ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ؟؟

وطنِ عزیز پاکستان اس وقت گوناگو مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئی ہے اور اب انتخابات کا دور دورہ ہے۔ دوسری جانب چین کے مہنگے قرضوں کی بازگشت اب سنائی دینے لگی ہے کہ سی پیک کے نام پر چین نے پاکستان کو جو قرضے دیے ہیں ان کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے اور ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم توازن کا شکار ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا مسلسل ڈو مور کا مطالبہ اور امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی امداد روکنے کی کوششیں، امریکہ کی جانب سے پاکستان پر بڑھتا ہوا دبائو ایک الگ مسئلہ ہے۔ ایل ۔ او ۔ سی  پر بھارتی افواج کی جانب سے آئے روز بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری نے الگ ایل او سی کے قریب رہنے والوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ان سب سے بڑھ کر جو سب سے سنگین اور خوفناک مسئلہ ہے وہ یہ کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روکنے کی پوری تیاری کرلی ہے، کشن گنگا ڈیم کا افتتاح ہونے کے بعد پاکستان میں پانی کا انتہائی خوفناک بحران پیدا ہونے والا ہے، ہماری زمینیں بنجر ہونے والی ہیں، ہمارے کھیت سوکھنے والے ، عوام پانی کی بوند بوند کو ترسنے والے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جو پہلے ہی توانائی کے بحران کا شکار ہے مزید مشکلات میں گھر جائے گا کیوں کہ جب کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کے بعد جب بھارت  پانی کا رخ اپنے علاقوں کی جانب موڑے گا تو دریائے نیلم میں پانی ختم ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ( جس پر کروڑوں روپے لگ چکے ہیں ۔)وہ بھی ختم ہوجائے گا ۔
لیکن ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے ذرائع ابلاغ کے لیے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب آنے والی ہے ۔ ریحام خان کی کتاب نہ ہوگئی نعوذ باللہ کوئی آسمانی صحیفہ ہوگیا کہ جس کے نازل ہونے کا سب کو انتظار ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس صحیفے میں لوگوں کی تقدیریں لکھی ہوئی ہیں ، بس جیسے ہی یہ کتاب آئے گی ، زمین کا سب نظام تہہ و بالا ہوجائے گا، یہ ہوجائے گا  وہ ہوجائے گا۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے، اس صورتحال پر ہمیں یہ شعر یاد آرہا ہے کہ
 وائے   ناکامی  متاعِ  کارواں  جاتا  رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کسی کو اس بات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کوئی ووٹ کو عزت دینے پر تلا ہوا ہے، البتہ ان صاحب کے نزدیک ووٹر کی کوئی عزت نہیں ہے، ووٹر کو ان کے سامنے بری طرح پِیٹا جائے ان کو کوئی پرواہ نہیں۔ایک اور صاحب ہیں جو انصاف کے ترازو کے بجائے انصاف کا بلّا لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں انہوںنے پہلے نیا پاکستان دینے کا وعدہ کیا، پھر نواز شریف کو ’’گو‘‘ کرتے رہے، اس کے بعد اب انہوں نے سوچا کہ دو کے بجائے ایک ہی پاکستان پر اکتفا کرلیا جائے۔
ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کے پاس سوائے نواز شریف اور عمران خان کے کوئی موضوع ہی نہیں ہے، ریحام خان کی کتاب کا اتنا غلغہ مچا ہوا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ریحام خان کیا ہیں؟ ان کی حیثیت کیا ہے؟ ریحام خان ایک عام سی خاتون اینکر ہیں، جس طرح دنیا بھر میں سینکڑوں اینکر ہوتی ہیں۔ ریحام خان کی وجہ شہرت صرف عمران خان کی منکوحہ ہونا اور اب ان کی مطلقہ ہونا ہے۔ عمران خان کے علاوہ ان کا اپنا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ نا تو وہ دانشور ہیں، نا کسی شعبے میں ان کی کوئی غیر معمولی کارکردگی ہے، ناانہوں نے کسی چیز میں تخصص  کیا ہے۔ تخصص (Phd)  تو دور کی بات ہے کی تعلیمی قابلیت ماسٹرز بھی نہیں ہے بلکہ صرف گریجویشن ہیں وہ بھی ذرائع ابلاغ میں نہیں بلکہ ایجوکیشن میں یعنی جومحترمہ کا شعبہ ہے اس کی انہوںنے تعلیم بھی حاصل نہیں ہے، لیکن ہمارا میڈیا ان کی کتاب کے معاملہ کو اس طرح اٹھا رہا ہے گویا کہ دنیا کی کسی نوبل انعام یافتہ دانشور کی کتاب منظر عام پر آرہی ہے۔
خدارا اس طرزِ عمل کو بدلیے ! ملک کے حقیقی مسائل سامنے لائیں ، ان کے اوپر بات کریں، سیاستدانوں سے پانی کے مسئلے پر بات کریں۔ سابقہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے پوچھا جائے  کہ انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے؟حکومت سے پوچھا جائے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں بطور حکومت آپ نے اس مسئلے کے لیے کیا کام کِیا؟ اپوزیشن سے پوچھا جائے کہ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آ پ نے کتنی دفعہ حکومت کی توجہ اس اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی ہے؟ کتنی دفعہ اس مسئلے پر آپ نے اسمبلی سے واک آئوٹ کیا؟
آخری بات یہ کہ سابقہ حکومت نے جاتے جاتے انتخابات کے کاغذات نامزدگی کو تبدیل کردیا۔ کاغذات نامزدگی میں سے آرٹیکل 62،62 کی شرائط ، واجبات کی ادائیگی، اثاثوں کو ظاہر کرنا، دہری شہریت وغیرہ کے خانے نکال دیے ہیں۔ اب کوئی بھی چور ، لٹیرا، غیر ملکی ، بد کار و بد کردار ، فراڈیا انتخابات میں حصہ لے سکے گا اور قانونی طور پر اس کو روکا نہیں جاسکے گا۔لاہور ہائی کورٹ نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے ان تبدیلیوں کو رد کردیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ان کو بحال کردیا ہے ۔ہمارے ذرائع ابلاغ کے لیے شایداس سلگتے ہوئے مسئلے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لیے میڈیا سے یہ مسئلہ بھی غائب ہے لیکن عوام جاگتے رہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ قانونی طور پر اب کسی بھی چور، لٹیرے، فراڈیے، غیر ملکی اور بدکردار شخص پر انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی ہے لیکن آپ لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے ان کو باہر کریں۔ دیانت دار، باکردار، محب وطن لوگوں کو منتخب کرکے دھوکے بازوں کو نکال باہر کریں۔
حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں