تقویٰ کی اہمیت

دین اسلام میں تقویٰ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ،جتنے بھی انبیاء علیھم السلام اس دنیامیں تشریف لائے سب کے دل تقویٰ جیسی دولت سے سرشارتھے اور ان سب کااپنی قوم سے صرف یہی مطالبہ تھاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور تقویٰ والی زندگی بسرکریں۔
اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟عربی لغت میں تقویٰ کامعنی ہے بچنا،ڈرنااور پرہیز کرنااور اس کااصطلاحی مفہوم یہ بنتا ہے کہ انسان کاہر قسم کے گناہوں سے اپنے نفس کی حفاظت کرنا۔چاہے وہ گناہ ظاہری ہوںیاباطنی ان تمام چیزوں سے بچنا جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو ۔ابن معتز ؒ ؒ ؒ نے اپنی منظوم کلام میں انہی معنی کو اختیار کرتے ہوئے فرمایاہے:’’تم چھوٹے اوربڑے گناہوں سے دوررہو یہی تقویٰ ہے اور اس طرح زندگی گزاروجس طرح خاردارزمین پر چلنے والاکانٹوں کودیکھ کراس سے بچ کرچلتا ہے،چھوٹے گناہوں کو حقیر نہ سمجھو،کیوں کہ کنکریوں ہی سے پہاڑبنتے ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم1/402 (
تقویٰ کی اہمیت کااس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آقا دوجہاں نبی کریمﷺنے اپنے پیارے صحابی سیدناحضرت معاذرضی اللہ عنہ کوایک وصیت کرتے ہوئے فرمایا:’’تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہواور برائی کے پیچھے نیکی لگادو،وہ اس برائی کو مٹادے گی اور لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘(ترمذی کتاب الصلاۃحدیث(616
اللہ رب العزت نے اپنے ایمان والے نیک بندوں کے لیے جنت تیار کررکھی ہے ،وہ بندے جو دنیامیں رہتے ہوئے اپنی مرضی کی زندگی نہیں گزارتے، تو اس جنت کے حصول کے لیے جو سب سے زیادہ چیز سبب بنتی ہے وہ ہے’’ تقویٰ ‘‘چنانچہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھاگیا:سب سے زیادہ کون سی وہ چیز ہے جو لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی؟آپﷺنے ارشادفرمایا :’’اللہ کاتقویٰ اورحسن اخلاق‘‘۔
دنیاکی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھیج کرہم پرواضح کیاہے کہ انسان ہر موڑپرسوچتے ہوئے ،کہتے ہوئے،سنتے ہوئے،دیکھتے ہوئے،اپنے اعضاء سے کام کرتے ہوئے امتحان میں ہے۔یہ ابتلاء ہے ،آزمائش ہے کہ اس نے دوچیزوں میں سے ایک کاانتخاب کرناہے۔وہ دو چیزیں کیا ہیں؟اللہ کاپورا کلام اورپوراقرآن کیابنناسکھاتاہے ؟متقی۔لہٰذاتقویٰ بنیادی چیزہے اورکلام متقی بناناچاہتاہے ۔اگرکلام کی بجائے انسان دنیاکی محبت میں مبتلاہوجائے توزیادہ سے زیادہ کہاں تک پہنچ سکتاہے؟فجورتک۔دیکھیے پہلے فسق ہے ،پھرمعصیت ہے اورپھر فجور ہے۔اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا سب سے گراہوا درجہ فجور ہے ۔سب سے گرا ہواانسان وہ ہے جو فاجر ہے۔اخلاق کے حوالے سے دو چیزوں کو ذہن میں رکھناضروری ہے :تقویٰ اور فجور۔ہر سوچ تقویٰ تک لے جاتی ہے یافجورتک۔تقویٰ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور فجوراللہ تعالیٰ سے بے خوفی ہے۔یہ وہ روئیے ہیں جہاں تک ہم آن پہنچے ہیں،اللہ تعالیٰ کاخوف یا اللہ تعالیٰ سے بے خوفی!
اللہ تعالیٰ کا خوف ایک انسان کے اندرکس طرح پیداہوتا ہے ؟نیت سے ،ارادے سے ،ارادے کے بغیر نہیں۔حسن نیت اورخیر کاارادہ ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ سے بے خوفی کیسے پیدا ہوتی ہے؟یہ بات بہت خاص ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے یہ انتظام کیاہے کہ اُسے عقل عطاکی اوراچھائی برائی کی پہچان اسے قدرتی طور پردے دی ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:’’انسان کواس کاتقویٰ اوراس کافجور دونوں عطاکردیئے ہیں۔‘‘انسان کے لیے بہتر کیاہے ؟اس کے لیے خراب کیاہے ؟اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے اس کو الہام کردیاہے۔ہر انسان کے اندرتقویٰ اور فجورکی شناخت موجود ہے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتظام موجود ہے۔تقویٰ اور فجور کاالہام فطری چیزہے۔
کچھ چیزیں تو انسان کے اندر ہوتی ہیں جن سے وہ متقی بھی بن سکتا ہے اورفاجر بھی اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو باہر سے مدد کرتی ہیں۔مثال کے طور پر فجور کو شیطان کرتا ہے ۔اگر انسان ایک بری نیت کرلے مثلا یہی نیت کرلے کہ میری فلاں مجبوری ہے جس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے اوراللہ رسول کی اطاعت کرنے کے قابل نہیں تو یہ اس کی بری نیت ہے ،براارادہ ہے۔اب کیاہو گا،اب اسے شیطان کی رہنمائی ملے گی،جنات میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی ۔کبھی اپنے پیارے ہی شیطان بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایک طرف بیرونی طور پر شیطان فجور کی مدد کررہاہے اوردوسری طرف تقویٰ کو کون مدد دیتا ہے ؟انبیاء ؑ اور ان کے بعدداعی الی اللہ کی طرف دعوت دینے والے ۔
دعوت بیرونی عامل ہے اورتقویٰ اندرونی عامل ہے ۔تقویٰ کی ترغیب ہے عذاب الٰہی کا ڈراوا،دنیاکی خوش بختی اورآخرت کی نجات۔یہ ترغیب ہی تو ہے کہ دنیامیں ایسی زندگی گزاریں جس کی وجہ سے دنیامیں بھی اطمینان ہو گا اور آخرت میں بھی نجات ہوگی اورہمیشہ کی کامیابی مقدربنے گی۔دوسری طرف عذاب کا ڈراواہے کہ اگر تقویٰ کی زندگی اختیار نہ کی تو دنیاکی بد بختی ہے ،شقاوت ہے ،جیساکہ اہل جہنم اللہ تعالیٰ سے کہیں گے :’’اے ہمارے رب!ہم پر بد بختی غالب آگئی تھی ۔‘‘ وہ بد بختی کاآغازاس لیے تھا کہ بری نیت تھی ایک بار کوئی بری سوچ ذہن میں لے آئیں تواگلا کام خود بخود شروع ہو جاتاہے اوردعوت کیاہے؟تقویٰ کی ترغیب اور عذاب کاڈراواکیاہے ؟اگرکوئی تقویٰ اختیار کرلیتاہے تواس کے دونوں جہان روشن ہوجاتے ہیں اور یہی تقویٰ کاحصول ہے ۔
ایک حقیقی مسلمان اپنی روح کو تقویت اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے تقویٰ جیسی عظیم خوبی کو اپناشعار بناتاہے اور اسی تقویٰ کی بدولت وہ متعدد قسم کی عبادات کاسہارا بھی لیتاہے جنہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے انجام دیتاہے۔جیسے وقار ،تدبر اورخشوع کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت،عاجزی اور حاضر قلبی کے ساتھ اللہ کاذکر ،تمام شروط کے ساتھ خشوع و خضوع اور حاضرین کے ساتھ نماز اور دیگر عبادات کو اتنی خوش اسلوبی سے اداکرتاہے ،یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کو تقوی کااتنا خوگر بنالیتاہے کہ اس کاعبادات کرنااور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کرنااس کی عادت اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور ان میں انقطاع اور توقف بھی نہیں ہوتا۔اس کے نفس اور شعورو احساس میں رقت پیداہوجاتی ہے،اس کے حواس بیدار رہتے ہیں اور وہ بیشتر اوقات بیدار ،ہوشیار ،کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کادھیان رکھنے والا اور لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے میں اللہ کی خشیت کا استحضار رکھنے والا ہوتاہے۔وہ کسی پر ظلم وزیادتی نہیں کرتااور حق پر ڈٹارہتا ہے حق سے پیچھے نہیں ہٹتااور سیدھے راستے سے انحراف نہیں کرتا۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے رشتہ داروں اور نیک دوستوں سے ملاقاتیں کرتاہے ان سے تقویٰ کے حصول کے لیے اس موضوع کو ز یر بحث لاتا ہے اورپھر مل کر معاشرے میں لوگوں کی اصلاح کے لیے آپس میں ایک نظام ترتیب دیتے ہیں تاکہ معاشرے کے لوگوں کے نفسوں میں بھی تقویٰ جیسی عظیم دولت سما جائے جس کی وجہ سے لوگو ں کی بھی دنیاوآخرت سنورجائے۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں