“سفر کراچی اور پہلا روزہ”

سفر در سفر میں سیٹ سے پشت لگائے، سر ٹیکے سوچوں میں محو تھا کہ کل روزہ ہو گا یا نہیں؟ اور اسی روزہ کی آمد ساتھ ہی رخت سفر باندھا تھا کہ اب مجھے دوسرے شہر جانا ہی ہے تو رمضان وہیں شروع ہو، روزہ وہیں رکھا جائے، ابھی تو دو دن باقی ہیں۔ اپنے ملک میں ہمیشہ سے جھگڑا رہا ہے اور عرب ہم پر فوقیت لے جاتے ہیں۔ اس سوچ کا بھی عمل دخل تھا کہ سعودیہ میں تو آج روزہ نہیں، سو سفر پر نکلتا ہوں، کل جب ان کا روزہ ہوگا میں وہاں پہنچ جاوں گا اور دوسرے دن روزہ رکھ لوں گا۔ لیکن شام کا سورج اترا ہی تھا کہ شوشہ سنائی دیا کل روزہ ہے۔ ارے!! میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ سعودیہ میں تو نہیں تھا اور ان کا روزہ کل ہے ہمارا پرسوں ہونا چاہیے۔ اس گتھی کو سلجھانے میں مگن تھا کہ فرشتہ بول پڑا، اٹھایا، کان سے لگایا تو خبر ملی کہ روزے کا اعلان ہو گیا ہے۔ لیکن سعودیہ میں تو۔۔۔ بات مکمل نہ ہو پائی تھی کہ جواب ملا بیٹا جی! سعودیہ میں بھی کل ہی روزہ ہے۔ بس پھر خواب تھا کہ چکنا چور ہو گیا اور ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی۔ اب جو خیالوں میں سے پہلا خیال تھا وہ سحری کا کہ کھانا تو ساتھ لایا نہیں، پرلے درجے کے ہوٹل میں کھانا، رسکی تھا۔ پیٹ کو اذیت دینے والی بات تھی۔ خیر! خود کو ریلیکس کیا، سیٹ پیچھے کی، سر ٹکایا اور محو خواب ہو گئے۔ رات گزری، وقت سحر ہوا تو گاڑی ایک بڑے اور تھرڈ کلاس ہوٹل کے سامنے جا رکی، کنڈیکٹر نے اعلان کیا: سحری کر لیں۔ گیٹ کھلا، لوگ گاڑی سے نیچے اترے تو ایک دو بیروں کے سفید دانت نظر آئے۔ مسرت کا ہیجان، چہرے پر رقص کر رہا تھا۔ روزے داروں کو دیکھ کر کاونٹر پر بیٹھے موٹی توند والے نے بیرے پر آوازہ کستے ہوئے دوسرے کو آنکھ ماری تھی۔ میں سمجھ گیا ہوٹل والوں کے وارے نیارے ہو گئے اور روزہ دار، بوقت سحر، بذات خود ذبح ہونے، مذبح خانے میں سر لیے پیش ہو گئے۔ کھانے کی ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ روٹی منگوائی جیسے تیسے چائے کے ساتھ زہر مار کی اور نیت سختی سے باندھ دی۔ کہ ایسا نہ ہو کھل جائے اور روزہ جو بڑی مشکل سے پکڑا کہیں لڑھک نہ جائے۔ اب گاڑی پاں پاں کرتی سواریوں کو خبردار کر رہی تھی کہ “چلو۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ افطاری بھی یہیں کرنی پڑے”۔ سواریاں ہاتھ پونچھتی، زبان منہ میں چلاتی اپنے اپنے سامان کے ساتھ واپس گاڑی میں سوار ہوئیں تو بس چلنے کو تیار تھی۔ اڑتی نگاہ ڈالتے ہوئے کنڈیکٹر نے آوازہ کسا: سب پورے ہیں ناں؟ اپنے اپنے ساتھی دیکھ لیں۔ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے یہاں سحری کے لیے گاڑی روک کر احسان کیا ہو یا اپنی جیب سے سحری کروائی ہو۔ مجھے خود پر ترس سا آنے لگا تھا کہ اچھا خاصا کرایہ دے کر بھی تھرڈ کلاس گاڑی کا تھرڈ کلاس سفر، پرلے درجے کا بداخلاق عملہ اور فورتھ کلاس کے ہوٹل پر ففتھ کلاس سحری۔۔۔ خیر! اب کیا ہو سکتا تھا۔ گاڑی منزل مقصود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ نماز فجر خوب روشن کر کے پڑی اور شہروں، دیہاتوں، بازاروں سے ہوتے ہوئے روشنیوں کے شہر کی طرف بڑھنے لگے۔ اب جو خیال پریشان کر رہا تھا وہ گرمی کی شدت کا احساس تھا۔ کیوں کہ دوست احباب نے بتا دیا تھا کہ کراچی سرک کر سورج کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اب آپ وہاں کی گرمی کا خود اندازہ لگا لیں۔ چوبیس گھنٹے گاڑی کا وقت مقررہ تھا کہ اتنے وقت میں گاڑی پہنچا دے گی لیکن یہاں تو وقت چھبیسویں گھنٹے میں داخل ہو چکا تھا اور ہم ابھی تک اس شہر سے دور تھے۔ گرمی کا احساس تو ہو چکا تھا کہ گاڑی جہاں رکتی، دروازہ کھلتا تو ٹھنڈی گاڑی میں گرم ہوا کے جھونکے داخل ہو کر چہروں بشروں پر چپت رسید کر رہے تھے۔ دراصل گاڑی کے سائق کا تنور تھا جو بھر نہیں رہا تھا یا پھر کمپنی کی پالیسی تھی کہ لوکل سواریاں بھی بٹھائی جائیں۔ یوں ہم لوگوں کی خدمت کرتے کرتے کراچی پہنچے تو دن کے بارہ بجے تھے۔ اور سب سواریوں کے بے رونق چہرے ساڑھے بارہ بجا رہے تھے۔ اچھا! جب جب ڈرائیور کسی راستے کی سواری کو سوار کرتا یا اتارتا تو میں آنکھیں بند کر کے ان کے ٹریمینل میں لگے شکایات بکس کا تصور کرتا اور دل ہی دل میں شکایت کے اندراج کی نیت کرتا تھا کیوں کہ اس کمپنی کے بارے ساری خوش فہمیوں اور تعریفوں پر زنگ لگ گیا تھا جس کا عملہ بھی بداخلاق اور جس کی گاڑیاں بھی غیر آرام دہ، نہ سہولیات نہ ہی کچھ اور۔۔۔ میں نے اٹھتے، سفری بیگ اٹھاتے، تجدید نیت کی، اور گاڑی سے اتر گیا۔ گاڑی سے اترا تو گرم ہوا کے تھپیڑے استقبال کر رہے تھے۔ گرد و غبار، دھول مٹی، اور عجب شور تھا کہ کانوں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن ابھی ایک معرکہ تو باقی تھا کہ دوسرا بیگ بھی گاڑی پر سے اتارنا ہے۔ میں نے سر اٹھایا تو گاڑی کے متعلقہ شخص، گاڑی کی چھت پر تھے۔ جن کے کپڑے گرم ہوا کے تھپیڑوں سے لہرا رہے تھے۔ میں نے ڈرائیور سے اپنے بیگ بارے استفسار کیا تو اس نے کہا جا کر اتار لو۔ اس صاحب کی طرف دیکھا، آواز لگا کر متوجہ کیا تو کہنے لگا مجھے اب کیا پتا تمہارا بیگ کون سا ہے؟ میں نے بیگ پر لگے اس نمبر کی طرف رہنمائی کی جو مانسہرہ سے چلتے وقت گاڑی والوں نے بیگ پر لگایا تھا مگر اس نے صاف انکار کرتے ہوئے نفی میں، من بھر کا سر ہلایا اور پھر چھٹانک کی زبان ہلاتے ہوئے کہا: اوپر آکر کر اتار لو۔۔۔ میں غصے سے دانت کچکاتے اوپر چڑھا، بیگ اتارا، خود آلود نظروں سے گاڑی، دفتر، اور وہاں بیٹھے موٹے تازے بکروں کو دیکھتے ہوئے ایک رکشا کی طرف بڑھ گیا کہ اب مجھے روزہ لگ رہا تھا۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں