلیٹر پر پاوں رکھ چکا تھا۔ اور اسی وقت اس کی گردان میں مجھے کیماڑی کا صیغہ بھی مل گیا۔ شابا شابا کی آواز کے ساتھ ہی دروازے پر لگے پائپ تھامے اور پائدان پر پاوں رکھا اور جھٹ سے سوار ہو گیا اور پھر ایسے لگا جیسے دہکتے الاو کے قریب پہنچ گیا یا تنگ اور گرم غار میں گھس گیا۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں