کراچی میں افطار کے رنگ

رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے معمول بدل دیتا ہے ، کراچی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں کی راتیں جاگتیہیں،لیکن ہجری کلینڈر کے نویں مہینے شہر کے مختلف علاقوں میں یہ رونقیں رات سے آگے بڑھ کرسحری تک بڑھ جاتی ہیں ۔دوپہر میں کھلنے والی فوڈ اسٹریٹس ،ریسٹورینٹس ،فاسٹ فوڈ پوائنٹس ، چائے کے ہوٹلوں سمیت ٹھیلوں پر اشیاء فروخت کرنے والے بھی افطار سے قبل کام شروع کرتے ہیں ا ور یہ انتہائے سحر تک جاری رہتا ہے۔
کراچی میں افطار کے بعد کھانے پینے کے شوقین لوگ برنس روڈ،حسین آباد، ایم اے جناح روڈ، سی ویو، بوٹ بیسن، فائیو اسٹار چورنگی،رنچھوڑ لین،طارق روڈ ،بہادرآباد،سیون اسٹار چورنگی پرموجودچٹخارے دار کھانوں کے ریستورانوں اور فورڈ اسٹریٹوں کا رخ کرتے ہیں۔شہر بھر کے بازاروں میں نت نئے خوانچہ فروش دیکھنے کو ملتے ہیں جوکہ سال بھر مختلف کاموں میں مصروف رہتے ہیں لیکن رمضان میں ہر گھر کا دسترخوان اس قدر وسیع ہو تا ہے کہ یہ اناڑی بھی عید کی بھرپور تیار کر لیتے ہیں۔
رمضا ن کی افطاری میں سب سے زیادہ اہمیت پکوڑوں کو حاصل ہے ، بیشتر گھرانوں میں پکوڑے نہ ہوں تو افطار کا دسترخوان مکمل نہیں ہوتا۔شہر بھر کی مختلف بیکریوں میں جہاں سال بھر صرف رولز اور سموسے فروخت ہوتے ہیں وہاں بھی پکوڑوں کی فروخت کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے ، جس میں آلو کے پکوڑوں خصوصی طور پر طلب کئے جاتے ہیں جبکہ مسالے بھری مرچیں بھی بیسن میں تلنے کے بعد چٹخارے پسند کرنے والوں کی اولین ترجیح ہوتی ہیں۔فروٹ چاٹ اور چناچاٹ سمیت دھی بڑے بھی بڑے پیمانے پر فروخت ہوتے ہیں ۔عام دنوں میں دن بھر حلیم اور بریانی فروخت کرنے والوں کا کام بھی عصر کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور رمضان میں دسترخوان کی وسعت کی وجہ سے دن میں دکان یا اسٹال نہ کھلنے کی کسر نکل جاتی ہے۔
شہر کی سب سے پرانی اور مشہور فوڈ اسٹریٹ رمضان میں تو گویااس قدر مصروف ہوجاتی ہے کہ وہاں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور کھانے پینے کی ایسی کون سے شے ہے جو وہاں دستیاب نہیں ہوتی ۔ دہلی کے مشہور دہی بڑھے ہوں یا ، مزیدار حلیم ، فوڈ سینٹر کی بریانی ہو یا ملک کی نہاری، وحید کے کباب یا بابو بھائی کے بن کباب، آزاد بن کباب والا بھی رمضان میں روزہ داروں کی شکم سیری کا سامان مہیا کرتا ہے ، مختلف اقسام کے معیاری و غیر معیاری شربت،فریسکو کے سموسے اور رولز، باربی کیو شاپس سے چکن تکہ، ملائی بوٹی، گولہ کباب، پراٹھہ رول عام دنوں میں شاید اتنے فروخت نہیں ہوتے جس قدر رمضان میں ہوتے ہیں۔حیران کن طور پر رمضان میں افطاری کے وقت جلیبی بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے ۔ برنس روڈ کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آواری ٹاورز میں ’’برنس روڈ اینڈبار بی کیو ڈی لائٹس ‘‘کے ذائقے پیش کئے جاتے ہیں ۔
افطاری میں گول گپے اور گولے گنڈے کا رجحان تھوڑا کم ہے لیکن تروایح سے پہلے اور بعد اس کا دور چلتا ہے ۔ گولے گنڈے کے لئے تو کراچی بھر میں دھورا جی مشہور ہے اور رمضان میں تو برنس روڈ کی طرح دھورا جی بھی کھانے پینے کی اشیاء فروخت کا مصروف مرکز بن جاتا ہے ، جہاں مچھلی، بن کباب، حلیم ، چنے، شاورمہ، لماڈرنک، سستی سافٹ ڈرنکس، پانی پوری وغیرہ فروخت ہوتی دکھائی دیتی ہیں ۔ عصر کے بعد سے شروع ہونے والی رونق سحری تک چلتی رہی ہے۔
رمضان پہلے عشرے میں عموماً گھروں پر افطاری کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور روزہ داروں کی توجہ فاسٹ فوڈز کی جانب بھی زیادہ نہیں ہوتی جس کی بناء پر ریسٹورینٹس مختلف پیکجز اور ڈیلز متعارف کراتے ہیں جن میں عموماً کم قیمت کھانوں کے ساتھ مفت افطار کی پیشکش کی جاتی ہے ، ان ریسٹورینٹ کی زیادہ تعداد ڈیفنس ، کلفٹن اور گلشن اقبال میں موجود ہے۔
شہر کے بڑے ہوٹل پرل کانٹی نینٹل ، موو این پک،آواری ٹاورز، ریجنٹ پلازا، بیچ لگژری ، رمادا پلازا،میریٹ میں افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے،جس میں ملکی و غیر ملکی کمپنیاں اپنے مہمانوں اور ملازمین کے لئے افطار ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں ، ساتھ ہی دیگر کاروباری افراد کی جانب سے بھی ان ہوٹلوں کو افطار ڈنر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، اوسطاًہر ہوٹل میں یومیہ 500سے زائد مہمان افطار کرتے ہیں ۔ شہر کے سب سے مشہور بوفے ریسٹور رینٹ لال قلعہ کے بعد اب دیگر کئی ریسٹورینٹس بھی افطار بوفے کا انتظام کرنے لگے ہیں ۔افطار میں پیزا بھی مقبول ہے اور اس کا اندازہ ماضی میں پیزا ہٹ کی رمضان میں افطاری کے موقع پر ’جتنا کھا سکتے ہو‘ڈیل نے بھرپور شہرت سے لگایا جا سکتا ہے اور اب تو اس کی دیکھا دیکھی گلی محلوں میں کھلنے والی پیزا آؤٹ لٹس نے بھی پیزا بوفے شروع کر دیا ہے۔
مساجد میں نمازیوں ،امام مسجد، موذن سمیت دیگر عملے کے لئے گھروں سے افطار بھیجنے کی روایت اب بھی قائم ہے ، اس افطار میں نمازیوں کے ساتھ محلے کے بچے بھی شریک ہو جاتے ہیں ، پو ش علاقوں میں قائم مساجد میں افطار کا اہتمام مسجد انتظامیہ کی جانب سے کیا جاتا ہے جس میں عام طور پر مسافر نمازی اور آخری عشرے میں معتکفین فیضیاب ہوتے ہیں ۔ مسجد میں افطار کا خوبصورت منظر بولٹن مارکیٹ میں واقع میمن مسجد میں دیکھا جاتا ہے، جہاں ہر روزے میں افطار کے وقت سیکڑوں مسافر، دکاندار، خریدار ، نمازی روزہ کھولنے کے ساتھ ساتھ لنگر کے کھانے سے بھی پیٹ بھرتے ہیں۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی افطار پارٹیوں کا اہتما م کیا جاتا ہے ، جن میں متحدہ قومی موومنٹ(اس بار پی آئی بی اوربہادرآباد کی الگ الگ افطار پارٹی ہونے کا امکان ہے)،جماعت اسلامی ، جمیعت علماء 129129پاکستان، جماعۃ الدعوۃ ،پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ،مسلم لیگ ن اور دیگر شامل ہیں ۔ ساتھ ہی مختلف این جی اوز بھی نیکی کے اس کام میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں ۔ ان پارٹیوں میں عمومی طور پر انتظامات محدود اور شرکاء کی لا محدود شرکت کی وجہ سے عموماً بد نظمی دیکھنے میں آتی ہے۔مختلف علاقوں میں شہریوں کی جانب سے بھی محلے داروں ،دوستوں اور احباب کے لئے گھر کے باہر یا لان میں افطار پارٹیاں منعقد ہو تی ہیں۔
کراچی میں صحافیوں کے لئے موجود کراچی پریس کلب میں بھی افطار کا سبسڈائزڈ افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس میں صحافیوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے اور اس افطار کی خاص بات اس کا بھرپور ہونا ہے ، یعنی کھجور، چنا چاٹ، فروٹ چاٹ ، پکوڑے، رول اور جگ بھر کر لال شربت جس میں لیموں بھی ملایا جا سکتا ہے۔ عام دنوں میں اگر کلب کا کوئی رکن کسی کو ساتھ کھانے پر کلب لے جائے تو اسے گیسٹ فیس ادا کرنا ہوتی ہے لیکن افطاری میں یہ پابندی لاگو نہیں ہوتی۔کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور)کی جانب سے بھی صحافی برادری کے لیے دعوت افطار کا اہتمام ہوتا ہے لیکن اس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات شریک ہوتی ہیں، اس بار اس افطار ڈنر کا اہتمام 17رمضان بروز ہفتہ کیا جا رہا ہے۔
شہر بھر کی اہم شاہراہوں پررمضان میں 5سو سے زائد مقامات پر افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ان میں اکثر کے منتظمین کو کوئی نہیں جانتا یعنی وہ سامنے نہیں آنا چاہتے ، ان کا یہ عمل خالصتاً اللہ کے لئے ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق رمضان المبارک میںیومیہ 25 لاکھ سے زائد افراد مختلف شاہراہوں پر افطار کرتے ہیں، شاہراہوں پر فلاحی تنظیموں نے دسترخوان قائم کیے ہیں جہاں رمضان میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی روزہ افطار کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ،شہر کی عام شاہراہوں ، گزر گاہوں، بس اسٹاپس، چوراہوں اور عوامی مقامات پر فلاحی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ ساتھ شہری اپنی مدد آپ کے تحت بھی افطار دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ مسکن چورنگی بھایانی ہائٹس کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی افطار و کھانے کا انتظام مسلسل 10برسوں سے جاری ہے۔
کراچی میں اس خدمت خلق کے جذبے میں عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، چھیپا ویلفیئر ٹرسٹ، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی،جعفریہ ڈیزاسٹر سیل اور دیگر فلاحی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔شہر کی مختلف شاہراہوں پر نوجوان ٹولیوں کی شکل میں افطار سے قبل گاڑیوں میں سوار افراد موٹر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں میں افطار کے بکس ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور جوس کے ڈبے تقسیم کرتے ہیں جبکہ بیشتر مقامات پر مخیر حضرات اپنی مدد آپ کے تحت دسترخوان لگاتے ہیں جہاں افطار کے علاوہ کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت روزانہ ہزاروں افطار اور سحری بکس تیار اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔
اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے آن لائن فوڈ سروسز کا کاروبار بھی عروج پر ہے ، کمپنیوں کے تیار کردہ فروز ن سموسے ، رولز، پیری بائٹس، وون ٹون کے ساتھ پراٹھے بھی تیار کرکے گھروں پر پہنچائے جا رہے ہیں، اس کے لیے CODیعنی کیش آن ڈیلیوری ماڈل سب سے کامیاب تصورکیا جاتا ہے۔
شہر میں حالات بہتر ہوتے ہی چائے کے ہوٹلوں نے ہر گلی محلے میں کھمبیوں کی طرح نمودار ہونا شروع کردیا ہے، اور اب رمضان میں ان کا افطار کے بعد جو شروع ہوتا ہے سحری تک مسلسل چلتا رہتا ہے، کیونکہ پٹھان کے ہاتھ کے لچھے دار پراٹھے سحری میں بہت شوق سے تناول کئے جاتے ہیں۔

حصہ
عبد الولی خان روزنامہ جنگ سمیت متعدد اخبارات و جرائد میں اپنے صحافیانہ ذوق کی تسکین کے بعد ان دنوں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔انشاء پردازی اور فیچر رپورٹنگ ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں