روزہ اور امراضِ قلب

دل کی بیماریاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بہت عام ہیں۔ پاکستان میڈیکل کونسل کے ریسرچ سروے کے مطابق ۴۵سال سے زائد عمر والے تقریباً ۲۷فیصد افراد کو دل کی کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہے۔ دل کی بیماری میں مبتلا یہ لوگ روزے رکھنا بھی چاہتے ہیں اور روزے رکھتے بھی ہیں۔
میڈیکل سائنس کی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ روزہ دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ اس موضوع پر دنیا میں خاصی تحقیق ہو چکی ہے اور یہ جاننے کے لیے مزید تحقیق جاری ہے کہ دل کی بیماریوں کو بڑھانے کا باعث بننے والے اسباب کو روزہ کس طرح کنٹرول کر لیتا ہے۔ روزے کے نتیجے میں دل کا نظام خود بخود درست ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ امریکہ کی بعض یونیورسٹیوں میں تحقیق سے ثابت کیا گیاہے کہ جو لوگ مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ روزہ رکھتے ہیں ان کو دل کے دورے کے امکانات ۵۸فیصد تک کم ہو جاتے ہیں، لیکن اگر روزے مہینے میں دو تین مرتبہ رکھے جائیں تو اس کے طبی فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔ میڈیکل سائنس نے جو اہم فوائد ثابت کیے ہیں ان میں سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں خون میں بعض ہارمونز کی مقدار بڑھ جاتی ہے، یہ مقدار مرَدوں میں دو ہزار فی صد تک اور عورتوں میں ۱۳ سو فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ خون میں اس رطوبت کے اضافے کے نتیجے میں جسم کے میٹابولزم میں ایک تبدیلی آتی ہے، خطرناک کولیسٹرول جسے ہم ایل ڈی ایل (LDL) کہتے ہیں، کی مقدار خود بخود کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اچھے کولیسٹرول میں، جسے ہم ایچ ڈی ایل (HDL) کہتے ہیں اور جو خون کی نالیوں کو سکڑنے سے اور فالج سے بچاتا ہے، اضافہ ہونے لگتاہے۔ کولیسٹرول کی ایک اور قسم ٹرائی گلیسرائڈ (Triglyceride) ہے، اس میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ یہ بات میڈیکل سائنس نے ثابت کی ہے کہ جن لوگوں کی خون کی نالیاں چربی جمنے کی وجہ سے تنگ ہو جائیں، اگر وہ مستقل وقفے سے روزہ رکھیں تو ان نالیوں کے سکڑاؤ میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ ان طبی فوائد کی روشنی میں بلاخوفِ تردید یہ رائے دی جا سکتی ہے کہ روزہ رکھ کر نہ صرف دل کی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد بھی اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
دل کی ایک عام بیماری Heart Failure ہے۔ دل کی اس بیماری میں طویل عرصے سے مبتلا شخص کے دل کی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ روزہ رکھنا ایسے مریضوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Heart Failure کے مریض کے علاج کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ان کے جسم میں موجود پانی کی مقدار کو کم کیا جائے۔ روزہ رکھنے کے نتیجے میں یہ کمی خود بخود پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے خون کی پمپنگ کا عمل بہتر ہو جا تا ہے۔ روزے رکھنے سے انجائنا میں کمی واقع ہوتی ہے، محققین اور علما نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ خدا نخواستہ کسی کو روزے کے دوران سینے میں درد اُٹھے تو زبان کے نیچے دوا رکھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ دوا حلق سے نیچے نہ جائے اور صرف ز بان کے نیچے رکھنے سے ہی جذب ہو جائے تو روزے کے دوران اس دوا کے لینے میں کوئی ممانعت نہیں۔ وہ بالعموم انجائنا کے درد کو دور کرتی ہے، لیکن اگر کسی کو انجائنا کا شدید حملہ ہو تو اسے فی الفور ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح جن لوگوں کو حال ہی میں دل کا دورہ پڑا ہو، ان کے دل کی دیواریں کمزور ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے لیے روزے کے اثرات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو 15 دن یا ایک مہینے قبل دل کا دورہ پڑا ہو ان کو روزے رکھنے میں احتیاط کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا جسم ابھی روزے کے اثرات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ جن افراد کا بائی پاس آپریشن ہو چکا ہے یا جن کو دل کی شریانوں میں Stent لگے ہوئے ہیں اگر ان کے دل کا نظام نارمل ہے تو وہ پورے روزے رکھ سکتے ہیں اور رمضان کی تمام عبادتوں میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔
دل کی ایک اور کیفیت دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا ہے۔ دھڑکن کی اس بے ترتیبی کے نتیجے میں دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان میں سے ایک بیماری Atrial fibrillation کہلاتی ہے۔ اگر دھڑکن قابو میں ہے تو ایسے مریضوں کے لیے روزے رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں، لیکن ایسے بہت سے مریض خون پتلا کرنے والی دوائیں استعمال کر رہے ہوتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ ڈاکٹر سے مشورے کے بعد روزہ رکھیں تاکہ خون پتلا رکھنے والی دواؤں کے اوقات کا تعین ہو سکے۔ ان کا خون نہ زیادہ گاڑھا ہو جائے اور نہ پتلا اس لیے کہ روزہ رکھنے سے خون تھوڑا سا گاڑھا ہو جاتا ہے اور خون جمنے کا عمل جس کو Thrombosis کہتے ہیں، بعض اوقات بڑھ جاتا ہے۔ مریض کو ایسی کیفیت ہو تو وہ خون پتلا کرنے والی دوائیں مستقل استعمال کرے تاکہ دل کے دورے یا انجائنا کے درد سے محفوظ رہا جائے۔
دل کے مریضوں کو کئی احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلی اور اہم احتیاط پانی کے استعمال میں کمی لانا ہے۔ عام لوگ صبح سے شام تک بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں تو وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ افطار اور سحر کے درمیان زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے، لیکن دل کے مریضوں کو اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے اور تجویز کی گئی مقررہ مقدار سے زیادہ پانی نہیں پینا چاہیے، کیونکہ تھوڑے وقت میں زیادہ پانی استعمال کرنا دل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتاہے۔
دوسری احتیاط یہ ہے کہ دل کے مریض ڈاکٹر کی ہدایت پر کھانے پینے میں احتیاط کریں بالخصوص چکنی، مرغن غذا، پکوڑے، اورنمک کا استعمال کم کریں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان میں دل کے مریض زائد غذا لینے اور بے احتیاطی کی وجہ سے بیماری کا زیادہ شکار ہو جاتے ہیں۔ روزہ رکھنا مشقت والا کام ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھانے پینے میں بے احتیاطی برتی جائے۔
دل کے مریضوں کو تیسری احتیاط یہ کرنی چاہیے کہ اپنی دواؤں کے استعمال کے اوقات کار نئے سرے سے متعین کریں۔ روزے انسانی دل پر اثرات مرتب کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ رمضان سے قبل ہی ڈاکٹر سے مشورہ کر لیا جائے۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں