ریاست قلات 


پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین بلوچ آ بادی کا شہرقلات ہے اس وقت پانچ لاکھ  سے زائد آ بادی کا شہر ہے، جہاں دو فیصد کم و بیش اقلیت بھی اس شہر میں رہتے ہیں تین فبروری انیس سو چون کو قلات کو ضلع کا درجہ دیا گیا ۔جبکہ قلات کی ریاست کے پہلے حکمران کے طور پرمیر احمد زئی بہت ہی کامیاب حکمران ثابت ہوئےتھے حتاکہ قبائیلی سرداروں نے جرگے کے فیصلے کے تحت 1666 میں میر احمد خان کو والی قلات مقرر کیا گیا تھا۔جب کہ اس سے پہلے یہ تمام علاقہ دہلی کے مغل حکمران اور نگ زیب کے ما تحت رہا تھا۔میر احمد خان کے انتقا ل کے بعد میر محراب خان کو قلات کا تاج دیا گیا۔ قلات ضلع بلوچ سرداروں کا صدر مقام رہا ہے ہمیشہ ہزاروں سردار ہر سال قلات کا رخ کرتے تھے اور وہاں ہونے والے جرگوں سے متاثرہو کر اپنے اپنے علاقوں میں پھر جا کے جرگے کیا کرتے تھے بلوچستان کے سرداری نظام کی ابتداء بھی قلات سے ہوئی تھی۔اور آج بھی حکومت بلوچی کا جرگہ حال اپنی اصل شکل میں قلات میں  موجود ہے

ایک وقت تھا  جب بلوچستان کے نقشے میں  ریاست قلات کی اس تقسیم کی بنیاد پر قلات کے علاقوں میں قبائل کو بھی تقسیم کیا گیا تھااوراسی تقسیم کی بنیاد پر اپنی اپنی فوج کی بنیاد بھی رکھی گئی  تھی۔ ریاست قلات کا جھنڈہ  انگریز حکومت کے دور میں قلات کے حکمران میر نصیرخان  نوری نے بلوچ فوج اور سرداروں کے ہمراہ احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ مرہٹوں کے خلاف مشہور پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔اس وقت بنایا تھا اور اس جھنڈے کو لیکر جنگ میں اترا گیا تھا یہ جھنڈا دو رنگوں  پہ مشتمل تھا سبز اور سرخ رنگ حتاکہ آج  بھی قلات میں اس جھنڈے کا نقشہ مقامی مسجد کے محراب پہ سجا ہوا ہے اور اس پہ بلوچی حکومت واضع  لکھا ہوا ہے ۔قلات بلوچستان کو وہ اہم ترین شہر ہے جہاں خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے جہاں سے دعوت تبلیغ میں سب سے زیادہ لوگ نکلتے ہیں جہاں سے ہنر مند لوگوں کی لمبی قطاریں بھی موجود  ہے ، جہاں سے ایسے ہنر مند نوجوان پیدا ہوئے ہیں اُن کی مثال دی  جاتی ہے۔بلوچستان کے نقشے میں  ریاست قلات کی اس تقسیم کی بنیاد پر قلات کے علاقوں میں قبائل کو بھی تقسیم کیا گیا تھا  اسی بنیاد پر اپنی فوج کی بنیاد بھی رکھی تھی ان کے دربار میں اسی ترتیب سے جھالاوان اور ساراون کے سرداروں کے نشستیں مقرر کی گئیں تھیں میر احمد یار خان نے قیام پاکستان کے بعد ریاست قلات کو پاکستان کا حصہ بنا دیا ذوالفقار  علی بھٹو کے دور میں میر احمد یار خان بلوچستان کے گورنر بھی رہے تھے ۔ میر احمد یار خان خان آف قلات نے بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست قلات کے سربراہ کی حیثیت سے28  مارچ1948کو کراچی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کردیئے قلات کے حکمران کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ بلوچستان کے سب سے آخری ریاست تھی۔
قلات کی ریاست کے پہلے حکمران کے طور پرمیر احمد زئی بہت ہی کامیاب حکمران ثابت ہوئے اگر چہ کہ اس وقت ریاست قلات کی حدود قلات اور سوراب کے علاقوں پر مشتمل تھی جب کہ یہ تمام علاقہ دہلی کے مغل حکمران اور نگ زیب کے ما تحت یا باجگزار تھے۔ 29سال کی حکمرانی کے بعد میر احمد خان کے انتقا ل کے بعد میر محراب خان کو قلات کا حکمران بنا دیا گیا۔قلات پر  احمد زئی قبیلے نے لشکر کشی کرکے میرواڑیوں کے قبضے سے قلات چھین لیا تھا اور یوں قلات پر بلوچوں کی حکمرانی قائم ہوگئی جو قیام پاکستان تک قائم رہی تھی۔

جبکہ قلات میں بارشوں میں کھانے پینے کا بھی الگ ہی مزہ ہوتا  ہے ۔ لوگ طرح طرح کے کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور سبز  چائے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں خوبصورت موسم اور برکھا برسات ہوتو ایسے لوازمات میسّر ہو جاتے ہےکہ دل کھول کر کھانا پڑتا ہےقلات کے کھانے انتہائی اہمیت کے حامل ہے اس شہر میں کھانے کا الگ ذائقہ ملے گا کیونکہ اس شہر میں سرداروں کے کھانے بنانے والے باورچی بہت اعلی قسم کے تھے جس وجہ سے اس شہر کے باسیوں نے کھانا بنانا خوب سیکھ لیا تھا۔

قلات  بلوچستان کا سر سبز علاقہ ضرور ہے مگر  بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تمام باغات خشک ہو ئے ہیں جہاں زمینداروں کو اربوں روپیہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ گزشتہ دس سال پہلے یہ شہر بہت بد امنی کا شکار تھا مگر  اب یہ شہر بہت پر امن بنایا ہوا ہے ، چوری ڈکیتی کے وارداتوں میں  بہت کمی آ ئی ہے ۔ عوام میں سکون پیدا کیا گیا  ہے۔ جہاں دن کو بازار جانا محال تھا اب رات کو دیر تک بازار میں رونقیں بحال ہوتی ہیں۔ جہاں آ ئے روز مشخ شدہ لاش موصول ہوتی تھی مگر  اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے ۔جبکہ یاد رہے کہ بلوچستان میں قلات  کو انتہائی خطرناک علاقے تصور کیا جاتا تھا مگر اب نہیں ۔ حتاکہ چند سالوں سے حکمرانوں نے  ناراض بلوچ بھائیوں سے بھی مزاکرات اور ان کے مسائل و خواہشات کو ترجیح دینے کی بھی کوشش شروع کی ہے جو ایک مثبت قدم ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں