تعلیم سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ

خطیب احمد
خالق کائنات کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ایک عمدہ قول کسی بڑے دانا کا ہے کہ ’’ انسان کی زندگی کا منشاء یہ ہے کہ اس کے تمام قوٰی اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نا مناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو‘‘۔ واضح رہے کہ جذبات سوچنے کا کام سرانجام دیتے ہیں اور قوتیں اس سوچ کو عملی شکل دیتی ہیں۔ اگر جذبات اور قوتیں بھرپور ہوں اور دونوں کی آپس میں خوبصورت ترتیب بھی ہو تو ظاہر ہے کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرلیتا ہے۔
انسان کی پہلی درسگاہ اس کا گھر ہوتا ہے، جہاں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ جس سے ایک خاص طرح سے سوچنے اور عمل کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے۔نیک عورت کی گود میں پلنے بڑھنے والا بچہ یقیناً ایک اچھا انسان اور بہتر مسلمان ہوتا ہے اور یہ بچہ ماں کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس میں عزت نفس ،وفا کشی اور غیرت کی وہ تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو خود اس کی ماں میں موجود تھیں۔جہالت دور صرف تعلیم سے نہیں بلکہ پرورش بھی کرتی ہے ورنہ اکثر خاصے تعلیم یافتہ افراد جاہل ہوتے ہیں۔
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا۔اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے۔ یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور سماج کا خیال رکھ سکے۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے۔ اس دنیا میں ایسے افراد بھی جنم لیتے ہیں۔جن کے نزدیک تعلیم و تہذیب کوئی معنی نہیں رکھتی وہ حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور اس فانی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔انسان کادنیا میں برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، اس کے لیے لازمی ہے کہ ہمیں علم ہو کہ انسان کیا ہے اور اس کی تخلیق کا کیا مقصد ہے۔
دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ ورنہ حیوان اور جانور میں کوئی فرق نہ رہتا۔تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے۔ اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے۔آج کے اس پر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ایٹمی ترقی کا دور ہے سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم،انجینئرنگ ،وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔
مسلمان کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔
آج پاکستان میں تعلیم ادارے دہشت گردی کے نشانہ پر ہے دشمن طاقتیں تعلیم کی طرف سے بدگمان کرکے ملک کو کمزور کرنے کے درپہ ہیں۔ ایسے عناصر بھی ملک میں موجود ہے جو اپنی سرداری ،جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اثر و رْسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بچوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، کیونکہ وہ کم اجرت پر ان بچوں سے کام کروانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے دیہاتی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اوران کا مستقبل سیاہ رہ جاتا ہے۔اسی وجہ سے ہمارے نوجوان طبقہ تعلیم کی ریس میں پچھے رہ جاتا ہے۔ دوسری جانب سیاستدان تعلیم کے فروغ اور اس کے پھیلاؤ کے خلاف ہیں۔اس کے علاوہ سرکاری حکام بھی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کے تعلیم کی وجہ سے عوام میں شعور پیدا ہوگا اور اس طرح عوام سیاستدانوں اعلیٰ سرکای حکام کا رویہ بے نقاب ہوجائے گا۔
مغرب کی ترقی کا راز صرف تعلیم کو اہمیت دنیا اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا ہے اورایسی تعلیم کے بل پر انہوں نے فتح کیا ہے۔ مغرب کی کامیابی اور مشرقی کے زوال کی وجہ بھی تعلیم کا نہ ہونا ہے۔دنیا کے وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ان کا دفاعی بجٹ تو اربوں روپے کا ہے، مگر تعلیم بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے ،اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں۔ آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔صرف علم حاصل کرنا ضروری بلکہ اس کا اطلاق ضروری ہے، اسی طرح صرف خواہش کرنا بلکہ اس کے حصول کے لیے عمل کرنا ضروری ہے۔
ہمیں چاہیے کہ تعلیم حاصل کریں اور اس کا صیح استعمال کریں اور اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہونا شروع ہوجائے گا جو جدید علوم سے اگاہی رکھتے ہیں۔

حصہ
mm
خطیب احمد طالب علم ہیں۔ صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل اور تعلیمی امور پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فن خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

2 تبصرے

  1. Great post but I was wondering if you could write a litte more on this subject?I’d be very grateful if you could elaborate a little bit more.Thank you!

جواب چھوڑ دیں