خدارا۔۔۔! عزائم کے قاتل نہ بنیں

فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی اشفاق احمد کا تحریر کردہ مشہور ڈرامہ ہے جو پی ٹی وی پر قسط وار نشر کیا گیا،اگر کبھی موقع ملے تو وقت نکال یہ ڈرامہ ضرور دیکھیے گا، اس ڈرامے میں امیروں کی شاہانہ طرزِ زندگی اور فضول خرچی کو دیکھ کر فہمیدہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتی ہے، پیسے کی ریل پیل اور نمائش دیکھ کر فہمیدہ کے دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے۔ غرض اس ڈرامے کا بنیادی مقصد امیروں کی شاہانہ طرزِ زندگی کو دیکھ کر غریبوں پر گزرنے والی کیفیت کی عکاسی کرنا ہے۔اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف دور جدید میں جہاں سائنس کا سفر ترقی کی طرف گامزن ہے آئے روز نئی نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں سائنس دان مریخ پر زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، وہیں ہمارا معاشرہ اور خصوصاً والدین کو ایک فکر لاحق ہوگئی ہے جس میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور کمال بات یہ ہے کے اس فکر مندی کے باعث وہ خود تو کم اور اپنے بچوں کو زیادہ ذہنی اذیت کا شکار کرتے ہیں، اس فکر کا نام ہے “اچھا اور روشن مستقبل” بلکہ اگر یوں کہا جائے کے یہ روشن مستقبل کا خواب اب احساس کمتری میں تبدیل ہوچکا ہے تو بیجا نہ ہوگا، فلاں کا بیٹا انجنیئر بن رہا ہے تو میرا بیٹا بھی بنے، فلاں کی بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے تو میری بیٹی بھی ڈاکٹر بنے گی، غرض ہر بندے کی یہ خواہش ہے کے اس کا بچہ بابائے سائنس بن جائے اور اپنی تھیوری کے ذریعے دنیا کو ہلاکر رکھ دے۔ دنیا سیاروں پر پانی تلاش کررہی ہے اور ہم لوگ صرف بچے کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے درپے لگے ہیں، اس سے کم تو شاید ہماری نظر میں گالی کے برابر ہے، بقول اوریا مقبول جان کے “اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کے علم کے بجائے ڈگری کو مارکیٹ میں تولتا ہے” آپ وہ علم حاصل کرتے ہیں جس کی مارکیٹ میں مانگ ہو، چلیں مثال ہی سے سمجھ لیں کتنے فیصد والدین ایسے ہیں جو سیاسیات، تاریخ، فلسفہ کے شعبے میں اپنے بچے کو داخل کروا کر خوشی محسوس کریں گے؟؟ ان شعبہ جات میں داخلے کا تو شاید ہم تصور ہی نہیں کرتے، اول تو اگر کوئی طالب علم سائنس سے آرٹس کی طرف آجائے تو یہ اس کی ناکامی تصور کی جاتی ہے، رہی سہی کسر خاندان میں موجود ماہرینِ تعلیم اور مفت کے بن مانگے مشورے دینے کو اپنا فرض سمجھنے والے حضرات تنقید کے نشتر چلا کر پوری کردیتے ہیں، ان میں اکثریت ان بیچاروں کی ہوتی ہے جن کی اگر مارک شیٹ دیکھی جائے تو آسمان کے بجائے اس میں چاند تارے نظر آجائیں گے، کیونکہ کبھی بھی پڑھا لکھا شخص اس قسم کی باتیں نہیں کرتا، غرض یہ کے بچے کے پیدا ہوتے ہی انجینئر اور ڈاکٹر جیسے الفاظ اس کے نام کے ساتھ پیدائشی طور پڑ جوڑ دیے جاتے ہیں، پہلی کلاس میں داخل ہوتے ہی والدین بچے کے روشن مستقبل کے لئے پیسے جوڑنا شروع کردیتے ہیں، مگر افسوس کے والدین بچے سے اس کی خواہش نہیں پوچھتے کے بیٹا تمہیں کیا پڑھنا ہے؟ اور کیا پڑھنے کا شوق ہے؟ اور جبری طور پر اپنے من پسند شعبے میں داخلہ کرواکر فخر محسوس کرتے ہیں، اگر بچہ نہ پڑھ پائے اور صلاحیت کی کمی کی وجہ سے پیچھے رہ جائے تو دوسرے بچوں سے موازنہ کرواکر بچے کی ذہنی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور باتیں سنا سنا کر بچے کے عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں، فلاں بھی تو پڑھ رہا ہے تم کیوں نہیں پرھ سکتے؟ فلاں تو لڑکی ہوکر تم سے آگے ہے شرم کرو۔
یاد رکھیں پانچوں انگلیاں کبھی برابر نہیں ہوتیں، ہر کسی کو میرے میرے رب نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، کسی دانا کا قول ہے کے” آدمی کبھی محبت سے نہیں ہمیشہ کام سے تھکتا ہے” جدید تحقیق بھی یہ ہی بات کہتی ہے کے جو لوگ اپنے شوق سے پیشے کا انتخاب کرتے ہیں وہ دوسروں کی نسبت زیادہ ترقی کرتے ہیں اور اداروں کو چلانے والوں کی اکثریت بھی انہی افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنے شوق سے کام کرتے ہیں۔ والدین کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہئے کے اگر تعلیمی سفر کے دوران ہی اپنے بچے کا دوسروں سے موازنہ کرواکر احساس کمتری کا شکار کریں گے تو مستقبل میں نوکری کے وقت جب زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی جب وہ باس کے بھتیجے یا کسی سفارشی کو پروموشن ملتا دیکھا گا تو اس کی کی کہانی فہمیدہ سے کچھ مختلف نہیں ہوگی ذرا نہیں پورا سوچئے۔۔۔!!

حصہ

جواب چھوڑ دیں