’’بیس سال بعد‘‘

کھیر کی پیالی میں چمچ ہلا تے ہوئے میری نظریں اس ہستی پہ مرکوز تھیں ،جسے میں نے بچپن میں سد سکندری کی مانند دیکھا۔عورت خدا کی وہ تخلیق کہلاتی ہے ،جسے زمانہ جاہلیت میں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ پھراسلام نے اس کے سر پہ ماں ، بہن ، بیٹی ، بیوی کے ایسے تاج سجائے کہ اس کی عزتوں رفعتوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا گیا۔ وقت کے فرعونوں کی آمد ہر دور،ہر طبقہ ہائے زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں ہوتی رہی ۔میں جس ہستی کے سامنے بیٹھا تھا ،اُس کی آنکھوں میں میں نے ماضی سے شکوے کا ایک حرف تک نہیں دیکھا۔دیکھے تو بس تشکر کے دریا بہتے دیکھے۔ تسبیح کے دانوں سے’’ اللھم لک الحمد ولک الشکر‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی سنیں۔ آج کئی برسوں بعدایک ظالم کی وحشت و دردناکی کاسورج غروب ہوچکا تھا اورمیری اماں کے صبر کا برسوں پورانا بویا پودا تناآور درخت بن چکا تھا۔اسی بیچ گزرے وقت کی روانی میں میں بہتاہوا ، سوچوں میں گم گشتہ ، اپنی زندگی کی دسویں بہار میں جا کھڑا ہوا۔کتابِ زندگی کے اس دسویں پنے پہ جو کچھ درج تھا ،میں اسے نم ناک آنکھوں سے پڑھنے لگا۔کہتے ہیں شکر کا اچھا طریقہ یہی ہے کہ اپنے ماضی میں جھانکا جائے تاکہ ماضی و حال کا تقابل کرکے ناشکری سے بچاجا سکے ۔اب آتے ہیں کتاب کے دسویں ورق پر ۔اس دور روانی میں لوگ ہمیں کم عقل بچہ سمجھتے تھے۔ لیکن ہم اپنی سمجھ بوجھ پر سر دھنتے نہ تھکتے۔جب اونچے اونچے کھجور کے درختوں پہ پکے ہوئے پھل توڑنے کے لیے گاؤں کے بڑے بڑے پہلوان و دانشور ناکام ہوجاتے تھے ، تب ہم کسی پھرتیلی بلی کی مانند اوپر چڑھ جاتے۔ہم نے یہ نڈر و بہادری والے کام کرنا ،اسی حوصلہ مند اماں ہی سے تو سیکھے تھے۔
جنوبی پنجاب کے اس پسماندہ دیہی علاقے کے 150گھروں پر مشتمل گاؤں کو چناب و راوی کی خون خوار دھاڑیں جب سنائی دیتیں ،تو پورا گاؤں آسودہ حال کی خاطر یہاں سے وہاں کوچ کر جاتا۔ایک گھر تھا، جسے انبوہ زمانہ کے شانہ بشانہ چلنے اور اس زمانہ کی بہت سی بے ہودہ روایات سے چڑ تھی۔اس گھر اور اس کی مالکن کو زمانے سے لڑنے اور اس کے نتیجے میں آنے والے اپنے انجام کی فکر نے افسردہ نہیں کیا تھا۔ ان کے نام میں شاید استقامت کا خمیر ملا تھا۔حوصلہ مندی ،ہمت و جسجتو کی ایک زندہ مثال۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود بر خستہ کنول ۔ عقل و شعور کا سرچشمہ ۔ان کی سنجیدگی طمانت کا پورا گاؤں شاہد تھا۔ ان کی آواز میں ایک کڑک ایک ہیبت تھی۔ آواز میں ایسی گونج، کہ شیر دل انسان بھی اپنے ہوش کھو بیٹھے۔ پھر ایسی ہی ان کی ایک آواز میرے کانوں پہ دستک دینے لگی۔اُس وقت گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی۔کسی گھر کے بڑے مگر کچے صحن میں دس بارہ چارپایاں ترتیب وار بچھی ہوئی تھیں۔موسم گرم ہونے کی وجہ سے پانی کا ہلکا سا چھڑکاؤ کر دیا گیا تھا۔جس سے مٹی دھیمی خوشبو مہکا رہی تھی۔چاند کی روشنی درختوں کے پتوں سے اٹھکیلیاں کرتی زمین پہ لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ستارے آج کا منظر دیکھنے کے منتظر تھے۔یہ گاؤں کی روایات میں تھا، جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا، گاؤں کے کسی گھر کو اکھاڑا بنا دیا جاتا۔کٹھ کیا جاتا۔ گاؤں کے وڈیرے پنچائیتی جج جمع ہوتے۔فریقین کے بھی چیدہ افراد حاضر ہوجاتے ۔جن میں خواتین بھی شامل ہوتیں۔ پھراْسی اکھاڑے میں کوئی ایک فیصلہ صادر کر دیا جاتا۔کسی کی زمین ہتھیالی جاتی۔کسی کے جان سے پیارے مال مویشی ہڑپ لیے جاتے۔ کسی معصوم کواسلامی طریقوں کے خلاف وٹے سٹے کے بوسیدہ رواج کے منہ میں دے دیا جاتا ۔تو کسی معصوم کو ونی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا۔،مگر چاندنی را ت کے اس خوبصورت ماحول میں، اس اماں جی کی نسوانی مگر خوف ناک آواز نے سب کو مرعوب کر دیا تھا۔ان غیر اسلامی ،اللہ و رسول کے پاک و شفاف انسانی فلاح و بہبود کے مضبوط قوانین کے خلاف ہونے والی ان روایات سے باغی اس عورت کے ساتھ جو ظلم ہوا ، اسے میری ننھی جان صرف دیکھ یا سن سکتی تھی۔لیکن اس کمزور جان اماں، صنف نازک نے نہ تو کسی صورت اس ظلم کے آگے جھکنا گوارہ کیا ،اور نہ ہی اپنی بیٹی کو وٹے سٹے جیسے غیر اسلامی رواج کے سامنے پھینکا۔وہ سینہ سپر کیے اس غیر مذہبی فعل کے سامنے بند باندھنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ بیٹی کو وٹے سٹے کی آگ میں جھونکنے کے انکاراور اُس کے اِس غیر متوقع اعلا ن کے ساتھ ہی اماں جی نے کئی غیر اسلامی رسم ورواج کے خلاف اعلان بغاوت بلند کیا تھا۔وہ سالوں پرانے غیر مذہبی رسم ورواج کے پوجاریوں کے بتوں کو توڑ ڈالنے والی تھی۔اس نے ببانگ دھل بھرے مجمعے میں اس نظام کے پرورداؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی۔پنچائیتی اور کٹھ کے معزز لوگ پریدہ زمانہ تھے۔ان کے لیے اس بد تمیز عورت کی کھلی بغاوت قابل برداشت نہ تھی ۔ وہ عورت کہ جس کا آسمان بھی ٹوٹ چکا تھا۔وہ اپنے ننھے بے سہارا پھولوں کی پرورش کے لیے گاؤں والوں کی ہمدردی کی محتاج تھی۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔پنچائیت نے اعلان کیا :’’ اگر کلثوم بی بی نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے دیور کے بیٹے سے نہ کیا تو کل کا سورج نکلتے ہی ، اس کا گھر توڑ دیا جائے۔چھپر کو آگ لگا دی جائے۔اور اس کو بچوں سمیت گاؤں بدر کر دیا جائے‘‘۔موت و حیات کے بیچ سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے تو بندہ مر جاتا ہے، لیکن اگر کسی انسان کا احساس ہی مر جائے تو انسان انسان نہیں رہتا ، بلکہ جانور بن کر انسان کے قبیل سے نکل جاتا ہے۔ قریب گھروں کے بڑے بوڑھوں نے رات بھر اس اماں کو حالات سے لڑنے کی بجائے،سمجھوتہ کر لینے پراکساتے رہے۔وہ ظلم کرنے والوں کے ہاتھ بھی نہیں روک سکتے تھے اور اس مظلوم دکھیاری اماں پر ظلم کی داستان رقم ہوتی بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔سالہا سال کے ہمدرد پڑوسیوں نے اپنے تئیں ہر کوشش کرڈالی تھی،مگر اُس پر عزم خاتون نے جو راستہ چن لیا تھا ،اب چاہے پھول ہوں یا کانٹے اسے تنہا چلنا تھا۔اس کا ہم راہ ہوتا بھی کون ، سب نے تو اس نظام کو اپنا کل اثاثہ بنا رکھا تھا۔ ہمیں تو بس اپنے دوستوں کی جدائی کا غم تھا۔ان کی دوری کا دکھ ہمیں چین نہیں لینے دے رہا تھا۔وہ رات سب نے کرب میں گزاری۔ہمیں ان کی آواز میں ظلم کے خلاف عزم مصمم اور خطرناک طوفان کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔وہ اپنی ایک پڑوسن کو جو قریبی سہیلی بھی تھی ،کہہ رہی تھی:’’ میرے شوہر کے انتقال کے بعد تم لوگ ہی میرا اور میرے بچوں کا سہارا تھے ،اب میرے غموں دکھوں کی مرہم پٹی کی بجائے ،میرے بچوں کے ساتھ ہونے والی زبردستی میں مجھے چپ رہنے کی تلقین کیوں کرتے ہو۔میرے ساتھ اوپر میرا اللہ اور نیچے میرے یہ معصوم بچے ہیں۔جس دردو تکلیف میں میں نے زندگی گزاری ہے ، وٹے سٹے کی سولی چڑھا کر اپنی بیٹی کو وہ غم و انبوہ کثیرجہیز میں نہیں دے سکتی۔میرے بچوں پر صرف میرا حق ہے اور میں اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتی ہوں۔یہ سب کون ہوتے ہیں مجھ سے میری اولاد کا حق چھیننے والے ‘‘۔
آہوں سسکیوں میں وقت نے نہ رکنا تھا ،اور نہ رکا۔ رات کی سیاہی زائل ہو رہی تھی۔منادی نے صدا بلند کی تو سب کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے۔ان میں ہمارے معصوم ہاتھ بھی شامل تھے۔آنکھوں سے گرتے آنسوں کی گرماہٹ گالوں کو محسوس ہوئی تو ایک بھید کھلا ،ایسے تو نہیں اس پاک ذات نے آنسو کے ایک قطرے میں بخشش کا راز پوشیدہ کردیاہے ۔ان قطروں کی قیمت کا اندازہ اس دن ہوا۔ اس رات دعاؤں کا قبول نہ ہونا بھی اُس کی حکمت و بصیرت تھی۔پنچائیت کے اٹل فیصلے کی حکم عدولی کسی صورت ممکن نہیں تھی ،لہذا سورج کی پہلی کرن کے ساتھ گھر کو مسمار کردیا گیا۔ تنکوں سے بنے چھپر کو تیلی دیکھا دی گئی اور پلک جھپکتے ہی غریب کا کچا’’گولڈن محل‘‘ خاک کا ڈھیر بن گیا۔اماں جی کی مزاحمت پر ان پر پائیتی غنڈوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ۔ہم بس چشم نم سے آہ فغاں کرنے والوں میں شامل رہے۔ایک ہفتے بعد انہیں گاؤں بد ر کر دیا گیا۔پھر بیس سال کیسے یہاں سے وہاں ہوگئے پتا ہی نہیں چلا۔اچانک سے ایک آواز کانوں سے ٹکرائی :’’ بیٹا ! کھیر کھا لو‘‘۔ اور ہم یک دم ماضی سے باہر آکر ما ضی کا یہ پر اسرار دروازہ بند کر دیا۔ اب بیس سال بعد اماں جی کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔اپنا کاروبار ہے۔بیٹیاں بھی پیا گھر سدھار گئیں ہیں۔بہوویں بیٹیوں جیسی ملی ہیں۔نعمتوں کی فراوانی ہے۔اللہ کا دیاہوا سب کچھ ہے۔ماضی سے کوئی گلا اور حال سے کوئی ناشکری نہیں۔
’’کیا بھلا ظالم بھی کبھی سرسبز وشاداب ہوا ہے‘‘۔اماں کی گود میں سر رکھا اور گھری ٹھنڈی سانس کھینچ کر بولا :’’ امی جان! کرم دین چاچا کا بیٹا اور بیٹی کیا ابھی تک کنوارے ہیں؟‘‘ انہوں نے انگلی اوپر آسمان کی طرف اٹھائی اور’’ جی‘‘ کہ کر چپ ہو گئیں۔وہی صبر کے دریا آج بھی بہتے نظر آئے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں