اچھوت ایجوکیشن سسٹم

جس طرح ہندومت میں انسانیت کو ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اسی طرح ہم نے ذہانت کو بھی ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے ۔ برہمن ، ویش ، کھشتری اور شودر یہ ذاتیں جو انسانیت کی تذلیل کرتی ہیں بلکل اسی طرح اے –ون ، اے ، بی ،سی ، ڈی گریڈز اور یہ  فرسٹ ، سیکنڈ ، تھرڈ پوزیشنز ذہانتوں کی تذلیل کرتی ہیں ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں ہم نے پورے پورے سیکشنز ان ” ذاتوں ” کی بنیاد پر بانٹے ہوئے ہیں ۔ برہمن ( اے – ون ، اے گریڈز)  کا سیکشن علیحدہ ، ویش (بی ) والوں کا علیحددہ ، کھشتری ( سی) والوں کا علیحدہ اور شودر ، دلت اچھوت (ڈی )والے بلکل علیحدہ ۔ استادوں سے لے کر اماں ،ابا تک کا رویہ ان بے چارے شودروں اور اچھوتوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہندوستان میں ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ہر جگہ سے طعنے ، تذلیل ، پھٹکار اور ذلت ۔ کسی استاد کے پاس جب کوئی اچھوت کھڑا  ہوتا ہے تو اس کی باڈی لینگویج تک بدل جاتی ہے ۔ آنکھوں سے لے کر دل تک اس کے لئیے حقارت کے جذبات موجزن ہوجاتے ہیں اور جب کوئی برہمن آکر کھڑا ہوتا ہے تو استاد بھی اس کو ویسی ہی عزت دیتا ہے جیسی برہمنوں کو ملتی ہے ۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جب انسانوں کی ذاتوں کو خدا نے تقسیم نہیں کیا تو وہ ذہانتوں  اور دماغوں کو بھلا کیسے تقسیم کرسکتا ہے ؟ ہم نے چھ پرچوں اور تین گھنٹوں میں اپنے بچوں پر  جو ظلم کیا ہے اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اچھا خاصا ذہین بچہ بھی خود کو واقعی نکما سمجھنا شروع ہوجاتا ہے ۔ہم چن چن کر اس کے اند کے ذہین ، باصلاحیت اور قابل دماغ کو کند ذہن بنا کر ضائع کردیتے ہیں ۔

دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے اسکولوں کو اب طے کرلینا چاہئیے کہ اسکول ” سکھانے ” کی جگہ ہے یا “طوطا ” بنانے کی ؟ اور اگر تو مقصد طوطا بنانا ہے  تو برائے مہربانی اس کے لئیے اتنی زحمت نہ کریں ۔ اور اگر واقعی سکھانا مطلوب ہے تو یہ کہاں لکھا ہے کہ سکھانے کے لئیے بورڈ ، مارکر ، چاک ، چار دیواری اور ڈیسک ہونا ضروری ہے ؟ یہ ہمیں کس نے بتایا  ہے کہ بچہ لازمی اسی وقت سیکھے گا جب اس کو پورا بورڈ بھر کردینگے ۔ پھر وہ اس کو اپنی کاپی پر نقل کریگا  اور اس طرح “پپو ” پاس ہوجائیگا ۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی بچے میں 15 سے 20 منٹ سے زیادہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر ایک ہی بات سننے کی استطاعت نہیں ہوتی ہے ۔اسے کچھ نیا اور انوکھا چاہئیے اور ہم بچوں کے ساتھ بڑا ظلم کرتے ہیں کہ جب ایک ہی کلاس میں 6 گھنٹے بٹھا کرکھتے ہیں ۔ اسے ایک بورڈ پر ان کی نظریں جمانے پر اصرار کرتے ہیں ۔ڈسپلن کے نام پر ان کو ڈیسک تک پر سے ہلنے نہیں دیتے ہیں  اور تعلیم کے نام پر ایک ایک گھنٹے کا پیریڈ لیتے ہیں کہ جس کے بعد ایک لفظ بھی بچے کے دماغ میں نہیں بیٹھ پاتا ہے ۔ کیونکہ اس کی ساری دلچسپی تو دروازے اور کھڑکی سے باہر تھی ۔

سب سے بڑا غضب جو ہم نے اپنے بچوں پر ڈھایا ہے وہ ان کے وزن اور قد سے زیادہ بڑا اور وزنی کتابوں سے لدا بستہ ہے ۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ 10 سے 15 کلو کتابوں سے بھاری بستہ لادے بچہ کیسے کچھ سیکھ سیکتا ہے ؟ اگر محض کتابیں لادنے سے ” علم ” آتا تو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہمارے معاشرے میں ” ردی پیپر ” والا ہوتا ۔ جتنی کتابیں اس نے لادی ہوتی ہیں اسکا دور تک کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ان بے تکی اور بے وجہ کتابیں لادنے کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ بچے کو کتاب سے نفرت ہوجاتی ہے پھر وہ ساری زندگی پلٹ کر کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا ہے ۔علم کا تعلیم کا اور سکھانے کا کوئی تعلق ٖصرف کتاب سے نہیں ہے ۔ایچی سن میں پڑھنے والے ایک بچے کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ گھر کی پہلی منزل کی سیڑھیوں پر بستہ رکھنا ہے اور لات مار کر نیچے پھینکتا ہے کہ اتنا بھاری بستہ لاد کر کون نیچے تک لے جائے ؟

یہ ہے ان کتابوں کا ادب اور یہ کسی پیلے اسکول میں پڑھنے والے غریب بچے کی بات نہیں ہے ۔ ایچی سن میں پڑھنے والے ” ایلیٹ کلاس ” فیملی کے شہزادے کا کتابوں کے ساتھ رویہ ہے ۔خدا کے لئیے یہ نام نہاد سیلیبس کی کتابیں ختم کردیں ، ختم نہیں تو کم ضرور کردیں  لیکن “علم ” دے دیں ۔ ادب ، تمیز  ، تہذیب ، انسانیت ، شرافت اور اخلاق سے بچوں کو روشناس کروادیں ۔ہاں کتابوں سے محبت ضرور پیدا کریں تاکہ ساری زندگی وہ کتابوں سے اپنے دل اور دماغ کو منور کرسکے ۔لیکن اسے کتابوں سے لدا گدھا نہ بنائیں ۔

کبھی آپ نے غور کیا کہ محض تین مہینے اسکول جانے والا ایڈیسن بلب سمیت سینکڑوں ایجادات کر بیٹھتا ہے ۔آپ معاشرے میں نکلیں اور جائزہ لیں مکینک کی دوکان پر کام کرنے والا ، موٹر سائیکل کا پنکچر لگانے والا  اور دوکان پر کھڑے ہوکر چیزیں بیچنے والے بچے کی ذہانت بڑے سے بڑے اسکول میں پڑھنے والے بچے سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ بالکل صاف ہے یہ سارے بچے فطرت سے قریب ہوتے ہیں ۔ انسانوں کو ڈیل کرنا جانتے ہیں ۔ صبح سے شام تک سینکڑوں لوگوں کے رویے دیکھتے ہیں ۔ ان کو معاشرہ ، وقت اور فطرت سکھاتی ہے ۔ اور اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا فطرت سے انسانی رویوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں پڑتا ہے ۔

جس دن بچے پیپر دے کر دو گھنٹے پہلے اسکول سے آجائیں  سارا دن امائیں ان کی خدمتیں کرتے گذارتی ہیں ۔ابا منہ میں سونے کا چمچ دے کر رکھتے ہیں  کہ “پپو بڑا آدمی بنے گا ” ۔ لیکن پپو کی ساری اسٹوری بس “پاس ” ہونے تک کی ہے ” بڑا آدمی ” بننے کی نہیں ہے ۔ کیونکہ برا آدمی بننے کے لئیے جو کچھ چاہئیے ہوتا ہے ماں کا ” لاڈلہ ” اس سے نا آشنا ہوتا ہے ۔

ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ، اسکولوں کو فطرت کے قریب کرنا ہوگا ۔ ہمیں کلاس رومز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا  اور روایتی طریقوں کو خیرباد کہنا ہوگا ۔ ہمیں اس  ” اچھوت ایجوکیشن سسٹم ” کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں