پانی کی تلاش

مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ پیر کا دن تھا۔ بادل چھائے ہوئے، سورج کبھی اْن میں چْھپ جاتا،تو کبھی کسی شرارتی بچّے کی مانند باہر جھانکنے لگتا۔ ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے زمین سے اٹھنے والی مہک دِل و دماغ کو مسحور کیے جا رہی تھی۔ ہم دوستوں نے سوچا کہ کیوں نہ موسم کا لْطف اٹھانے کے لیے گرما گرم کچوریاں کھائی جائیں اور پھر مَیں، ایک دوست کے ساتھ کچوریاں لینے بازار کی طرف نکل پڑا۔ ہم ایک مشہور دْکان پر پہنچے اور چاچا جی کو 28 کچوریاں بنانے کو کہا۔
میرے ہاتھ میں پانی کی ایک خالی بوتل تھی، سوچا کہ اسے بھر لوں تاکہ کچوریاں کھانے کے بعد پیاس لگے تو پانی پاس موجود ہو۔ دْکان کے بائیں جانب ایک چائے کا ہوٹل تھا، تو مَیں اس طرف چل پڑا اور وہاں موجود جگ سے پانی بوتل میں انڈیلنے ہی والا تھا کہ ایک صاحب نے آواز دی’’ پانی نہ بھرو‘‘، مَیں نے کہا’’ بس ایک بوتل ہی تو ہے‘‘ اس پر بھی وہ نہ مانے۔ وہاں سے باہر آیا تو ہوٹل سے متصل ایک دْکان میں بڑا سا کولر رکھا دیکھا، خوش ہوکر وہاں بیٹھے بڑے میاں کے قریب جا کر اْن سے پوچھا’’ انکل پینے کا پانی ہوگا133؟؟‘‘ وہ بولے’’ اگلی دْکان کے باہر رکھے کولر سے بھرلو‘‘، بہرحال کْولر سے پانی بھرنے لگا، تو وہاں کام کرنے والے لڑکے نے اونچی آواز سے کہا’’ یہاں سے نہیں، وہ سامنے جو نَل نظر آ رہا ہے، وہاں سے بوتل بھر لو‘‘، مجبوراً اْس نل ہی سے پانی بھر لیا۔ پھر چچا سے کچوریاں لیں اور دوستوں کے پاس پہنچ گئے، جو بے چینی سے اْن کے منتظر تھے۔ کھانے کے بعد ایک دوست نے پانی مانگا تو اْسے بوتل تھما دی، مگر وہ پانی پینے کی بجائے بوتل کو گھورے جا رہا تھا، پوچھنے پر بولا’’ ابے، یہ بھی کوئی پینے کا پانی ہے، اس میں کچرا تیر رہا ہے۔‘‘
ہوٹل اور دْکانوں پر رکھے کولرز میں پانی ہونے کے باوجود، ایک بوتل تک بَھرنے کی اجازت نہ دینے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اْن دْکان داروں کے پاس اپنی ضرورت جتنا ہی پانی ہو، یا پھر انکار کی وجہ’’ مْفتوں‘‘ سے بیزاری رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دْکان دار صاحبان مزاجاً خشک طبیعت کے مالک ہوں۔ نیز، پانی کو یوں بچا بچا کر رکھنا، اس بات کی بھی نشان دہی ہے کہ ہم پانی کی قلّت کا شکار ہو چکے ہیں۔
کراچی جیسے بڑے شہر کی حالت یہ ہے کہ یہاں کے کئی علاقوں میں دو، دو ہفتے یا اس سے بھی زاید عرصے تک پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ میٹرو پولیٹن کے باسی، کسی دیہاتی کی مانند برتن اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور کم و بیش یہی صْورتِ حال، مْلک کے دیگر شہروں کی بھی ہے۔ دراصل ،پانی ہی زندگی ہے اور اسی ناگزیریت کے سبب یہ تنازعات کا بھی محور رہا ہے۔
ماضی کی بہت سی جنگیں محض پانی ہی کے لیے لڑی گئیں اور ماہرین مسلسل یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ مستقبل کی جنگوں کا تعلق بھی پانی ہی سے ہوگا۔ ایک تحقیق کے مطابق، عالمی آبادی کا گیارہ فی صد یعنی 783 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور قلّتِ آب سے دوچار ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں پانی کے مسئلے پر کوئی توجّہ نہیں دی جا رہی۔ ایک طرف، پانی کا بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال ہماری عادت بن چکا ہے، تو دوسری طرف، حکومتی سطح پر بھی آبی وسائل میں اضافے اور اْن کی حفاظت کے حوالے سے سنجیدگی کا فقدان ہے۔

حصہ
mm
خطیب احمد طالب علم ہیں۔ صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل اور تعلیمی امور پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فن خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں