سانس کی بیماری اور روزہ

پاکستان میں سانس یا پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہیں۔ سانس کی بیماری جسے دمہ (Asthma) کہتے ہیں ہر عمر کے افراد میں عام ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں کی بیماریاں بالخصوص پھیپھڑوں کی ٹی بی پاکستان میں عام بیماری ہے۔ ان بیماریوں کے شکار بہت سے افراد رمضان میں روزے رکھتے ہیں یا روزے رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
میڈیکل سائنسز نے ثابت کیا ہے کہ روزے رکھنے کے نتیجے میں دمہ بہتر ہو جاتا ہے۔ دراصل دمہ الرجی کے نتیجے میں ہوتا ہے، الرجی کی جتنی بھی بیماریاں ہیں وہ روزے رکھنے کے نتیجے میں بہتر ہو جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ روزے کے دوران جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے جو کہ ایک ہارمون ہوتا ہے، یہ ہارمون دمے کے علاج میں مفید ثابت ہوتا ہے اور اس بیماری کو اندرونی طور پر سے کنٹرول کر لیتا ہے۔ اسی طرح دیگر ہارمونز جو Anti histamine کہلاتے ہیں ان کی سطح بھی خون میں بڑھ جاتی ہے جس سے الرجی کی بیماریاں اور سانس کی بیماریاں بہتر ہوجاتی ہیں۔
سانس کی بیماری میں مبتلا افراد کو رمضان میں بعض اوقات کافی احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ بعض غذاؤں کے استعمال، غذائی بے احتیاطی یا موسم کی وجہ سے بھی یہ مرض بڑھ جاتا ہے، اس صورت میں سانس کے مریضوں کو دوا استعمال کرنی چاہیے۔ سانس کی بیماریوں کا علاج بالعموم inhaler اور Nebulizer کے ذریعے ہوتا ہے۔ زیادہ تر مریض دن میں اگر دو مرتبہ سحر اور افطار کے وقت inhaler لے لیں تو سانس کی بیماری مکمل کنٹرول میں رہتی ہے۔ اگر وہ نیبولائزر دن میں دو مرتبہ لے لیں تب بھی بیماری کنٹرول میں رہتی ہے۔ سانس کے امراض کی دوائیں رات کے وقت استعمال کی جا سکتی ہیں۔
ایک سوال علما اور ڈاکٹروں سے بار بار کیا جاتا ہے کہ روزے کے دوران سانس کی تکلیف بڑھ جائے تو کیا inhaler یا نیبولائزر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بہت سے علما کے رائے ہے کہ یہ استعمال نہیں کرنے چاہئیں اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اس مسئلے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ علما اور ڈاکٹروں کو بحث کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسی دوا جو Life saving دوا بھی ہے اور سانس کے مرض میں استعمال بھی ہوتی ہے اس کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے کہ مریض روزے رکھ سکے، اس کی صحت بھی بہتر ہو اور اس کے روزے پر بھی کوئی فرق نہ پڑے۔ لیکن روزے کے علاوہ عام اوقات میں inhaler استعمال کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، اسی طرح گولیاں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ بعض دوائیں روزے میں تھوڑی سی مشکل پیدا کرتی ہیں، یہ اینٹی ہسٹامنز یعنی الرجی کی دوائیں ہوتی ہیں جو بعض اوقات جسم میں خشکی پیدا کرتی ہیں یا جسم کے اندر ایسی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس سے پیاس زیادہ لگتی ہے۔ ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح کی دوائیں افطار کے وقت استعمال کی جائیں، انہیں سحری میں نہ لیا جائے۔ اس طرح ان دواؤں کے نقصان دہ اثرات بھی بچا جا سکتا ہے اور اپنے روزے کو بھی بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
سانس کی بیماری میں جن لوگوں کو الرجک Rhinitis ہوتا ہے، ان کو الرجی کی وجہ سے بار بار چھینکیں آتی ہیں، ان کی ناک بند ہو جاتی ہے، ایسے مریضوں کو nasal اسپرے کے استعمال کی اجازت نہیں ہے، اس لیے کہ جو دوا ناک میں ڈالی جاتی ہے وہ منہ اور حلق میں پہنچ جاتی ہے لیکن یہ دوا روزے کے علاوہ عام اوقات میں استعمال ہو سکتی ہے۔ اب ایسی Long Acting دوائیں آچکی ہیں جو اسٹپرائڈ ہوتی ہیں جو nasal اسپرے کی شکل میں ہوتی ہیں جن کو اگر صبح اور شام استعمال کر لیا جائے تو وہ ۲۴ گھنٹے کے لیے کافی ہیں۔
سانس کی بیماری میں بعض اوقات Asthma کا اٹیک ہو جاتا ہے، ایسے میں مریض کو روزہ توڑ دینا چاہیے، فوری طور پر نیبولائزر یا inhaler استعمال کرنا چاہیے اور انجکشن بھی لیے جاسکتے ہیں۔ انجکشن کا استعمال روزے کو نہیں توڑتا۔ اگر دمہ کا ہلکا اٹیک ہے تو بعض اوقات ایسے انجکشن لیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے اٹیک کنٹرول میں آ جائے۔ اس سے سانس میں بہتری آ جاتی ہے، لیکن اگر بہتری نہ آئے اور انجکشن دستیاب نہ ہو تو پھر روزہ توڑ دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ دمہ کا اٹیک بعض اوقات Nebulizer اور inhaler کے بغیر کنٹرول میں نہیں آتا اور وہ جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
پھیپھڑوں کی بیماریوں میں ایک عام بیماری پھیپھڑوں کی ٹی بی ہے، اس طرح کی ٹی بی میں دوائیں مسلسل استعمال کرنی ہوتی ہیں، اور یہ علاج کئی مہینے یا ایک سال تک جاری رہتا ہے۔ اس ٹی بی میں مبتلا مریض علاج کروا رہا ہو تو اسے ماہرین طب کا مشورہ یہ ہے کہ ٹی بی کی دواؤں کے استعمال کے پہلے دو مہینے کے دوران مریض روزہ نہ رکھے تو بہتر ہے کیونکہ یہ دوائیں کافی سخت ہوتی ہیں اور جسم کے میٹابولزم کو کافی تبدیل کر دیتی ہیں جس کے نتیجے میں صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ابتدائی دو مہینوں میں ٹی بی کی دوائیں زیادہ استعمال ہوتی ہیں، بالعموم ایک ساتھ ۴ دوائیں لیتے ہیں۔ اگر ابتدائی دو مہینے گزر چکے ہیں، ٹی بی کنٹرول میں آ چکی ہے اور دوائیں تعداد میں کم ہو چکی ہیں تو اس صورت میں روزے رکھے جا سکتے ہیں اور سحر اور افطار میں دوا لی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات کوشش کی جا سکتی ہے کہ یہ دوائیں سحر کی بجائے افطار میں لی جائیں لیکن ٹی بی کی دواؤں کا استعمال روزے کے دوران رمضان میں ترک نہیں کرنا چاہیے۔
سانس کی بیماری میں مبتلا بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ لوگ رمضان میں سگریٹ کا استعمال کم کر دیتے ہیں، اور روزہ رکھنے والے افراد پورے رمضان سگریٹ کا استعمال ترک یا کم کر دیتے ہیں۔ سگریٹ سے ہونے والی سانس کی تکلیف رمضان میں بہتر ہو جاتی ہے جس سے انفیکشن اور سانس کی بیماری کم ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے علما اور محققین نے دو اہم باتیں بتائی ہیں۔ کوئی روزہ دار ایسی جگہ پر جائے جہاں لوگ سگریٹ پی رہے ہوں اور وہ اختیاری طور پر وہاں گہرے گہرے سانس لے تاکہ سگریٹ کا دھواں اس کے پھیپھڑوں میں چلا جائے، تو علما کہتے ہیں کہ اس طرح روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس عمل کو سیکنڈری اسموکنگ کہتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو رمضان میں Asthma کا اٹیک بڑھ جاتا ہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے اور یہ تیزابیت Reflux کے ذریعے دمہ کے حملے کو بڑھا دیتی ہے۔ بالعموم اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ رمضان میں چکنائی والی چیزوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، مرچ مصالحوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے جس سے تیزابیت کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ Reflux کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ یہ تکلیف جتنی زیادہ ہوگی، دمہ کے دورے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ اس لیے جن افراد کو رمضان میں بار بار دمے کا دورہ ہو رہا ہو ان کو ایک طرف کھانے پینے میں احتیاط کرنی چاہیے اور دوسری طر ف ایسی دوائیں استعمال کرنی چاہئیں جو تیزابیت کم کریں۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں